کالج ختم ہونے کے بعد تمام
لڑکیوں کی سیر کامتفقہ رائے سے منصوبہ بن چکا تھا۔سبھی لڑکیوں کی طرح رہنما
نے بھی اپنے والد والدہ سے اجازت طلب کی۔حالانکہ وہ ایک امیر گھرانے سے
تعلق رکھتی تھی اور اسکے والدین کا شمار منفرد ذہنیت والوں میں ہوتا تھا جو
غربت سے کافی پرے بھی تھے۔اسکے والد نے پہلے تو ذاتی کار میں جانے کی بات
کی لیکن جب کالج کی تمام لڑکیوں کی بات آئی تو وہ اپنی بیٹی کو منع نہ
کرسکے۔
رہنما صبح جلد ہی اٹھ بیٹھی،ضروریات سے جلدی جلدی فارغ ہوکر سنگھار کر
لیا۔تبھی بنگلے کے پھاٹک سے کالج بس کے ہارن کی آواز اسکے کانوں میں گونجی
اور وہ جلدی سے اپنا پرس اٹھاکرچلنے کو نکلی،والدہ نے سر پہ ہاتھ
پھیرا،والد نے اپنے پرس سے اسے روپے نکال کراس کے ہاتھ میں رکھ دئے اور کہا
اپنا خیال رکھنا۔رہنمابس میں سوار ہوئی اور اپنی سہیلیوں میں جا بیٹھی۔
شاذیہ نے اسے چڑاتے ہوئے کہا۔’’کیا بات ہے،تم تو دلہن بن کر آگئی۔‘‘ رہنما
نے ایک تلخ مسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔
عالیہ نے شاذیہ کو ٹوکا۔’’ پلیز،سب کا موڈ اچھا ہے،کوئی بھی ایسی بات نہ
کرو جس سے کچھ بات بگڑے۔‘‘
کالج بس تمام لڑکیوں اور ٹیچرس کو ریلوے اسٹیشن کے باہر چھوڑ کر واپس
ہوگئی۔ٹرین کے سفر کا منصوبہ پرنسپل صاحب نے بنایا تھا اسلئے سبھوں نے بنا
چوں چراں کئے اس پر عمل آوری کی تھی۔تقریباً پون گھنٹے بعد ٹرین آئی،سب نے
اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اطمینان کی سانس لی۔ڈیڑھ سو کلو میٹر دوری پر
واقع ایک پہاڑی قلعے اور سیاحتی مقام کی سیر تھی۔ٹرین اپنی روش پر چل رہی
تھی،لڑکیوں کی بات چیت،ہنسی مذاق اور شور جاری تھا۔ہردس منٹ پر کوئی چھوٹا
سا اسٹیشن آتا اور ٹرین ایک کرخت آواز کے ساتھ رک جاتی ۔ ناشتہ کولڈرنکس کا
مزہ لیتے قافلہ اپنی منزل پر پہونچ گیا۔ٹیچرس نے یہاں دو بسوں کاا نتظام کر
لیا تھا کیونکہ انہیں تقریباً چھ مقامات کی سیر کرنی تھی۔دونوں بسیں آگے
پیچھے روانہ ہوئیں ۔پہلے مقام پر پہونچ کر سب سے پہلے تمام لوگوں نے کھانا
کھایا اور قلعے کی سیر کی۔ہنسی مذاق بدستور جاری تھا۔
رہنما نے عالیہ سے کہا۔’’پتہ نہیں،اچانک مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا
ہے،میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔‘‘
چونکہ عالیہ رہنما کی ہمدرد تھی اسلئے اس نے اسکی ہمت بندھائی۔’’ارے بابا!
ابھی ہم اتنے لمبے سفر سے جو آئے ہیں،فکر نہ کرو،سب ٹھیک ہی ہوگا۔‘‘
تین مقامات گھومنے کے بعد چوتھا مقام ایک پہاڑی پر واقع تھا جہاں سے نیچے
کا خوبصورت منظر دکھائی دیتا تھااور وہیں ایک کچھ دور اوپری سرے پر ایک
خوبصورت باغ بھی تھا۔ایک قطار میں لگی لوہے کی ریلنگ کے آگے مکئی کو آگ پر
بھون کر بیچنے والے دوکاندار کھڑے سیاحوں کے چہروں کو حسرت سے تک رہے
تھے۔کچھ لڑکیا ان سے مکئی خرید کر کھا رہی تھیں۔قریب ہی بانس کی لکڑیوں اور
گھانس پھونس سے بنا ایک چھوٹا سا ہوٹل’’ہل پوائنٹ ریسٹورنٹ‘‘
پیزا،برگر،سینڈویچ وغیرہ کی سہولت سے آراستہیہاں کی خوبصورتی میں چار چاند
لگا رہا تھا۔ ٹیچرس آگے چل رہے تھے کچھ لڑکیاں دوڑ رہی تھیں تو کچھ ریلنگ
کے پاس راحت کی غرض سے تھک کر بیٹھ گئیں تھیں۔اچانک رہنما کی سینڈل کی ہیل
ٹوٹ گئی اور اس کا پیر لچک گیا۔اس نے غصہ ہوکرعالیہ سے کہا۔’’ ابھی دو ہفتہ
پہلے ہی دو ہزار روپے میں خریدی ہے،اور اتنی جلدی ٹوٹ گئی۔‘‘
تبھی شاذیہ نے پھر اسے چڑایا۔’’میری تو دو سو روپے کی ہے اور عنقریب ایک
سال کی ہوجائے گی۔‘‘لڑکیاں بے ساختہ ہنس پڑی اور آگے بڑھ گئیں۔
رہنما نے دانت پیس کر رہ گئی ،اس نے پرس سے چند نوٹ نکالے اور اپنا پرس
عالیہ کو تھمایا اور اپنی سینڈل کو ہاتھوں میں لٹکالیااور عالیہ سے کہا
مجھے بھوک لگی ہے چلو یہاں کچھ کھالیتے ہیں۔
عالیہ نے کہا تم کھاؤ،میں ذرا اسکی خبر لیتی ہوں،پتہ نہیں یہ شاذیہ کو کیا
ہوگیا ہے؟ اس کا پرس لئے وہ آگے بڑھ گئی۔
رہنما ریسٹورنٹ میں داخل تو ہوئی لیکن اس کا من نہیں ہواکچھ کھانے کا ،وہ
کچھ دیر وہیں رکی اورباہر نکل آئی ۔سب کافی آگے جا چکے تھے ،ایک ہاتھ میں
سینڈل اور دوسرے میں روپے لئے وہ وہ عجلت میں چل رہی تھی پیروں میں ہلکا سا
درد بھی ہو رہا تھا۔اچانک ڈھلان کی جگہ پر اس کا پیر پھسل گیا اور وہ
لڑھکتی ہوئی نیچے گرنے لگی،اس سے پہلے کہ وہ چینختی ایک بڑے سے پتھر سے اس
کا سر ٹکرایا اور اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔آس پاس کوئی نہ
تھا۔مکئی والے دور تھے اور کسی کی بھی نظر اس پر پڑ نہ سکی۔ تقریباً سو فٹ
نیچے پتھروں،کانٹوں،درختوں سے ہوتی ہوئی وہ کچرے کے ڈھیر میں آرہی۔پاس ہی
ایک کچا راستہ سا بنا تھا جو اور نیچے کی طرف جاتا تھا۔چند کتے وہیں کچرے
کے اردگرد دم ہلاتے گھوم رہے تھے۔
ساری لڑکیاں بس میں بیٹھ گئیں،ٹیچرس نے پوچھارہنما اور عالیہ کہاں ہیں؟۔ایک
لڑکی نے جواب دیا۔’’سر،میں نے عالیہ کو شاذیہ کے ساتھ اس بس میں چڑھتے
دیکھا ۔‘‘ٹیچرس نے کہا۔یہ لڑکیاں بھی حد کرتی ہیں۔اور ڈرائیور کوآگے رواں
ہوچکی بس کے پیچھے چلنے کا اشارہ کردیا۔شام کے تقریباًچار بچ چکے تھے،اگلا
مقام یہاں سے تیس کلو میٹر کی دوری پر تھاجو ’’ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر ‘‘
تھا،وہ ایک تاریخی جھیل تھی۔ساری لڑکیاں بس سے اتریں اور اپنے اپنے موبائل
فون میں جھیل کی خوبصورت تصاویر قید کرنے میں مصروف ہوگئیں۔عالیہ نے بھی
اپنا فون نکالنے کیلئے جوں ہی پرس دیکھا اسے یکلخت رہنما کا خیال آیا وہ
دوڑ کر دوسری بس کی طرف لپکی،بس میں اسے نہ پاکر وہ واپس پلٹی اور اس بس سے
اترنے والی سہیلیوں سے پوچھا۔’’رہنما کہاں ہے۔‘‘
وہ تو تمہارے ساتھ تھی نا؟ اسے جواب ملا۔عالیہ کا دل دھک دھک کرے لگا۔وہ
دوڑ کر ٹیچرس کے پاس آئی اور ان سے رہنما کے ریسٹورنٹ میں چھوٹ جانے کی بات
کی۔سب پریشان ہو گئے،سورج غروب ہونے سے پہلے ہی انکی آنکھوں میں اندھیرا
چھا گیا۔بلا تاخیر بسیں واپس گذشتہ مقام کیلئے مڑ گئیں۔ڈرائیور نے تیز
رفتاری سے انھیں پہنچایا لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گئے۔ہل
پوائنٹ ریسٹورنٹ کے پرخچے اڑے ہوئے تھے،لاشیں بکھری پڑی تھیں،کئی لاشیں تو
ایسی تھیں کہ انکے اعضاء ہی بکھر چکے تھے،افراتفری مچی ہوئی تھی۔اتفاق سے
اس ریسٹورنٹ میں سوئی گیس کے دو سلینڈر بیک وقت پھٹ پڑے تھے۔ٹیچرس اور ساری
لڑکیاں ایکدوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔پولس اپنی کاروائی میں مصروف
تھی۔ٹیچرس جاکر ان سے کچھ دیر بات کرتے رہے کچھ کاغذات پر دستخط کئے اور
واپس لڑکیوں کے پاس آئے۔ اور ان سے بسوں میں بیٹھنے کو کہا۔
عالیہ کے منہ سے تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔اس نے بھرائی ہوئی آواز میں
ٹیچرس سے پوچھا۔کیا ہوا؟ رہنما کہاں ہے؟اسے بھی ساتھ لے جانا ہے نا؟ہم اسکے
گھر والوں کو کیا جواب دیں گے؟
سنبھالو اپنے آپ کو یہ ایک حادثہ ہے۔اسکی اطلاع اسکے والدین کو ہم نے دے دی
ہے، انکے گھر پر پرنسپل صاحب اور دوسرے ذمہ داران پہنچ چکے ہیں اور وہ یہاں
آنے کیلئے نکل چکے ہیں۔پولس اپنی کاروائی کے بعدرہنما کے والدین اور ہم سے
رابطہ کرے گی۔ایسے میں ہمارا یہاں رکنا ٹھیک نہیں۔اور سب واپس بس میں سوار
ہوکر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔
ایک خود ساختہ کچرے کی گاڑی نے سارا کچرا اٹھایا اور آگے بڑھی،پہاڑی علاقے
کا یہ سارا کچرا روزانہ شام میں یہ خود ساختہ گاڑی اٹھا لیجاتی اور یہاں۱۵
سے ۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر کھاد بنانے کیلئے مختص سرکاری اراضی پر ڈال دیا
جاتا۔قرب و جوار سے ایک دن میں کم و بیش تیس گاڑیوں سے کچرا جمع کرکے یہاں
ڈالا جاتا ہے۔لیکن آج جو کچرا ڈالا گیا وہ کسی کی قسمت سے جڑا تھا جس پر
کسی کی اتفاق سے نظر نہیں پڑی۔رہنما کے سر سے نکلنے والا خون تو بند ہوچکا
تھا لیکن وہ اب بھی اسی کچرے اور گندگی کے ملبے میں بیہوش تھی۔رات کے اخیر
حصے میں کچرے میں حرکت ہوئی اور رہنما باہر نکلی،نیم وا آنکھوں سے وہ
اندھیرے میں گھور رہی تھی۔صبح کی ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہورہی تھی، یخ
بستہ ہواؤں سے وہ کانپ رہی تھی۔کپڑے پورے خراب اور جگہ جگہ سے پھٹ چکے
تھے۔چاند سا چہرہ ماند پڑ گیا تھا اور اس پر لگی گندگی اور مٹی نے اس کا
حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔لیکن تقدیر کی بازی شاید اس کے ساتھ تھی،کیونکہ
اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد بھی وہ زندہ تھی۔اسی وقت ایک جیپ جو مسافروں
سے لدی کچے راستے پر ہچکولے کھاتی ہوئی کچھ دور رکی،اس میں سے تقریباً بیس
پچیس عورتیں اتریں جن کا حدودی انتظامیہ کی جانب سے اس کچرے سے پلاسٹک کی
بوتلیں و اشیاء چن کر الگ کرنے کیلئے تقرر کیا گیاتھا اور روزانہ صبح پو
پھٹتے ہی وہ یہاں آکر اپنے کام میں مصروف ہوجایا کرتی تھیں۔عورتوں نے جو
رہنما کو دیکھا تو سمجھا کوئی پاگل لڑکی ہے اور اسے اندیکھا کر اپنے کاموں
میں مصروف ہوگئیں۔لیکن ایک عورت نے رہنما کے خوبصورت ہار کو دیکھ کر کچھ
اندازہ لگا لیا تھا،فی الوقت تو وہ سب کے ساتھ کام میں لگ گئی۔کچھ دیر میں
وہ رہنما کے پاس آئی اور اس کے پاس بیٹھ کر اس سے مخاطب ہوئی۔’’ نام کیا ہے
تمہارا؟ رہنما نے سہم کر اپنے پھٹے ہوئے کالر کو دانتوں تلے دبایا اور
کانپتے ہوئے اسی کا سوال دہرانے لگی۔نام۔۔۔۔نام۔۔۔۔ کیا ہے
تمہارا۔۔۔۔۔۔نام۔۔۔۔نام۔۔۔۔۔۔’’کہاں سے آئی ہو؟ تمہیں یہ چوٹیں کیسے لگیں؟
‘‘اس عورت نے کچھ توقف کے بعد کہا۔ لیکن اس بار بھی رہنما کا رد عمل ویسا
ہی تھا۔سر میں شدید اندرونی چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کی یادداشت گم ہو چکی
تھی اور وہ عجیب عجیب حرکتیں کر رہی تھی۔کچھ دو ڈھائی گھنٹے کام کرنے کے
بعد ساری عورتیں واپسی کیلئے نکلیں،وہ عورت رہنما کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے
گئی اسے کھلا یا پلایااس کی مرہم پٹی کی اور اسکے سارے زیورات وغیرہ نکال
لئے۔اس نے اپنا مقصد پورا کرلیا تھا اس لئے اب رہنما اس کیلئے بوجھ تھی۔اس
کا بھی انتظام اس نے کر لیا۔اس علاقے سے ایک پیدل قافلہ ہر سال قریب بائیس
کلو میٹر کی دوری پر پہاڑی سلسلوں کے وسط میں واقع کسی معروف درویش کی
درگاہ پرعرس کیلئے روانہ ہوتا تھا جس میں مرد عورتیں بوڑھے بچے سبھی شامل
ہوتے تھے انکے ساتھ رہنما کو بھی روانہ کردیا۔
پوری طرح سے جھلسی ہوئی ایک لڑکی کی لاش جس کاقد وغیرہ رہنما کی طرح تھا
اور اتفاق سے خون کا گروپ بھی ملتا تھا پولس نے اپنی کاروائی مکمل کرنے کے
بعد اسکے والد کے حوالے کردیا، وہ پوری طرح ٹوٹ چکے تھے اور عقل ماؤف ہوچکی
تھی ۔ماں کا رو رو کر برا حال تھا۔لیکن اب وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔مقدر کا
لکھا سمجھ کر صبر کرنے کی کوشش میں جھونجنے لگے۔
جگہ جگہ پڑاؤ ڈالتے ہوئے قافلہ دو دنوں میں درگاہ شریف پرپہنچ گیا۔چاروں
سمت پہاڑی سلسلے اور بیچ میں مزار کا ماحول بڑا پرسکون تھا۔عرس کے لئے دور
دور سے زائرین یہاں آتے تھے۔رہنما کا چہرہ سپاٹ تھا،چہرے پر کسی قسم کا
تاثر نہیں تھا،وہ بس پاگلوں کی طرح ہر ایک کو گھورے جارہی تھی۔اس کے پیر
پیدل چلنے کی وجہ سے سوج چکے تھے۔وہ تھوڑا لنگڑ کر چل رہی تھی۔مفت نیاز
بانٹی جارہی تھی اور غرباء فقراء کے ساتھ امراء بھی قطار میں تھے۔ رہنما
بھی قطار میں لگ گئی،کھانا پتوں پر بانٹا جا رہا تھا۔کھانا لے کر وہ ایک
درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گئی اور کھانے میں مصروف ہوگئی۔قریب ہی زمین پر ایک
خوش شکل نوجوان چادر بچھائے بچوں کے کھلونے بیچ رہا تھا۔اس نے ایک نظر
رہنما پر ڈالی اور پھر اپنے کام میں لگ گیا۔تبھی وہاں چند آوارہ واوباش قسم
کے نوجوان آئے اور رہنما کے پاس بیٹھ گئے اور اسے گھورنے لگے۔کھلونے والے
نوجوان نے معاملہ بھانپتے ہوئے رہنما سے کہا۔’’ تم سے کہاتھا نا یہاں
بیٹھو۔‘‘تم پھر وہاں بیٹھ گئی۔لڑکے یہ سن کر وہاں سے چپ چاپ وہاں سے کھسک
لئے۔ ان سب باتوں سے بے خبر رہنما کھانے میں مصروف تھی۔کھانا ختم کرنے کے
بعد وہ اس نوجوان کی چادر پر رکھی پانی کی بوتل کو دیکھنے لگی۔اس نے پانی
کی بوتل بڑھاتے ہوئے کہا۔’’میرا نام شہزاد ہے۔‘‘تم کون ہو؟ رہنما نے پانی
کی بوتل اس کے ہاتھ سے لی اور کہا۔میرا نام شہزاد ہے۔۔۔۔۔میرا نام شہزاد
ہے۔۔۔۔۔اور پانی پی کر وہ وہاں سے چلی گئی۔شہزاد اسے حیرت سے تکتا رہ گیا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ بھاگتی ہوئی شہزاد کے پاس آئی اور اسکا کرتا پیچھے سے
پکڑ کر چھپنے لگی،شاید انہی نوجوانوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش
کی تھی۔لیکن دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔وہ اپنے آپ کو شہزاد کے پاس
محفوظ محسوس کررہی تھی۔شام ہوچکی تھی زائرین میدانوں اور خیموں میں آرام کی
غرض سے اپنی اپنی چادریں تان رہے تھے۔شہزاد نے چادر نکالی اور رہنما کے
اوپر ڈال کر اسے سلادیا۔صبح اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا مٹی کے پیالے میں چائے
اور نان رکھی ہے شہزاد کھلونے بیچنے میں مصروف ہے۔وہ جلدی سے اٹھی اور
پیالے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔’’ارے! پہلے منہ تو دھولو۔‘‘شہزاد نے پانی کی
بوتل اسکی طرف بڑھاتے ہوئے اسے ٹوکا۔رہنما سوالیہ نظروں سے شہزاد کو دیکھ
رہی تھی۔اس نے چہرے پر پانی مار کر جلدی جلدی کھانا شروع کردیا۔
تقریباً پندرہ دنوں تک عرس کا سلسلہ چلتا رہا۔اب بھیڑ کافی حد ختم
اورزائرین کی واپسی شروع ہوچکی تھی۔شہزادنے بھی اپنا بوریا بستر باندھ لیا
تھا۔گٹھری سر پر اٹھائی رہنما کو ساتھ لیا اور پارکنگ میں لگی اپنی
اسکوٹرنکال کر گٹھری اور رہنما کو سوار کیا اور روانہ ہوگیا۔ ازراہ ہمدردی
اس نے رہنما کو اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ورنہ تو وہ اس کا نام تک نہیں جانتا
تھا۔ماں باپ کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اٹھ چکا تھا،محنت اور لگن سے بڑی
مشکلوں سے میٹرک کا امتحان ہی پاس کر سکا تھا آگے پڑھنے کا شوق تو تھا لیکن
حالات نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا اور وہ پیٹ کی خاطر کھلونے بیچتا پھر رہا
تھا۔مٹی کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہنما کیلئے کھاٹ اور خود زمین پر چٹائی
بچھا کر سو جاتا۔اسی طرح وقت گذرنے لگا۔ رہنما کووہ ’’رانی‘‘ بلاتا تھا۔اور
اسے کافی کچھ سکھادیا تھا۔ غرض انکی زندگی کافی خوش گوارگذر رہی تھی۔کہیں
ایک دن کیلئے جانا ہوتا تو شہزاد اکیلا ہی چلا جاتا،اس سے زیادہ دنوں کیلئے
وہ رہنما کو بھی ساتھ لے جاتا۔اسی روش پر آٹھ ماہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ایک
مرتبہ شہزاد اکیلا ہی کھلونے بیچے کی غرض سے دو دنوں کیلئے نکلا ۔رہنما گھر
پر اکیلی تھی اور چھت پر لگے جالے صاف کرنے کیلئے کھاٹ پر اسٹول رکھ کر
کھڑی تھی،اس کا توازن بگڑا اور وہ نیچے آرہی۔اسکا سر کھاٹ کے سرے سے ٹکرایا
اور اسکی آنکھوں کے سامنے دوبارہ تارے گردش کرنے لگے،وہ بیہوش ہوگئی۔آنکھ
کھلی تو اپنے آپ کواس ٹوٹے پھوٹے گھر میں دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔مزید
حیرانگی اسے اس وقت ہوئی جب اس نے اپنے آپ کو اور حلیے کو دیکھا۔’’میں کہاں
ہوں؟۔‘‘ وہ بڑ بڑائی۔عالیہ کہاں ہے؟ اوراچانک اسکی یادداشت مڑ آئی۔وہ جلدی
سے اٹھی ،قریب ہی سینڈل تھی اسے پہنا اور باہر نکلی۔دائیں بائیں نظر دوڑائی
،رات کے نو بجے تھے۔زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔اسے کچھ پتہ نہ تھاکہ وہ کن
حالات سے دوچار ہوئی تھی۔وہ واپس گھر میں داخل ہوئی ۔کھاٹ پر پڑے ڈبے کو
کھولا تو اس میں کچھ روپے مل گئے انھیں ہاتھوں میں دبایا اور باہر نکل
گئی۔وہ بس سڑک پر چلی جارہی تھی۔ایک شخص سے اس نے شہر کا نام ،ریلوے اسٹیشن
،بس اسٹیشن وغیرہ کی تفصیلات پوچھ لی اور تیزی سے روانہ ہوئی ۔دوسرے دن صبح
رہنما اپنے بنگلے کے باہر تھی۔ڈور بیل پر انگلی رکھی تو اندر سے اسکی ماں
کی آواز آئی۔’’ کون ہے؟۔‘‘
امی،میں ہوں۔دروازہ جھٹ سے کھل گیا۔سامنے اسکی ماں کھڑی اسے پھٹی پھٹی
آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور وہ زور سے چینخی۔’’ اجی سنتے ہو۔‘‘ جلدی آؤ۔اس
کے والد دوڑتے ہوئے آئے۔وہ بھی رہنما کو سامنے پاکر دم بخود رہ گئے۔ یہ
انکے لئے ایک معجزہ ہی تو تھا۔تینوں آپس میں بغل گیر ہوکر دیر تک روتے
رہے۔شہزاد لوٹ کر آیا تو اپنے جمع کئے ہوئے روپے اور رانی کو نہ پاکر اسے
بہت صدمہ ہوا۔لیکن وہ آج بھی انتظار میں ہے کہ تقدیر کا ستارہ شاید رانی کو
واپس لے آئے۔ویسے تقدیر کے ستارے نے رہنما کو لوٹا دیا تھا۔
از:انصاری نفیس جلیل
34چونابھٹی،مالیگاؤں،ضلع ناسک،مہاراشٹر
09021360933
[email protected]
|