گرمیوں كی چھٹیوں سے بہت پہلے ہی ہم سب
بھائی اور بہنیں ڈاكیے كا شدت سے انتظار شروع كر دیتے تھے- ہمارے اسكول سے
آنے كے بعد ہی ڈاكیہ ہماری گلی میں نظر آتا تھ- ہم سب اسكول سے آكر بستے
پھینكتے، وضو كر كے نماز پڑھتے اور كھانا كھا كر دروازے كے چكر لگانا شروع
كر دیتے- بس حیدرآباد سندھ سے آنے والے ایک خط میں ہم سب كی جان اٹكی ہوتی
تھی - یہ خط ایک بھائی كا اپنی ماموں زاد بہن كے لئے دعوت نامہ ہوتا تھ- ہر
سال، خاندانی رسم كے مطابق، جامی ماموں ہماری والدہ اور ہم سب كو چھٹیوں
میں اپنے گھر حیدرآباد مدعو كرتے تھے - ہماری والدہ ہم سب كو ساتھ لے كر
پاكستان میں اپنے اكلوتے رشتہ دار بھائی سے ملنے كراچی سے حیدر آباد سندھ
جاتیں اور یوں ہماری گرمیوں كی چھٹیوں میں جان پڑ جاتی-
یہ اس دور كی بات ہے جب كراچی سے حیدر آباد كا سفر صرف ریل گاڑی كے ذریعہ
ہی ممكن تھ- سفر كے دن سے كئی روز پہلے ہی سفر كی تیاریاں شروع ہو جاتیں-
ماموں اور ان كے اقارب كے لیے تحفے خریدے جاتے - ٹكٹ تو بہت پہلے ہی خرید
لیے جاتے - ٹین كے بكسوں میں سلیقے سے كپڑے ركھے جاتے - ہم سب اپنی پسندیدہ
كتابیں بھی اپنے بكسوں میں ركھ لیتے اور سفر شروع ہونے سے بہت پہلے ہی سفر
كے لمحوں كا لطف لینا شروع كر دیتے -
كیا سفر ہوتا تھ- ابا جان كی ١٩٦٧ ماڈل "ھل مین" گاڑی میں ہم سب ٹھنس كر
بیٹھ جاتے - راستے كا ہر منظر ہمیں نیا اور خوبصورت دكھائی دیت- ناظم آباد
چورنگی سے لسبیلہ كی جانب جانے كیلئے مڑتے ہی ابا جان ملا احمد كی دكان پر
گاڑی روک دیتے- تازہ مٹھائیاں دیكھ كر ہم سب كا دل للچانے لگت- امرتی، قلا
قند، بالو شاہی اور چم چم كے ڈبے جامی ماموں اور ان كے گھر والوں كے لئے
ہوتے- ہمارے للچائے ہوئے چہرے دیكھ كر ابا جان ملی جلی (مكس) مٹھائی كا ایک
ڈبہ ہم سب كے لئے بھی لے لیتے-تم سب ریل میں كھا لین- وہ مسكراتے ہوئے ڈبہ
ہم میں سے كسی ایک كے ہاتھ میں دیدیتے -
لسبیلہ، گرومندر، ایمپریس ماركیٹ سے ہوتے ہوئے جب ہم كینٹ اسٹیشن پہنچتے تو
پسینہ سے شرابور ہونے كے باوجود ہم سب كے چہرے خوشی سے گلنار ہو چكے ہوتے
تھے - گاڑی سے باہر چھلانگ لگاتے، سامان اٹھاتے اور ابا جان كو ڈھنگ سے خدا
حافظ كئے بغیر ہی ہم ریل كی طرف دوڑ لگا دیتے- اكثر ہم عوامی ایكسپریس سے
ہی حیدرآباد جاتے- جوں ہی ریل گاڑی كراچی كی حدود سے باہر نكلتی، صحرائے
سندھ كا بانكپن ہم سب كو اپنے سحر میں لے لیت- ملا احمد كی مٹھائی بھول
بھال كر ہم سب ریت كے چھوٹے بڑے اونچے نیچے گول اور نوكیلے ٹیلوں كے نظاروں
میں كھو جاتے- سندھ كے عظیم صحرا كا حسن، بانكپن، وسعت، چمک دمک اور كشادگی
ہم میں سے كسی كو بھی مٹھائی، كتابوں اور حتیٰ كہ امی كی طرف بھی متوجہ نہ
ہونے دیتے- ہوش یوں آتا كہ ہم میں سے كوئی نہ كوئی چلا كر كہتا، كوٹری كا
پل آ گی- پھر ہم سب كھڑكیوں سے لٹک جاتے اور اس لوہے كے اس عظیم پل كو
ہمیشہ ہمیشہ كیلئے اپنی آنكھوں میں بند كرنے كی كوشش میں لگ جاتے- اور پھر
یک دم حیدر آباد كی ہنستی بستی گلیاں ہماری نظروں كے سامنے ہوتیں- ریل گاڑی
آہستہ ہونے لگتی اور پھر حیدرآباد اسٹیشن كے بیچ میں پہنچ كر رک جاتی-
ہم ابھی سامان سمیٹنے میں مصروف ہی ہوتے كے جامی ماموں ہمیں ڈھونڈتے
ڈھونڈتے ہمارے ڈبے تک آجاتے- بھابھی كہاں ہیں- امی پوچھتیں- میں آفس سے
سیدھا آرہا ہوں- ماموں جواب دیتے- ہم سب سمجھ جاتے كے ممانی ہمارے لئے
كھانا پكا رہی ہونگی اور ماموں گھر سے ہی آرہے ہیں- بڑی آپا تو كن انكھیوں
سے ہماری طرف دیكھ كر مسكرا بھی دیتیں-
جامی ماموں دو یا تین یا پھر چار دنوں میں ہمیں خوب گھماتے- رانی باغ،
ٹھنڈی سڑک، جامشورو كا پل اور پلا مچھلی، شاہی بازار، لطیف آباد اور نہر كا
كنارہ تو ہم سب كی فرمائشی جگہیں ہوتی تھیں لیكن وہ ہمیں شہر سے باہر بھی
كئی جگہوں پر لیجاتے- وہ اور ہماری امی بھارت كے شہر شاہجہانپور سے ہجرت كر
كے پاكستان آئے تھے مگر جامی ماموں پاكستان آنے سے پہلے دہلی میں بھی رہے
تھے بلكہ وہیں پلے بڑھے تھے- تقسیم ہند كے وقت وہ دہلی میں دسویں جماعت میں
پڑھتے تھے- پاكستان آنے كے بعد وہ اپنی تعلیم جاری نہ ركھ سكے جس كا انہیں
ہمیشہ افسوس رہتا تھ-
جامی ماموں كو حیدرآباد كی گلیوں میں ہمیشہ دہلی كی یاد آتی رہتی تھی- وہ
كہتے، دہلی كی طرح حیدرآباد بھی اونچا نیچا شہر ہے- دونوں شہر تاریخی ہیں-
دونوں كی راتیں گرمیوں میں بھی ٹھنڈی ہو جاتی ہیں- شاہی بازار كی دكانوں سے
ربڑی خریدتے ہوئے وہ كہتے، مسلمان كے ہاتھ كا ذائقہ ہی كچھ اور ہوتا ہے-
امی مسكراتے ہوئے كہتیں، بھائی جان یہ آپكا تعصب ہے ورنہ ذائقہ كا مذہب سے
كیا لینا دین- وہ چپ رہتے- كبھی جواب نہ دیتے بہن كی كسی بھی بات ك- وہ
حیدرآباد كی گلیوں میں گھماتے ہوئے ہمیں دہلی اور حیدرآباد كے درمیان ایسی
ایسی شباہتیں گنواتے كے ہمیں یوں لگتا جیسے ہم نے دہلی بھی گھوم لی-
كبھی كبھی جامی ماموں كو نہ جانے كیا ہو جات- وہ دہلی اور حیدرآباد كا فرق
بتانے لگتے - كہتے، دہلی حكمرانوں كی یاد دلاتا ہے اور حیدرآباد درویشوں كی-
دہلی قلعوں، محلوں اور جابر حكمرانوں كی یادوں سے آباد ہے - حیدرآباد
درویشوں كی قبروں اور ان كی خانقاہوں سے- وہ كہتے، حیدرآباد دریا دل، درویش
صفت، سخی اور ملنسار لوگوں كا شہر ہے- دیكھو ان لوگوں نے ہم اجنبیوں كو
كیسے گلے لگایا ہے، كیسے قبول كیا ہے- اپنی زمین، اپنی بستیاں، اپنی گلیاں
اجنبیوں كے حوالے كر كے بھی یہ لوگ خوش وخرم نظر آتے ہیں- حیدرآباد، وہ
كہتے، یہ شہر كبھی حكمرانوں كی یاد كا قیدی نہیں بن- یہاں درویشوں اور
بزرگوں كی زیادہ توقیر ہوتی ہے-
آج آسٹریلیا میں مجھے دہلی كے مہاجر جامی ماموں كی حیدرآباد كے متعلق باتیں
یاد آرہی ہیں- سندھ كے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں میں برسیاں منانے اور
مر جانے والے سیاستدانوں كو درویش بنا كر پیش كرنے كا رجحان كچھ یوں ہی
نہیں ہے- جامی ماموں كے بقول، سندہ میں حكمرانوں اور سیاستدانوں كی نہیں،
درویشوں اور بزرگوں كی زیادہ توقیر ہوتی ہے- |