زادو لُدھیک

 کل شام زادو لُدھیک کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی ہر دِل کی کلی کِھل اُٹھی،جفا کے سب ہنگامے دم توڑ گئے،جہاں کو خار و خس کی عفونت سے نجات ملی ۔مرگ آفرینی کے تمام روگ اپنی موت آپ مرگئے اور علاقے سے اِس درندے کے پروردہ اُجرتی بد معاش ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عقوبت خانوں ،چنڈو خانوں ،قحبہ خانوں،قمارخانوں اورنگارخانوں کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔زمین کا یہ بوجھ جب زیرِ زمین چلا گیا تو اس ننگِ وجود سے وابستہ ایامِ گزشتہ کی تلخ یادیں بھی گل سڑ گئیں۔معاشرتی زندگی کو اذیت ِ طُو لانی اور ایک بلائے نا گہانی سے نجات مِل گئی۔سمِ نہاں کا عذاب ختم ہوتے ہی طائرانِ خوش نواپھر سے گلشنِ ہستی میں زمزمہ خواں دکھائی دینے لگے۔ بجو، کرگس ،زاغ و زغن ، بُوم و شِپر اور مُوذی و مکار حشرات کھنڈرات میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔قزاقستان سے تعلق رکھنے والے جن بحری قزاقوں نے دُکھی انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے کی انتہا کر دی ،ان میں رنگو رذیل،گھاسو مل اور زادو لُدھیک نفرت گہِ عالم اور مر دودِ خلائق تھے۔اپنی خیانت،سفلگی، خست و خجالت ،خباثت اور نجاست کی قبیح داستانوں اور کالے کر توتوں کے افسانوں کو اپنی کالی زبان سے بیان کرتے او ر انھیں ا پنے سیاہ دِ ل میں زادِ راہ کے طور پر سنبھالے یہ ننگِ وجود اپنی زندگی کے آخری ایام میں عبرت کی مثال بن گئے۔ اِرادی افعال کی سفاکی نے ان بے حس جہلا کو پاتال کی پستی تک پہنچا دیا تھا۔زادو لُدھیک کو سب جرائم پیشہ بد معاش اپنا میرِ رہزناں قراردیتے تھے۔زادو لُدھیک اپنی بے حسی ،بے غیرتی ،بے ضمیری اور بے حیائی پر اِتراتا اورآنکھوں پر ٹھیکری رکھ کردولتیاں جھاڑ کر بے بس لوگوں کے درپئے آزار رہتا اورہمہ وقت ہنہناتا رہتا تھا۔سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونا ،پریوں کا اکھاڑہ سجا ناکر راجا اندر بننا اورروم کے رسوائے زمانہ شہزادے نیر وکے مانند گھر پھونک کر تماشا دیکھنا اس متفنی کا وتیرہ تھا۔ عادی دروغ گو اورمشکوک نسب کے اس طوطا چشم سفلہ کی رائیگاں زیست کے اوراقِ پارینہ کا مطالعہ کرنے سے قاری حیرت و استعجاب کے عالم میں کھو جاتا ہے۔ زادو لُدھیک کی بد اعمالیوں سے عام آدمی کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر اور آہیں بے اثر ہو کر رہ گئیں۔مظلوم اور بے بس انسانیت کی زندگی میں حسرتوں ،آہوں ،آنسوؤں اور سسکیوں کا ایک ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہوا جس نے زندہ تمناؤں کے رُباب کے تار توڑکر اُس کی مدھر لے کو مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ ابلہ تہذیب و شائستگی سے اس قدر بیگانہ تھا کہ اس کا نام سُنتے ہی لوگ استغفار کا وِرد شروع کر دیتے ۔زادو لُدھیک کی زندگی جورو ستم کی دہکتی ہوئی آگ کی مثال تھی لیکن مظلوموں کی نفرتوں اور حقارتوں کے آتش فشاں سے جو لاوا نکلا اس کی رو میں اس کی جعل سازی کا سب کروفر اور مال و منال سب کچھ نیست و نابود ہو گیا۔

یہ نصف صدی قبل کی بات ہے بنارس شہر کے نواح میں گندے پانی کا ایک جوہڑ ہوا کرتا تھا ۔ اسی جوہڑ کو شہر کی غلاظت کا مورا سمجھا جاتا تھا جہاں ہر قسم کی غلاظت کے انبار لگے رہتے تھے۔اس جوہڑکے جنوبی کنارے پر کُوڑے کرکٹ ، کچرے اور گندگی کا ایک بہت بڑا ڈھیر بھی تھا۔سارے شہر کی گندگی کچرے کے اس متعفن ڈھیر پر لا کر پھینک دی جاتی ۔ شہر کی صفائی پر مامور بلدیہ کے خاکروبوں کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ ان میں سے اکثر ملازمین اس لیے شہر کی صفائی پر توجہ نہیں دیتے تھے کہ وہ شہر یوں کے گھروں کا صفایا کرنے کے دھندے میں ملوث تھے۔اس دھندے میں انھیں شہر کے بھتہ خوروں کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔گندے پانی کے اس جو ہڑ سے عفونٹ اور سڑاند کے جوبھبھوکے اُٹھتے ان کے باعث لوگوں کا اس طرف سے گُزرنا محال تھا۔ گندے پانی کے اس جو ہڑ کے کنارے پر ایک کُٹیا میں نا صفو جاروب کش کا ٹھکانہ تھا جس کا سو پُشت سے آبائی پیشہ گدا گری تھا۔اس کی نائکہ بیوی مہترانی صبو بھی اس کے ساتھ رہتی تھی اور شہر کے امیر لوگوں کے گھر میں صفائی کے کام میں مصروف رہتی تھی۔ غریب لوگ اپنا پیٹ کاٹ کراپنے بچوں کے اخراجات پُورے کرتے مگر خسیس ناصفو خاکروب او ر کُٹنی مہترانی صبو اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مجبوروں کی گردن کا ٹنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔کُوڑے کے ہر ڈھیر کو سُونگھنا اور وہاں سے مفادات کے استخواں اُٹھا کر انھیں نو چنا اور بھنبھوڑنا ان کی فطرت تھی۔ گندے پانی کے اس پُر اسرار جوہڑ کے ساتھ ناصفو خاکروب اور صبو مہترانی کی بہت سی تلخ و شیریں یادیں وابستہ تھیں۔ اُنھوں نے کئی بُھوت اور چڑیلیں یہاں دیکھیں جن کے مکروہ چہرے دیکھ کر اس جوڑے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور کواکب کو ان کے حقیقی روپ میں دیکھ کر ان پر لرزہ طاری ہو جاتا ۔کومل کلیوں اور نرم شگوفوں کو بھی کُوڑے کے اس ڈھیر پر بڑی بے رحمی کے ساتھ پھینک دیا جاتا۔ کئی بار ایسا بھی ہو اکہ اُنھیں اسی کُوڑے کے ڈھیر سے خذف ریزوں اور خس و خاشاک سے ایسے دُر ِ نایاب بھی مِل جاتے جنھیں ان کے وارثوں نے دل پر پتھر رکھ کر یہاں پھینک دیا۔جنسی جنون کے ایک پل کے عیش کے بعداپنی جھوٹی شان کو بچانے کے لیے ان نومولود بچوں کو جنم دینے والی بے حس مامتا نے ایک آن میں ان نو مولود بچوں کو زندگی بھر کی محرومیوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔

سردیوں کی ایک خون منجمد کر دینے والی صبح تھی ،ناصفو جب کوڑے کے ڈھیر سے کچرا چن رہا تھا تو اسے ایک نو مولود کی چیخ سنائی دی ۔ایک نوجوان لڑکی ایک نو مولود بچے کو جان لیوا سکوت اور مہیب تاریکیوں میں پھینک کر بو جھل قدموں اور پُر نم آنکھوں سے اپنی کار میں بیٹھ گئی اور کا رفراٹے بھرتی ہوئی شہر کی ایک انتہائی جدید اور امیر آبادی والے علاقے کی روشنیوں میں غائب ہو گئی۔ ناصفو نے نومولود بچے کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر جانے والی اس عورت کوپہچان لیا ،مگر اس قسم کے راز وہ ہمیشہ اپنے دِل میں چھپاتا اور لب ِ اظہار پر تالے لگا لیتا۔معمول کے مطابق ناصفو نے اس نو مولود کو اُچک لیا۔کمبل میں لپٹے اس بچے کے ساتھ کچھ سونے کے زیورات بھی اسے مل گئے ۔کافی عرصے سے وہ اس قسم کے واقعات دیکھتا چلا آ رہا تھا،اپنی عادت کے مطابق یہ طلائی زیورات تو اس نے فی الفور اپنی جیب میں ٹھونس لیے اور بچے کو لے کر گھر آیا ۔ شہر کے معمر بے اولا د متمول جوڑے اس قسم کے ناجائز بچوں کو گود لینے کے لیے مسلسل اس کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ اس بچے کے ملنے کے بعد رسوائے زمانہ بھڑوا ،شہر کا بدنام سمگلر اور کالے دھن سے اپنا منہہ کالا کرنے والا بُڈھا کھوسٹ جواری شیدا اس کے پاس پہنچااور اس کی مٹھی گرم کر کے اس نومولود بچے کو لے گیا ۔اس نومولود بچے کا نام زادو لُدھیک رکھا گیا اور شیدا لُدھیک اس کا والد بن بیٹھا۔اس کی نو جوان بے اولاد بیوی لکشمی جو دو سال قبل ایک پیچیدہ نسوانی روگ کے باعث مستقل طور پر بانجھ ہو چُکی تھی اس مشکوک نسب کے بچے کی ماں بن گئی۔اس طرح چو رمحل میں جنم لینے ولا یہ نومولود سانپ تلے کا بچھو پُر تعیش ماحول میں پروان چڑھنے لگا۔

شیدا لُدھیک اور اس کی بیوی لکشمی اس بچے کی پرورش پر پوری توجہ دیتے رہے مگر زادو لدھیک ایک سنپولیا تھا۔سانپوں کے بچوں کو اگر چُلّو میں بھر کر بھی دودھ پلایا جائے تو وہ اپنے محسن کو ڈسنے سے باز نہیں آتے۔زادو لدھیک جس تھالی میں کھاتا اسی میں چھید کرتا،جو شجرِ سایہ دار اسے آلامِ روزگار کی تمازتوں سے بچا رہے تھے یہ ان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف تھا۔اس نا ہنجار کی لرزہ خیز داستانِ حیات اور اس سے وابستہ دلخراش یادیں ان خزاں رسیدہ اشجار کے لیے بادِ سموم کا جھونکاثابت ہوئیں۔ان اشجار کو زادو لُدھیک کی صورت میں سمے کے سم کی دیمک متواتر کھائے چلی جا رہی تھی یہاں تک کہ پورا تنا کھوکھلا ہو گیا ۔ان بوڑھوں کے شجر ِ حیات کی تمام کلیاں،اثماراورگل ہائے رنگ رنگ سب اس مُوذ ی و مکار ،محسن کش اورنمک حرام زادو لدھیک کا سایہ پڑنے سے خشک ہو کر بکھر گئے۔زادو لُدھیک کو درندگی ،سفاکی ،بے ضمیر ی اور بے حسی ورثے میں ملی۔اس بھیڑیے نے اپنی درندگی سے کئی گھر بے چراغ کر دئیے۔

کافی عرصے سے یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ شیدا لُدھیک جس محل میں رہتا ہے اس میں بھوتوں،چڑیلوں ،آدم خوروں کا بسیراہے۔اس محل میں جانے والی عورتیں بھوتوں کے ہاتھوں اپنی عزت و آبرو سے محروم ہوجاتیں ۔شیدا لدھیک نے منشیا ت فروشی،سٹے بازی اورقحبہ خانہ کی آ مدنی سے جو زرو مال اکٹھا کیا وہ زادو لُدھک بے دریغ لُٹا رہا تھا۔اس کے اللے تللے دیکھ کر شیدا لُدھیک اور اس کی بیوی لکشمی دل ہی دل میں بہت کُڑھتے لیکن انھوں نے اپنی زندگی بچانے کے لیے لبِ اظہار پر تالے لگا لیے۔زادو لُدھیک جس بُری صحبت میں پھنس گیا تھا اس سے نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی۔شہر کے سب جرائم پیشہ افراد کے ساتھ زادو لُدھیک کے قریبی تعلقات تھے۔ ان میں گھاسو مل ،اکرو بھٹیارا،عارو چمار،رنگو رذیل اور مدن حمار جیسے رسوائے زمانہ درندے شامل تھے۔شام کے سائے ڈھلتے ہی یہ سب سفہا اور اجلاف و ارزال ہیرا منڈی کا رُخ کرتے جہاں جسم فروش رذیل طوائفیں ظلو،صبو،شعاع اورتمنا ان کی منتظر رہتی تھیں۔یہ جو کچھ کماتے وہ مے نوشی، رقص ،موسیقی اور جنسی جنون پر بے دریغ لُٹاتے۔وقت کے ستم بھی نرالے ہوتے ہیں ۔جرائم پیشہ درندے حُسن و رومان کی وادی میں مستانہ وار چلتے ہیں لیکن وقت بڑی برق رفتاری سے آگے نکل جاتا ہے اور جب انھیں ہوش آتا ہے تو یہ جان کر ان کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں کہ اب تو فصلی بٹیرے ، چڑیاں اور طیورِ آوارہ سارا کھیت ہی چُگ کر لمبی اُڑانیں بھر چُکے ہیں۔ گردشِ حالات کے ستم کب ٹلتے ہیں، طوطا چشم افرادکے رقیب ان کی چھاتی پر مونگ دلتے ہیں اور یہ بے حس چکنے گھڑے بن کر پیہم کفِ افسوس ملتے ہیں۔ جب بھی موسم بدلتے ہیں توسیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے پلک جھپکتے میں ان سب کو نگلتے ہیں اور یوں ان کے عیش و طرب کے لمحات غم میں ڈھلتے ہیں۔

اچھے دنوں کی آس میں شید ا لُدھیک اور لکشمی موہوم اُمید کے سہارے زادو لُدھیک کی پرورش کرتے رہے ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ راہ سرابوں کے عذابوں کی جانب لے جاتی ہے۔لکشمی منزل کو لوگ بھوت محل کا نام دیتے تھے۔ کئی لوگوں نے اس پر اسرار محل میں سر کٹے درندوں، آدم خور، آسیب ،چڑیلوں ،جنوں اور بُھوتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ شیدا لُدھیک اور لکشمی اپنے لے پالک کو سبز قدم سمجھتے تھے ۔اس کے آتے ہی گھر کے در و دیوار پر نحوست ،بد بختی ،بے غیرتی ،بے ضمیری اور درندگی کے کتبے آویزاں ہو گئے۔ وہ اکثر آہ بھر کر کہتے کہ ایسے ابتر لے پالک سے تو لا ولد ہونا بدر جہا بہتر تھا۔کئی حسین و جمیل عورتوں کی لاشیں اس محل سے بر آمد ہوئیں۔ تقدیر کے فیصلے نرالے ہوتے ہیں زادو لدھیک کی بے راہ روی نے نحوست ،ذلت اورتخریب کے جس لرزہ خیز سلسلے کا آغاز کیا اس کے باعث اس پر تعیش مکان میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا تھا۔ اس گھرکی دیواروں پر رنج و الم ،مایوسی ،محرومی ،اداسی اور حسرت بالے کھولے نوحہ کنا ں رہتی۔ زادو لُدھیک کواس کے پالنے والوں نے اس کی اصلیت اور مشکوک نسب سے تو آگا ہ کر دیاتھا مگر اس کی عزت واحترم میں کبھی کمی نہ آنے دی۔اس کے ساتھ ہی اسے شہر کے مضافات میں ایک کچی آبادی میں مقیم ناصفو خاکروب اور صبو مہترانی سے بھی متعارف کرا دیا تھا ۔ زادو لدھیک جب بھی اپنے محسنوں ناصفو خاکروب اور صبو مہترانی کو دیکھتا تو اپنے ماضی کے بارے میں جان کر اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں اور وہ فرطِ غم سے نڈھال ہوجاتا۔ جب بھی شیدا لُدھیک اور لکشمی اپنے اس لے پالک زادو لُدھیک کی اخلاقی بے راہ روی ،جنسی جنون اور دہشت گردی پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ان میں تُو تُو میں میں کی نوبت آ جاتی۔ رفتہ رفتہ زادو لُدھیک کا رویہ اپنے پالنے والوں کے ساتھ روز بہ روز تلخ ہوتا چلا گیا۔ شیدا لُدھیک اور لکشمی اپنی حسرتوں پر کُڑھتے اوران کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی۔ وقت کی گود میں سانحات کی پرورش کا سلسلہ جاری رہا۔ سب لوگ یہی کہتے تھے کہ کسی چمتکار ہی سے شیدا لُدھیک اپنے لے پالک کے ہاتھوں ہو لناک انجام سے بچ سکتا ہے۔آخر کار حادثہ ہو کے رہا چشم کا مُرجھا جانا۔ ایک دن شید ا اور لکشمی اپنے مکان کے آنگن میں مردہ پائے گئے۔ زادو لُدھیک اپنے پالنے والے ان بزرگوں کی وفات پر زارو قطار روتا رہا اور دھاڑیں مارتا رہا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا اوروہ اس صدمے کی تاب نہیں لا سکے گا اور جلد زینہء ہستی سے اُتر جائے گا۔اس سانحہ کے اسباب کے بارے میں جتنے منہہ اتنی باتیں۔ جو بھی ملتااس المیے کی من مانی تاویل کرتا یوں لگتا اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ والی کیفیت ہے ۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ اس پر اسرار مخلوق کی کارستانی ہے جس نے طویل عرصے سے اس لکشمی منزل میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس بات پر سب متفق تھے کہ چڑیلوں اور بھوتوں نے اس متمول اور معمر جوڑے کو ہلاک کر دیا ۔سب کے سب زادو لُدھیک کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے۔کچھ لوگوں کاخیال تھا کہ یہ سب کچھ کالے جادو ، ٹونے ٹوٹکے ،سفلی عملیات اورحسد کا شاخسانہ تھا۔ایک تبدیلی رونما ہوگئی کہ اب زادو لُدھیک اور اس کی بیوی ظِلوبلا شرکتِ غیرے ساہوکار شیدا لُدھیک کی جائیداد کے وارث بن بیٹھے۔ اربوں روپے کی جائیداد ،مکانات ،دکانیں اور زرومال کا اب صرف زادو لُدھیک ہی تنہا مالک تھا۔ بنارس اور کا ٹھیاواڑ کے سب سے امیر اور با اثر مہاجن شیدا لُدھیک اور لکشمی کی زندگی اولاد کی اندھی تمنا کے باعث بے ثمر ہو کر رہ گئی۔ اب تو بھری دنیا میں ان کے شہر ِ آرزو کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں بچا تھا ۔ زاد ولُدھیک کی بیوی ظلوایک جسم فروش رذیل طوائف تھی وہ زادو لُدھیک کو چُلّو میں اُلّو بنا دیتی تھی اور اس سے سارا زرو مال ہتھیا لیتی تھی۔ بنارس اورکا ٹھیاواڑکے پُورے علاقے میں اس خاندان کے کِھلواڑ کے چرچے تھے۔

جب شیدا لُدھیک اور لکشمی کی ارتھی اُٹھی تو سب لوگ زادو لُدھیک کو دلاسا دے رہے تھے۔ناصفو خاکروب اورصبو مہترانی نے بھی زادو لُدھیک کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔اس موقع پر زادو لُدھیک نے ناصفوخاکروب اور صبو مہترانی کے سامنے زار و قطار روتے ہوئے کہا:
’’تم دونوں میرے محسن ہو !تم نے مجھے گندگی کے ڈھیر سے اُٹھا کر نئی زندگی دی۔آج میرے پالنے والے نہیں اس دنیا میں نہیں رہے ،انھیں چڑیلوں اور بھوتوں نے مارڈالا۔ میں یہ جا ننا چاہتا ہوں کہ میری حقیقی ماں کون ہے ؟وہ کیا حالات تھے جن سے مجبور ہو کر میری مظلوم ماں نے مجھے کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا؟‘‘
’’یہ راز تو میں کسی صورت میں نہیں بتا سکتا ۔میرے سینے میں کئی راز دفن ہیں جو سب کے سب میری موت کے بعد پیوندِ خاک ہو جائیں گے۔‘‘ناصفو خاکروب بولا’’ اگرچہ مجھے تمھاری حقیقی ماں کے بارے میں سب حقائق معلوم ہیں لیکن میں نے اپنے ہونٹوں پر جو قفل لگا رکھا ہے وہ کبھی نہیں کُھل سکتا۔‘‘

’’اگر تم نے مجھے یہ راز نہیں بتایا تو میں اپنی زندگی کا خود اپنے ہاتھوں سے خاتمہ کر لوں گا۔‘‘زادو لُدھیک نے آہ بھر کر کہا’’اب تو میرے دِل کی اُجڑی دنیا میں اپنی حقیقی ماں کی یاد ہی روشنی کی ایک کرن ثابت ہو سکتی ہے۔میں اپنی مجبوراور مظلوم حقیقی ماں کی حسین یادوں سے اپنی انجمنِ خیال سجاؤں گا اور اپنے محسن پالنے والوں کی صفِ ماتم بچھاؤں گا۔‘‘

’’ناصفو خاکروب کے منہہ پر لگا مصلحت کا قفل صرف سونے کی چابی سے کُھل سکتا ہے۔‘‘صبو مہترانی نے چمگاڈر کی طرح آنکھیں بند کر کے کہا’’ میری تو زندگی اس جاروب کش کے ساتھ برباد ہو گئی ،میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔تم اس کا پیٹ زرو مال سے بھر دو یہ سارے راز خود ہی اُگل دے گا۔‘‘

’’اے کُوڑے کے انباروں کے نواح میں ستم کشِ سفر رہنے والے جاروب کش ناصفو خاکروب! میری بات کان کھول کر سُن لو ۔آج تمھیں یہ راز ہر صورت میں اُگلنا ہو گا ورنہ میرے تسمہ کش سب کچھ اُگلوا لیں گے۔ ‘‘زادو لُدھیک نے پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹوں کی ایک سو کی گڈی ناصفو خاکروب کے سامنے پھینکی اور غراتے ہوئے کہا’’اس دنیا میں سب کچھ بِکتا ہے ،جس طرف نظر دوڑاؤ بِکاؤ مال کے ڈھیر لگے ہیں۔ رازداری کے سب اصول ٹکے ٹوکری بِک جاتے ہیں۔میں نے تمھارے سینے میں دفن رازکی قیمت ادا کر دی ہے ۔اب دیر نہ کرواورجلدی سے بیس سال پہلے کے چشم دید واقعات سے پردہ اُٹھاؤ۔‘‘

پانچ لاکھ روپے کی بھاری رقم اپنی جیب میں ٹھونس کر ناصفو خاکروب نے کہا:
’’تمھاری ماں کا نام ٹینا ہے وہ اس شہر کے بہت بڑے سمگلرخشونت کی بیٹی ہے۔جب اس حسینہ نے شباب کی حدوں میں قدم رکھا تو رنگو نامی ایک بد نام ڈاکو نے خشونت کے گھر میں ڈاکہ ڈالا ۔ نوجوان نے اس حسینہ ٹینا کو جبر سے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ۔رنگو نے جرائم میں رابن ہُڈ کو بھی مات دے دی ،اس ننگ ِ انسانیت کو سب لوگ رنگو رذیل کے نام سے یاد کرتے اوراس پر تین حر ف بھیجتے۔ اس جنسی جنون اور ہوس ناکی پر مبنی متعفن واردات کے نتیجے میں نمو پانے والے اپنے نومولود نا جائز بچے کے معاملے کو پہلے تو نو ماہ تک لوگو ں سے پوشیدہ رکھا گیا۔بچے کی پیدائش کے بعد اپنی جان بچانے کی خاطرٹیینا نے اس نومولود بچے کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ اب ٹیناکی شادی شہر کے ایک بہت بڑے سمگلر سُدرشن سے ہو چُکی ہے ۔ٹینا نے کُوڑے کے ڈھیر پر ایک پھول کیا پھینکا فطرت کی سخت تعزیروں نے اُسے اپنی گرفت میں لے لیااس کی شادی کوبیس سال بیت گئے مگرٹینا کے آنگن میں اُمید کی کوئی کلی نہ کھل سکی اور اُس کی گود پھولوں کو ترس گئی۔‘‘
’’یہ تو بتاؤ ٹینا نے جب اپنے نو مولود بچے کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینکا تواس کے زادِ سفر کے طور پرساتھ کیا پھینکا تھا ؟‘‘زاد و لُدھیک نے پُرنم آ نکھوں سے پُو چھا ’’جاتے وقت ٹینا کے جذبات کیا تھے؟‘‘

’’کمبل میں لپٹے نو مولود بچے کے ساتھ ایک رومال میں بندھے سونے کے زیور بھی تھے ان زیورات کا وزن پانچ تولے تھا۔اپنے نومولود بچے کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے کے بعد ٹینا مُڑ مُڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھی اور اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برس رہی تھیں۔اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ نومولود بچہ ایک خاکروب کے محفوظ ہاتھوں میں چلاگیا ہے۔‘‘

سورج غروب ہو چُکا تھا ،رات کا اندھیرابڑھ رہا تھا سڑک سنسان تھی اور دُوردُور تک کوئی گاڑی آتی دکھائی نہ دیتی تھی ۔ سڑک کے دونوں کناروں پرصدیوں پرانے دیمک خوردہ درختو ں پر اُلّو منڈلا رہے تھے ا ور بے شمارچمگادڑ نیچی پرواز کر رہے تھے ۔ جھینگر کی آواز نے ماحول کو انتہائی خوف ناک بنا دیا تھا۔ ناصفو خاکروب اورصبو مہترانی غیر متوقع خوشی سے سر شار اور اپنے حسین مستقبل کے بارے میں جاگتی آنکھوں سے حسین سپنے دیکھتے ہوئے تیزقدم اُٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل رہے تھے۔ناصفو خاکروب نے اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہا :
’’زادو لُدھیک نے جورقم دی ہے ،اس سے ہم کالی کٹ میں ایک نیا مکان خریدیں گے۔اس شہر نا پُرساں بنارس میں اب ہماری قدر کرنے والا کوئی نہیں۔ بنارس کے ٹھگوں نے تو اب تک ہماری زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔ہماری تو پُوری زندگی کُوڑے کے ڈھیروں کو سُونگھتے گزرگئی مگر اب ہم اپنی بیٹی کو نیا ماحول دینا چاہتے ہیں۔‘‘

صبو مہترانی نے چڑیل کی طرح اپنے لمبے اور بد وضع دانت نکالتے ہوئے کہا’’ میں اپنی نو جوان بیٹی کوکالی کٹ نہیں لے جاؤں گی۔ وہاں تو بات پر زبان کٹتی ہے ،کالی کٹ میں قحبہ خانے کا دھندہ کیسے چلے گا؟میں تو نینی تال جاؤں گی جہاں سُر تال اور متوالے نین نقش کی قدر کرنے والے حُسن کے پرستاروں کی کسی دور میں کوئی کمی نہیں رہی۔میں تو مہترانی ہوں لیکن میری بیٹی تو سچ مچ کی رانی بنے گی۔‘‘

اچانک ایک تیز رفتار کار سڑک پر نمودار ہوئی اوران دونوں راہ گیروں کو کُچلتی ہوئی تھوڑے سے فاصلے پر جاکر رک گئی۔ اس نئی کار میں سے دو نقاب پوش مسلح ڈاکو نکلے اور قریب آکر شدید زخموں سے چُور ان نیم جاں راہ گیروں کو دیکھا جو چند لمحے قبل آخری ہچکی لے کر دم توڑ چُکے تھے ۔ایک ڈاکو نے ناصفو خاکروب کی جیب سے رقم کی تھیلی نکالی اورآرا م سے چلتے ہوئے دونوں اپنی کار میں بیٹھ گئے۔کار فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکل گئی۔ سڑک پر پڑی ان دو لاشوں کورات بھر سگان ِ آوارہ بھنبھوڑتے رہے۔صبح ہوئی تو بے شمار زاغ و زغن ان ڈھانچوں پر ٹُوٹ پڑے اور انھیں نوچ ڈالا۔ ان مسخ شدہ لاشوں کو ناقابل شناخت قرار دے کر صفائی کے عملے نے سُو کھے پتوں اور کُوڑاکرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا۔عفونت سے بچنے کے لیے سوکھے پتوں کو آگ لگا دی گئی۔کُوڑے کا وہی ڈھیرجس سے یہ جاروب کش زندگی بھرمفادات کے استخواں نوچتے رہے اور لوگوں کی ڈھیروں بد دعائیں سمیٹتے رہے اُسی پر یہ دونوں ڈھیر ہو گئے۔

بنارس کے نواح میں سُدرشن اور ٹینا کا ایک وسیع فارم ہاؤس تھا۔سدرشن نے منشیات کی سمگلنگ سے بے پناہ زرو مال اور کالا دھن اکٹھا کر لیا تھا۔پُورے علاقے میں اس کی دولت ،ثروت اور عیاشی کی دُھوم تھی۔اس فارم ہاؤس میں رقص و سرود اور مے نوشی کی محفلیں کثرت سے منعقد ہوتیں اور سارے مست بندِ قبا سے بے نیاز دادِ عیش دیتے تھے۔سُدرشن کے ساتھ شادی کے بعد بھی ٹینا کے شب و روزکے معمولات میں کوئی فر ق نہ آیا اور جنسی جنون کے باعث اس نے خوب سے خوب تر کی جستجو کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک ضعیف سمگلر خشونت نے اپنی بیٹی کا بیاہ ایک اُبھرتے ہوئے سمگلر سُدرشن سے کر دیا ۔اب وہ اپنے دشمن رنگو رذیل کو بُھول چُکی تھی۔رنگو اب زادو لُدھیک کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن چکا تھا ۔زادو لُدھیک ان سب باتوں سے آ گا ہ تھا۔وقت کے ستم بھی عجیب ہوتے ہیں،کئی بار سانپ آستین میں پلتے ہیں اور وہی ڈس لیتے ہیں۔اس کے بعد ان سانپوں کی جب موت آتی ہے تو یہ کسی گزر گاہ پر آ کر لیٹ جاتے ہیں،جہاں کاروانِ ہستی کے تیز گام قافلے کے راہ گیر انھیں کُچلتے ہوئے اپنی دُھن میں مگن آ گے نکل جاتے ہیں۔ ایک صبح رنگو رذیل کی بوری بند لاش زادو لُدھیک کے مکان سے کچھ فاصلے پر ملی۔سب لوگ اس قتل کو بھی چڑیلوں اور بھوتوں کی شقاوت کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ اس قسم کے پُر اسرارقتل پولیس کے لیے دردِ سر بنتے چلے جا رہے تھے ۔ اس پُر اسرار قتل کے بعدپولیس نے پورے علاقے کی ناکہ بندی کر دی اور رنگو رذیل کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شرع کر دئیے۔

سردیوں کی ایک خنک شام تھی ،ٹینا اپنے کمرے میں لیٹی تھی کہ ا چانک اس نے دیکھا کہ ایک نو جوان اس کے سامنے کھڑا مسلسل اُسے گُھور رہا تھا۔ٹینا نے نوجوان کو دیکھ کر غصے سے کہا:
’’تم کون ہو اوریہاں کس لیے آ ئے ہو ؟‘‘

زادو لُدھیک کے منہہ سے جھا گ بہہ رہا تھا ،اس نے سخت لہجے میں کہا’’حیرت ہے تم نے مجھے نہیں پہچانا ۔میں وہی بے بس و لاچار بچہ ہوں جسے تم نے آ ج سے بیس سال پہلے اپنے گناہوں کو چھپانے کی غرض سے رات کی تاریکی میں کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا۔اپنا مستقبل سنوارنے کی خاطرتم نے میرامستقبل تاریک کر دیا۔‘‘

’’آہ!تم ہو میرے لختِ جگر ‘‘ ٹینا نے روتے ہوئے کہا’’میں جب بھی تمھیں یاد کرتی تھی تو میرے دِل کی نازک رگیں پُھوٹتی تھیں ۔‘‘

’’تمھارا مقدر پُھوٹ گیا ہے ‘‘زادو لُدھیک نے گرج دار آواز میں کہا’’ مجھے لختِ جگر مت کہو،جب سے تم نے مجھے کُوڑے کے ڈھیر پر پھینکا ہے ،میں جگرِ لخت لخت کو جمع کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں مگر آج تک منزل سے نا آشنا سرابوں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں ۔تم نے تو میری زندگی کو غم کا فسانہ بنا دیا ،آج میں تمھاری شہ رگ کاٹ دوں گا۔‘‘

’’ہوش کے ناخن لو !‘‘ٹینا نے کہا ’’ اگر تم کو تمام حقائق معلوم ہو گئے ہیں تو یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ میں بے گناہ ہوں ۔ دہشت کے ذریعے میری زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کرنے والا عزتوں کا لُٹیرا اورمجھے مکمل طور پر منہدم کر کے برباد کرنے والا ڈاکو رنگو رذیل تمھارے ساتا روہن میں شامل ہے ، تمھارا ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہے۔ اگر تم میں اتنی غیرت ہے توپہلے اس کی شہ رگ کاٹو۔‘‘

زادو لُدھیک کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے ،اس نے طیش میں کہا ’’میں رنگو رذیل کی بوری بند لاش گوالیا ر روڈ پر پھینک کر یہاں پہنچا ہوں۔ کاش تم نے ڈکیتی کی واردات کے وقت اپنی موت کو قبول کر لیا ہوتا۔ اب تمھاری باری ہے ،تمھیں اس مرگِ نا گہانی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘

یہ کہہ کرزادو لُدھیک نے اپنی جیب سے پستول نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک غیر متوقع للکار نے اس پر سکتہ طاری کر دیا’’خبردار اگر ذرا بھی حرکت کی !تم اس وقت پولیس کے نرغے میں ہو۔ چارون طرف سے مسلح پولیس کے دستوں نے اپنی مشین گنوں کا رُخ تمھاری طرف کر رکھا ہے۔‘‘

زادو لُدھیک یہ سُن کر بو کھلا گیا ور اس نے غیر ارادی طور پرمڑ کر دیکھا تو واقعی وہ پولیس کے شکنجے میں آ چُکا تھا ۔ یاس و ہراس کے عالم میں اُس نے اپنی جیب سے پستول نکال لیا اور پولیس آفیسرکا نشانہ بنانے ہی والا تھا کہ سپاہیوں کو اپنی حفاظت کی خاطر گولی چلانے کا حکم مل گیا ۔ تڑ تڑگولیا ں چلنے کی آواز سے کی آواز سے کمرہ گونج اُٹھا۔زادو لُدھیک کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اپنے لختِ جگر کے خون سے اپنا دامن تر ہونے کا صدمہ ٹینا کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔خون میں تر اپنے لختِ جگر کی لاش سے لپٹ کر ٹینا نے کہا :
’’ تجھ کو میں کس پُھول کا کفن دوں؟تو ایسے حالات میں دائمی مفارت دے گیا جب میری گود ہمیشہ کے لیے پُھولوں سے خالی ہو چُکی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر ٹینا نے آخر ہچکی لی اور اپنی حسرتوں سے لبریز زندگی سے نجات حاصل کر لی۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 679952 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.