شجر کاری زمین پر یا ہوا میں؟

جس ملک میں قدرتی جنگلات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں یقینا وہ ملک خوشحال اور کافی حد تک قدرتی آفات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور اس کے علاوہ ہوا میں آلودگی کا صفایا،آکسیجن میں اضافہ تعمیرات میں سہولت کے ساتھ لکڑی سے ہر طرح کے فرنیچر بھی تیار کئے جاتے ہیں۔جہاں جہاں قدرتی جنگلات زیادہ پائے جاتے ہیں وہاں چراگاہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس باعث مال مویشی بہ آسانی بلتی ہیں جن سے طرح طر ح کے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔جنگلات قدرت کا ایک انمول نعمت ہیں جسے دنیا کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے اور گلیشرز کی عمر بھی بڑھتی ہے جس کی وجہ سے پانی کا منبع،ذخیرہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے چونکہ پانی زندگی ہے ہر ذی روح پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔گزشتہ کئی سالوں دنیا بھر میں ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کی خاطر شجر کاری پر زور دیا جارہا ہے اور اس حوالے سے فنڈز بھی دیئے جارہے ہیں۔AKRSPکا شجر کاری کے حوالے سے ایک اہم کردار ہے۔گلگت بلتستان میں بھی ہر سال سرکاری سطح پر شجر کاری ہوتی ہے اور ہر سال زرائع ابلاغ میں شہ سرخیاں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں فلاں علاقے میں ہزاوں، لاکھوں شجر کاری کی گئی ،نئے درخت لگائے گئے، ہیں یہ نیک کام خوشحالی کا باعث ہے اس کے ساتھ انسانی زندگی بھی وابستہ ہے۔اگر اس شجر کاری میں پھلدار درختوں کی شجر کاری پر بھی توجہ دی جائے تو اس کے فوائد ان گنت ہیں۔اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ آیا واقعی یہاں اتنی ہی شجرکاری ہورہی ہے جتنا دعویٰ کیا جارہا ہے۔اگر حقیقت میں زمین پر اتنی تعداد میں شجرکاری ہوتی تو اب تک پورا گلگت بلتستان وافر مقدار میں پھلوں کو برآمد کرنے والے خطہ ہوتا، فرض کریں اگر پھلدار درختوں کی اتنی تعداد نہیں مگر غیر پھلدار درختوں کی شجرکاری زمین پر ہوچکی ہے تو پھر بھی گلگت بلتستان ایندھن کے معاملے میں بھی خود کفیل ہوتا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے لگتا اایسا ہے کہ دیگر اداروں کی طرح اس جنگل کے ادارے میں بھی جنگل کا راج ہے یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں، کوئی گننے والا نہیں، کوئی ریکارڈ طلب کرنے والا نہیں چونکہ یہاں پر بھی سب کی طلب پوری ہورہی ہوگی اس ادارے کی بھی کوئی کارکردگی نظر نہیں آرہی ہے شجر کاری کے بلند بانگ دعوے تو درکنار جس تیز رفتاری سے جنگل کا صفایا ہورہا ہے اتنی تیزی سے تو بلدیہ کے ملازم جھاڑو بھی نہیں پھیر رہے ہیں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بے دریغ جنگل کاٹا جارہا ہے اور اس جانب بھی اس طرح کی خاموشی ہے جیسے رات کو ایک سنسان بیان میں ہو کا عالم ہوتا ہے، اگر غور کریں تو ایک درخت کاٹنا ایک انسان کو قتل کرنے کے مترادف ہے کیونکہ وہی درخت جب تناور بنتا ہے تو کئی انسانوں کو سر چھپانے کا باعث بنتا ہے۔یہاں پر سرکاری اداروں کی بے حسی کی اپنی ایک مثال ہے یہاں جس کسی کو بھی موقع ملتا ہے وہ آنکھیں بند کرکے اپنی دنیا آباد کرنے میں مگن رہتا ہے بہت کم ہی ایسے افراد ہونگئے جو درد رکھتے ہوں اور فقط اپنے ہی حصے کی روزی پر اکتفا کرتے ہوں۔اسی طرح محکمہ جنگلات کا بھی باوا آدم نرالا ہے۔ نہ جانے اتنی تعداد میں شجرکاری کہاں ہوتی ہے زمین پر تو اس کے اثرات بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں البتہ آسمان پر کوئی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئی کام ہورہا ہے تو ہم اس سے نابلد ہیں۔اگربرا نہ لگے تو ایک مشورہ دینا چاہیں گے وہ یہ کہ دریا کنارے اگر سفیدے کے درخت لگائیں جائیں تو لاکھوں درخت لگ سکتے ہیں اور پانی دینا بھی آسان ہوگا چند سالوں میں انہیں فروخت کرکے اتنی رقم کمائی جاسکتی ہے اگر فی گھرانہ پانچ پانچ روپے بھی تقسیم کیا جائے تو یہ رقم ختم نہیں ہوگی، یہ تو میں ایک مثال پیش کر رہاہوں، اس طرح دریا کے کٹاؤ میں بھی کمی پیدا ہوگی، سینکڑوں بے روزگاروں کو ملازمت بھی ملے گی،جبکہ دریا کے ساتھ کی گئی شجر کاری سے علاقہ مذید خوبصوورت نظر آئیگا جس کی دلکشی اور خوبصورتی سیاحوں کو یہاں آنے پر مجبور کرے گی اور سیاحت کے شعبہ میں بھی ترقی یقینی ہوگی۔ہم یقین سے کہ سکتے ہیں کہ دریا کے کنارے پر شجرکاری مہم میں یہاں کے عوام بھی بھرپور تعاون کریں گے،یہاں کا چیف سیکریٹری جو اصل بادشاہ ہوتا ہے اگر یہ صاحب اس جانب توجہ دیں تو یہ ایک ترقی کا ،خوشحالی کا اور نیک کام ہے اس کے دنیاوی اور اُخروی منفعت سے آپ بخوبی آگاہ ہیں۔گلگت بلتستان میں پھل دار اور غیر پھلدار درختوں کو جہاں جہاں گنجائش ہے کثرت کے ساتھ شجر کاری کی جائے تو بڑی حد تک بیروزگاری میں کمی آسکتی ہے چونکہ اس شعبے کو جدت دینے کے لئے نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آنا ہوگا اس سے ان کے روزگار بھی چلے گا اور علاقے میں ترقی اور خوشحالی کا راج ہوگا۔فروٹ کو ڈرائی کرنے اور فروٹ سے مختلف اقسام کی اشیاء بنانے والے کارخانے لگیں گے اہل ثروت لوگ تب دلچسپی لیں گے جب یہاں پر کارخانو ں کی ضرورت پوری ہوسکے۔یہاں پر ایندھن وافر مقدار میں ہو تو اس کی قیمت میں بھی کمی آئے گی جس باعث تندور، نائی شاپ کے نرخوں میں بھی کمی آسکتی ہے جب کہ یہاں کے غریب لوگ مہنگی گیس خریدنے سے بھی بچ جائیں گے۔ مگر کارخانے بجلی کے ب بغیر نہیں چل سکتے ہیں۔ہوسکتا ہے بہت سے لوگ اسے پڑھکر ایک خام خیال، یا کہانی تصور کریں گے۔در حقیقت میں زیادہ نہیں20سال قبل اس پر عمل ہوتا تو آج گلگت بلتستان کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ہم غیروں سے کیا شکایت کریں گے، غیر کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر اس خطے کو پیچھے دھکیلنے میں اپنوں کا ہی ہاتھ ہے،ہم اپنی ددھرتی، کے اپنے گھر کے اپنے لوگوں کے مفاد میں سوچنے سے قاصر ہیں جو بڑے سے بڑا ذمہ دار ہوتا ہے اس کی ذمہ داری ہی اتنی بڑی ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا کام اپنے علاقے کے لئے کرسکتاہے مگر یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے جو جتنا بڑا ہوگا اس کی غلطی اور اس کا خوردبرد بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔یہاں آخری حل یہ نظر آتا ہے کہ ہر محکمے کا سربراہ چین سے لانا ہوگا اور اس کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ جو بھی کام چوری کرے،کرپشن کرے اس کو سزا بھی آپ چائنا قانون کے مطابق دیں۔ پھر دیکھیں زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے اندر یہ لوگ الف کی طرح سیدھے نہیں ہوئے تو یا خدا کرے کوئی ایسا حکمران آجائے جو انہیں سیدھا کردے۔اس سے قبل کہ اﷲ کی لاٹھی پڑ جائے ہم سب کو اپنے ذمہ دار ی کا احساس کرتے ہوئے اسے احسن طریقے سے نبانا چاہئے تاکہ دونوں جہاں میں ہماری پکڑ کم سے کم ہوجائے۔
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 19137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.