پاکستان میں سماجی ، سیاسی مسائل
سمیت لاتعداد ایسے معاملات التوا میں پڑے ہوئے ہیں جس کے سبب اہم ایشوز پر
سنجیدہ پالیسیاں ندارد ہیں۔ تاہم ان تمام گردگوں حالات کے باوجود ملکی
سلامتی کے اہم ادارے سول ایوی ایشن پالیسی کو ترتیب دینے کا عمل شروع کیا
گیا سول ایوی ایشن کی پالیسی ترتیب دینے کیلئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی
برائے ہوابازی کیپٹن شجاعت عظیم کے مطابق قومی ایوی ایشن پالیسی کے حوالے
سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا گیااور قومی ایوی ایشن پالیسی کے
حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈر زنے شریک ہوکر ایک قومی پالیسی بنانے میں اہم
کردار ادا کیا ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قومی ایوی ایشن کے حوالے سے پالیسی
کافی عرصے بعد بنائی گئی ہے اور اس پالیسی کو بنانے کیلئے حکومت نے تمام
اسٹیک ہولڈرز ، ایوی ایشن کے ماہرین اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی
خدمات حاصل کیں ۔
وفاقی حکومت نے قومی ایوی ایشن پالیسی 2015کے حوالے اسلام آباد میں پالیسی
کووزیر اعظم میاں محمدنواز شریف نے اجرا کیا۔نئی پالیسی کو ملکی ایوی ایشن
کی تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے ۔دنیا میں ترقی یافتہ ممالک میں
سہل سفر کیلئے عوام کو جدید سہولیات کی یقینی فراہمی کو ممکن بنایا جاتا
ہے۔اور کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے مواصلات کا بہتر و فعال نظام ایک اہم
کردار ادا کرتا ہے۔قومی ایوی ایشن پالیسی میں اس امر کو اہمیت دی گئی ہے کہ
محفوظ فعال ائیر ٹرانسپورٹیشن اسٹرکچر کو ترقی دینے کیلئے کاروبار کے بہتر
مواقع اور وسائل کے موثر استعمال کیذریعے اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھایا
جائے۔اس میں ایک اہم نقطہ ایوی ایشن سیفٹی اورسکdور ٹی کو یقینی بنانے
کیلئے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ائیر پورٹ سکdور ٹی فورس کے
ریگولیٹری اور خدمات کی فراہمی کے کاموں کو علیحدہ علیحدہ کیا جانا ہے۔ساتھ
ہی مثبت پالیسی یہ بھی ہے کہ سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ کو خود مختار بنانے کے
عزم کا اعادہ کیا گیا۔ قومی ایوی ایشن پالیسی میں آزاد ائیر سروسزایگریمنٹس
کرنے ، اوپن سکائی پالیسی اختیار کرنے اور ہوائی اڈوں کے ااپریشن اور
انتظام کیلئے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تصور کو فروغ کے ساتھ ساتھ عالمی
کمپنیوں کے ساتھ ملکر پبلک پارٹنر شپ کے موزوں ماڈل کے تلاش کرنے کی پالیسی
کا مرتب ہونا بھی ایک مثبت سوچ کی علامت ہے۔اہم بات یہ ہے کہ قومی ایوی
ایشن پالیسی میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ تجارت و سیاحت ملکی اہم
صنعت ہیلہذا اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ، دنیا کے بیشتر ممالک کی
ذریعہ آمدنی سیاحت سے وابستہ ہے اور ملک کو کیثر زر مبادلہ اسذرائع سے حاصل
ہوتا ہے اگر اس شعبے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے تو یقینی طور پر پاکستان
کو سیاحوں کی جنت بنایا جاسکتا ہے لیکن بد قسمتی سے جس قسم کے حالات
پاکستان میں وقوع پزیر ہیں وہاں غیر ملکی سیاحوں کو آنے کی ترغیب دینا بذات
خود ایک چیلنج ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں فضائی
مسافروں کو اپنے سفر اور کارگو کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا
ہے اس حوالے سے ان کی مشکلات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ حالیہ کچھ عرصے
اس حوالے سے کافی شکایات سامنے آئی جس میں مسافروں کے سامان کسی دوسرے شہر
پہنچ جاتے تھے جبکہ سفر کے حوالے سے متعدد ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس
میں وی آپی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔فضائی قوانین کی خلاف ورزی کے
ساتھ ساتھ اقربا پروری اور سیاسی نفوذ کے وجہ سے مسافروں کو شدید کوفت کا
سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح کی کچھ ایسے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہونے کی
بنا پر حکومت کو سبکی کا سامنا ہوا۔لہذا ان معاملات پر توجہ دینے کی
انتہائی ضرورت ہے۔ائیر پورٹس سے پیشہ وارانہ تربیت کے حامل چیف آپریٹرنگ
افسران کی تعیناتی ایک اچھا اقدام ہوگا ۔ اس حوالے سے ہوئی اڈوں پر کام
کرنے والے تمام اداروں بشمول اے این ایف ، کسٹمز اور امیگریشن کا
آپریشنلکنٹرول چیف آپریٹنگ آفسرز کو دینے کی پالیسی میں یہ بھی دیکھنا ہوگا
کہ ایسے افسران کو کسی سیاسی بنیادوں پر تعینات نہ کیا جائے کیونکہ بیشتر
اوقات یہی دیکھا جاتا ہے کہ سیاسی رسوخ کے حامل افراد اپنی سیاسی وفاداری
کا پاس رکھنے کیلئے ایسے عوامل کرجاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔کسی
مطلوبہ شخص کو امیگریشن کی نظروں سے بچا کر لے جانا اور بلیک لسٹ ہونے کے
باوجود ملک سے فرار ہونے کے کئی واقعات ملک میں بد نامی کا سبب بن چکے ہیں
اس ضمن میں اسلام آباد ائیر پورٹ سے غیر قانونی طور روسی خواتین کا بغیر
قانونی دستاویزات کے پاکستان آنا اور پھر وہاں سے واپس فرار ہوجانے جیسے
متعدد واقعات امیگریشن حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن جاتے ہیں، اسی
طرح گذشتہ دنوں کسٹمز کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ کسٹمز ڈیوٹی بچانے کے لئے
جہاز کے عملے کے اراکین قیمتی موبائل کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں، اسی طرح
منشیات اور ممنوعہ اشیا کی ترسیل و منی لانڈرنگ جیسے واقعات کا سدباب کرنا
اہم قومی ذمے داری بنتی ہے ۔ مختلف اداروں کی تعیناتی کے باوجود غیر قانونی
معاملات کا ہوجانا ملکی سلامتی کیلئے ایک مسلسل خطرہ ہے ،جس کی ایک مثال
ایک ایسے مسافر کی جانب سے صرف چند ڈالر کی رشوت کی سبب سامان کی تلاشی نہ
لینے کی ایک ویڈیو کا اسکنڈل سامنے سے قومی اداروں کے ملازمین کی استعداد
کار پر سوالیہ نشان بن کر ابھرا ، اگر اس حوالے سے چیکنگ و بیلنس کا موثر
نظام واضح اور ایسے ایماندار اور پیشہ وار تربیت کے حامل افسران کی تعیناتی
سیاسی بنیادوں سے بالاتر ہوکر کی جائے تو اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ رشوت
خور اہلکاروں کی لالچ کا احتساب ممکن ہوسکے گا۔قومی سلامتی پالیسی میں ایوی
ایشن کے شعبہ میں سرمایہ کاری پر ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کرنے کی سفارش ایک
اچھا قدم ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس میں شفافیت کو سامنے رکھنا ہوگا ۔پاکستان
میں بد قسمتی سے رشوت ، سیاسی اثر رسوخ اور اقربا پروری کا رجحانخطر ناک حد
تک بڑھا ہوا ہے اس ضمن میں ماضی میں ایسی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں کہ
ایوی ایشن کے قوانین کو بائی پاس کیا گیا ، جس کے سبب متعدد فضائی حادثات
ہوئے اور قیمتی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ۔ تحقیقات کی سست روئی اور
وجوہات کی تلاش و اسباب کی سدباب میں ہمیشہ کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی
وجہ سے قانون کی عملداری قائم نہیں ہوسکی اور زیادہ منافع کی لالچ میں ایسے
طیارے فضا میں ملک الموت بن کیمحو پرواز رہے جنھوں نے انسانوں کی قیمتی
جانوں کا عظیم نقصان دیا۔ اگر ایوی ایشن فضائی نقل و حمل کی خدمات کو زیادہ
سے زیادہ محفوظ اور فعال بنانے کی پالیسی پر سنجیدگی سے عمل کرے تو فضائی
کمپنیاں اپنے مسافروں کے ساتھ درست رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں
گی۔اس ضمن میں اگر فضائی آپریٹرز کو حکومت کی جانب سے پرکشش مراعات ملتی
ہیں اور وہ ازخود فضائی سہولیات سے محروم علاقوں میں سروس شروع کرتے ہیں تو
یہ پاکستان کی عوام کے لئے ایک اہم اعلان ہوگا بصورت دیگر آپرٹیرز کو پابند
بھی بنایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کے ایسے علاقوں میں اپنی خدمات لازمی فراہم
کریں،اس ضمن میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ایسے علاقوں میں ائیر
نویکیشن انفراسکٹکچرر اور سیٹلائیٹ پر مبنی جدید ٹیکنالوجی بھی میسر ہے کہ
نہیں ، کیونکہ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں قدرتی آفات کے واقعات کا
زیادہ ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔چھوٹے شہروں کے لئے چھوٹے طیاروں کی
فراہمی سے فضائی سفر میں عوام کو ایک اہم خدمت میسر آسکتی ہے۔ملک کے اہم
ائیروپورٹس پر کارگو کے قیام کی پالیسی ملکی معیشت کیلئے ایک اہم پیش رفت
ہے۔جدید سہولیات سے آراستہ نئی ایوی ایشن پالیسی میں ایک لاکھ تیس ہزار ٹن
کارگو کی گنجائش کو دوگنا کرنے کا اعلان تجارت کے شعبے کیلئے خوش آئند خبر
کہلائی جا سکتی ہے۔قومی ایوی ایشن پالیسی کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے
کیلئے سنجیدگی سے عمل درآمد کرنا ہوگا ۔ کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ
پیپر ورک میں ایک خوب صورت باغ تو سجا لیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اس کی
آبیاری درست طریقے سے نہیں کی جاتی اور ملکی ترقی کے تمام منصوبے وقت گذرنے
کے ساتھ ساتھ لاپرواہی اور عدم توجہ کے سبب اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔چونکہ
ایوی ایشن ایک اہم ادارہ ہے لہذا اس حوالے سے جتنے منصوبے بھی شروع کئے
جائیں اس میں شفافیت اور سنجیدگی کو ضرور بالضرور دیکھا جائے۔عوام کو بہتر
سہولیات کی فراہمی اور تجارتی طبقے کو سہل سہولیات کا میسر آنا ملک کی ترقی
کیلئے ایک اہم قدم کہلائے جائے گا۔لیکن عام سفری مہمان میں امتیازات کو
فروغ دیا گیا تو اس سے اداروں اور اس کے لئے بنائی جانے والی پالیسیوں پر
سوالیہ نشان ضرور کھڑا ہوگا جس سے عوام کا عتماد کبھی بحال نہیں
ہوسکتا۔ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں اس اہم شعبے کی خدمات سے استفادہ
کرنا چاہیے۔ہمارے سامنے دوبئی جیسے ملک کی مثال موجود ہے جس نے صحراؤں میں
نخلستان اور سمندروں میں جدید بستیاں آباد کرلیں اور دنیا میں سب سے زیادہ
مصروف ائیر پورٹ بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ۔کوئی چیز ناممکن نہیں ہے بس
اس کیلئے سچے اخلاص کی ضرورت ہے ، جس کی بد قسمتی سے ہم میں شدید کمی ہے۔ |