آج کل ایک بڑی الجھن میں گرفتار
ہوں، آپ کی مدد درکار ہے۔ دراصل میں حساب میں بہت کمزور واقع ہوا ہوں، ہلکی
پھلکی جمع تفریق سے بھی سر دکھنے لگتا ہے، مگر کیا کروں، ایک ایسے حسابی
مسئلے سے پالا پڑا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، الٹی گنتی گنوں یا سیدھی،
غالباً یہ کوئی الجبرا کا سوال ہے، شاید قارئین میں سے کوئی حساب کتاب میں
مہارت رکھتا ہو، یہ سوچ کر اپنا مسئلہ آپ سے شیئر کررہا ہوں۔
یہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ واپڈا نے کسی غریب کو لاکھوں، کروڑوں کا بل
بھجوادیا، پچھلے دنوں ایک بے چاری بوڑھی بجلی کا بل لیے میڈیا والوں کے پاس
آئی تھی، اس غریب کے گھر میں ایک پنکھا اور بلب ہی استعمال ہوتا ہے، مگر
واپڈا والوں نے اس کے غریب خانے کو ایوان صدر سمجھ کر کوئی دو، تین کروڑ
روپے کا بل بھجوادیا تھا، معاملہ میڈیا میں آیا تو واپڈا والوں نے اگر مگر،
چونکہ چنانچہ کا سہارا لیتے ہوئے کروڑوں کا بل چند سو کا کرکے معاملہ
نمٹادیا، جبکہ بل میں ہونے والی غلطی کی ساری ذمہ داری کمپیوٹر پر ڈال دی،
اب بھلا کمپیوٹر کو کیا سزا دی جاسکتی ہے۔ آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ بجلی
اور گیس کے محکموں نے کنکشن دیے بغیر ہی بل جاری کردیے، اس طرح کے معاملات
کئی بار اخبارات میں آئے ہیں، ایک صاحب نے بجلی کے کنکشن کے لیے درخواست دی،
واپڈا آفس سے میٹر کی منظوری ہوگئی ،مگر تماشا یہ ہوا کہ ابھی میٹر لگا بھی
نہیں تھا، اسے پورے دس ہزار روپے کا بل بھجوادیا گیا، وہ بے چارہ دفتروں کے
چکر پر چکر کاٹتا رہا، ایک ایک افسر کو جاکر بتاتا، صاحب ابھی تو میرے گھر
میٹر لگا بھی نہیں مگر بل آگیا ہے، کیا کروں؟ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا،
بل غلطی سے جاری ہوگیا ہے، ایسا کریں آپ یہ بل جمع کروادیں، اگلے مہینے کے
بل میں اسے ایڈجسٹ کرلیں گے۔ عجیب گھن چکر ہے، بل ختم نہیں کررہے، ادھر
ادھر کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ وہ شخص بھی اڑ گیا کہ بل غلط ہے، اسے ہر صورت
ختم کراکر رہوں گا۔ ڈراپ سین کیا ہوا؟ پورے پندرہ روز دھکے کھانے کے بعد
بھی آخر کار اسے بل جمع ہی کرانا پڑا، ہاں ایک ’’مہربان‘‘ افسر کی وجہ سے
یہ سہولت مل گئی کہ 10 ہزار کا بل یکمشت جمع کرانے کی بجائے اڑھائی اڑھائی
ہزار روپے کی چار قسطیں کردی گئیں۔
بہت سے لوگ ایوریج بلنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں، چوں کہ عزت مآب میٹر ریڈر
صاحبان تو بادشاہ لوگ ہیں۔ کئی بار ان کا موڈ نہیں ہوتا تو یہ گلی گلی گھوم
کر میٹروں کی ریڈنگ کی بجائے سابقہ ریکارڈ کے مطابق ہی بل بنوادیتے ہیں،
مثلاً اگر انہوں نے مارچ کی میٹر ریڈنگ نہیں کی تو پچھلے برس مارچ میں
استعمال ہونے والی بجلی کے حساب سے اس ماہ کا بل بنادیا جائے گا۔ غلط میٹر
ریڈنگ بھی معمول کی بات ہے، 10 کو 100 یونٹ بنانا ان کے لیے ہلکا پھلکا
مذاق ہے۔ پھر ظلم یہ ہے کہ ایک تو غلط بل بھیجتے ہیں، دوسرا عوام کی فریاد
سننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ غلط بل کو درست کرانا تقریباً تقریباً
ناممکنات میں سے ہے، اگر کسی کا کوئی ’’پوا‘‘ ہے تو الگ بات، ورنہ شاید ہی
کوئی متاثرہ شخص بل درست کراسکے۔ واپڈا والوں کے پاس ہر شکایت کا ایک ہی
جواب ہے: ’’اس بار تو بل جمع کرادیں، اگلے بل میں درستی کردیں گے۔‘‘
بجلی کمپنیوں کو پرائیویٹ کرنے کے بعد یہ مسائل زیادہ ہوگئے ہیں۔ کمپنیوں
نے ان غلطیوں کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، زیادہ تر کیسز میں یہ غلطیاں
بھول کر نہیں ہوتیں، بلکہ کمپنیاں جان بوجھ کر کرتی ہیں۔ ان غلطیوں کی آڑ
میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ ایک شخص کے گھر میں بجلی کے
100 سے کم یونٹ خرچ ہوتے ہیں، اب سرکاری ٹیرف کے مطابق اس کا یونٹ سستا
ہوگا، کیوں کہ حکومت نے یونٹ کے خرچ کے حساب سے قیمتوں کا تعین کیا ہے،
بجلی کم استعمال کرنے والوں کو بلوں میں رعایت دی جاتی ہے۔ آپ نے 100 سے کم
یونٹ خرچ کیے، اس پر آپ کو رعایت ملنی چاہیے تھی، مگر کمپنی نے آپ کو دس
بیس یونٹ زاید لگا کر بل بھیج دیا، اب آپ کا بل 100 یونٹ سے بڑھ گیا اور آپ
رعایت کے مستحق نہیں رہے، کیوں کہ 100 سے ایک یونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو
تمام یونٹوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ آپ نے شور مچایا یا پھر واپڈا والوں نے
خود ہی اگلا بل میٹر کے مطابق بھجوادیا تب بھی آپ کو کیا فائدہ ہوا؟ کمپنی
پچھلے بل میں آپ کو چونا لگا چکی ہے۔ کمپنیوں نے اس طریقے سے صارفین کو
اربوں روپے کا چونا لگایا ہے۔ عمران خان نے دھرنے کے دوران اوور بلنگ پر
شور مچایا تھا، جس پر وزیر اعظم نے کمیٹیاں بنائیں، عوام کو لوٹے گئے پیسے
واپس دینے کی خوش خبری بھی سنائی گئی، مگر دھرنا ختم ہوا تو وہ کمیٹیاں بھی
ختم ہوگئیں اور عوام کا اربوں روپیا بھی ہضم ہوگیا۔
مگر میرا درد سر کچھ اور ہے، پچھلے کئی ماہ سے اوور بلنگ کا نشانہ بنا ہوا
تھا، واپڈا والوں کی ہدایت کے مطابق جیسے تیسے بل جمع کراتا رہا، جو اضافی
پیسے جمع کرائے تھے وہ مائنس ہوتے رہے، اب معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ اس
ماہ میرا حساب برابر ہوگیا ہے۔ واپڈا والوں کا میری طرف کچھ نکلتا ہے، نہ
میرا ان پر کوئی قرض ہے، معاملہ بالکل صاف ہوگیا ہے، اس لیے اس ماہ کا میرا
بجلی کا بل صفر آیا ہے۔ یہاں تک تو بڑی خوشی کی بات ہے، جھنجھٹ سے جان چھوٹ
گئی، مگر اس بل نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔
پچھلے سات آٹھ برس سے والدین سے الگ رہ رہا ہوں، اس عرصے کے دوران کبھی
ایسا نہیں ہوا کہ بجلی کا بل جمع نہ کرایا ہو، یا جمع کرانے میں تاخیر ہوئی
ہو اور جرمانہ عاید کردیا گیا ہو۔ ہمیشہ وقت پر بل جمع کرایا، چاہے اس کے
لیے کتنی لمبی قطار ہی میں کیوں نہ لگنا پڑا ہو۔ حساب کتاب کے ماہر قارئین!
مسئلہ یہ ہے کہ بل تو میرا صفر آیا ہے، لیکن اس میں لکھا ہوا ہے کہ اگر بل
مقررہ وقت پر جمع نہیں کرایا گیا تو 9 روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ آپ کو
پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آج تک مجھ پر کبھی بلوں کے معاملے میں جرمانہ نہیں
لگا، میں چاہتا ہوں کہ اب بھی مجھ پر جرمانہ نہ لگے، اس لیے آپ کی مدد کی
ضرورت ہے، ذرا کاپی پین نکال کر بیٹھیں اور حساب کتاب لگا کر مجھے بتائیں
کہ 9 روپے کے اس جرمانے سے بچنے کے لیے بل کیسے جمع کراؤں؟ حالاں کہ بل صفر
آیا ہے۔ |