ترکی میں جشن نوروز اور پاکستانی طلباء ۔

آجکل پاکستانی طلباء کا اعلی تعلیم کے حصول کے لیئے مغربی ممالک سے زیادہ اپنے دوست ممالک کی جانب رجحان پیدا ہورہا ہے اور ہر سال طلباء کی خاصی بڑی تعداد اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے ان دوست ممالک کا رخ کرتے ہیں جن میں سرفہرست چین اور ترکی ہیں یہی وجہ ہے کہ چین کے شہر بیجنگ اور شنگھائی کی طرح ترکی کے شہر انقرہ میں بھی پاکستانی طلباء کی خاصی بڑی تعداد مقیم ہے جو وہاں ہونے والے کئی مقامی اور قومی تہواروں کی تقریبات میں اپنے ترک بھائی بہنوں سے اظہار یکجہتی کے لیئے ان میں بہت جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتے ہیں ۔

اسی طرح کا ایک تہوار ترک عوام ہر سال جشن نوروز کے نا م سے سرکاری طور پر مناتے ہیں جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جس کی ابتدا ایران کی سلطنت فارس سے شروع ہوئی تھی جو اب صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ کئی صدیوں سے وسطی ایشیاء سے بلقان تک کے وسیع و عریض علاقے میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اس جشن کو منانے والوں کا ماننا ہے کہ یہ موسم بہار کی آمد اور قدرت کی بیداری کا جشن ہے جس میں ہر انسان چرند پرند پھولوں پھلوں پودوں میں نئی زندگی کا احساس ہوتا ہے ماحول میں تازگی محسوس ہوتی ہے یہ جشن عالم انسانیت کے لیئے پیار و محبت امن اور بھائی چارے کا پیغام لاتا ہے۔

جس طرح دنیا میں منائے جانے والے کئی تہواروں میں مخصوص پکوانوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے اس طرح ترکی میں اس جشن نوروز کے موقع پر بھی خصوصی پکوان تیار کیئے جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ تیار کیئے جانے والے پکوان کو سبزی پلا و کہا جاتا ہے جس میں ہری سبزیوں اور خصوصی طور پر ہری پیاز کے پتوں کو استمال کیا جاتا ہے ۔

اس جشن نوروز کی سب سے اہم اور دلچسپ بات سڑکوں ، گلیوں اور محلوں میں بڑے بڑے آگ کے الاو روشن کرنا ہے پرانی تاریخ میں اس الاو کو جلانے کا مقصد ان لوگوں کا عبادت کرنا تھا کو آتش پجاری تھے لیکن ترکی تاریخ کے مطابق ان الاو کو روشن کرنے سے مراد آتش امن ہے جس طر ح اولمپک کھیل کی مشعل کو بھی انہی معنوں میں لیا جاتا ہے ۔

اس دفعہ ترکی میں منائے جانے والے جشن نوروز کی سب سے اہم بات یہ تھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا بلکہ وہ تمام پاکستانیوں کے لیئے نہ صرف باعث خوشی ہے بلکہ قابل فخر بھی ہے کہ ترکی کے شہر انقرہ میں حاجت تپے یونیورسٹی میں تعلیم پذیر پاکستانی طلباء نے نہ صرف اس تہوار میں اپنے ترک بھائی بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جشن نوروز میں بڑھ چڑھ حصہ لیا بلکہ اس موقع پر یونیورسٹی میں مختلف اسٹالز لگائے جن میں ان طلباء نے پاکستانی صوبوں کے ثقافتی لباس زیب تن کیئے ہوئے تھے اور ہر اسٹال پر پاکستانی دستکاری کے نمونوں کو نمائش کے لیئے رکھا تھا جن میں خواتین کے خوبصورت کڑھے ہوئے لباس ، مصنوعی زیورات، چوڑیاں ، اجرک اور پاکستان کے تمام صوبوں کے روایتی لباس تھے ان اسٹالز پر خواتین کے لیئے خوبصورت دلکش اور دیدہ زیب ڈیزائن میں مہندی لگانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا جو کہ ترک خواتین کے لیئے بہت دلچسپی کا باعث تھا ان اسٹالز پر ترک خواتین کی لمبی قطاریں لگی ہوئیں تھیں جو نت نئے ڈیزائن میں مہندی لگوانے کی خواہش کا اظہار کررہی تھیں ۔

اس جشن نوروز کی سب سے اہم اور دلچسپ بات سڑکوں ، گلیوں اور محلوں میں بڑے بڑے آگ کے الاو روشن کرنا ہے پرانی تاریخ میں اس الاو کو جلانے کا مقصد ان لوگوں کا عبادت کرنا تھا کو آتش پجاری تھے لیکن ترکی تاریخ کے مطابق ان الاو کو روشن کرنے سے مراد آتش امن ہے جس طر ح اولمپک کھیل کی مشعل کو بھی انہی معنوں میں لیا جاتا ہے ۔

اس دفعہ ترکی میں منائے جانے والے جشن نوروز کی سب سے اہم بات یہ تھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا بلکہ وہ تمام پاکستانیوں کے لیئے نہ صرف باعث خوشی ہے بلکہ قابل فخر بھی ہے کہ ترکی کے شہر انقرہ میں حاجت تپے یونیورسٹی میں تعلیم پذیر پاکستانی طلباء نے نہ صرف اس تہوار میں اپنے ترک بھائی بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جشن نوروز میں بڑھ چڑھ حصہ لیا بلکہ اس موقع پر یونیورسٹی میں مختلف اسٹالز لگائے جن میں ان طلباء نے پاکستانی صوبوں کے ثقافتی لباس زیب تن کیئے ہوئے تھے اور ہر اسٹال پر پاکستانی دستکاری کے نمونوں کو نمائش کے لیئے رکھا تھا جن میں خواتین کے خوبصورت کڑھے ہوئے لباس ، مصنوعی زیورات، چوڑیاں ، اجرک اور پاکستان کے تمام صوبوں کے روایتی لباس تھے ان اسٹالز پر خواتین کے لیئے خوبصورت دلکش اور دیدہ زیب ڈیزائن میں مہندی لگانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا جو کہ ترک خواتین کے لیئے بہت دلچسپی کا باعث تھا ان اسٹالز پر ترک خواتین کی لمبی قطاریں لگی ہوئیں تھیں جو نت نئے ڈیزائن میں مہندی لگوانے کی خواہش کا اظہار کررہی تھیں ۔

مجھے ان تمام پاکستانی طلباء پر فخر ہے جو دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی اپنے وطن عزیز پاکستان کی ثقافت کو اجاگر کرتے ہیں اور نہ صرف پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں بلکہ پاکستانی ثقافت کو بھی نہایت عمدگی سے متعارف کراتے ہیں ۔

یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام دنیا میں واقع پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے بھی پاکستان کی ثقافت کو ان ممالک میں متعارف کرانا چاہیے بلکہ تمام ممالک میں پاکستانی کلچر سینٹر کھولنے پر بھی توجہ دینے چاہیئے۔
محمد ارشد قریشی
About the Author: محمد ارشد قریشی Read More Articles by محمد ارشد قریشی: 2 Articles with 1442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.