بلدیاتی الیکشن کا شیڈول اورجنوبی پنجاب کی سیاسی صورت حال

 ڈیرہ غازیخان میں تمام سیاسی جماعتوں اور گروپس کے کارکنان بلدیاتی اتتخابات کے انعقاد اور اس میں حصہ لینے کے لیے پرجوش ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اس مقصد کی خاطر حلقہ بندی کے کام کو مزید تیز کردیا ہے۔ ملنے والی معلومات کے مطابق ضلع کی یونین کونسلوں کی تعداد، وہی 98 رکھی جائیں گی.(2013-14)۔ ایک ضلع کونسل اور ایک میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور دو میونسپل کمیٹی کے حلقوں اور وارڈ بندی ہورہی ہے۔ ڈپٹی الیکشن کمشنر ڈیرہ غازیخان محمد اصغر بطور حلقہ بندی افسربڑی جانشفانی سے اپنے معاونین کے ساتھ حلقہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے متوقع امیدواران نے بھی اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ ذراٰئع نے بتایا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے ضلعی عہدیداران کو کہہ دیا ہے کہ وہ الیکشن کی تیاری کریں۔ امسال ستمبر میں بلدیاتی الیکشن ہونگے۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کام شروع ہونے کے ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی گرمی آگئی ہے۔ ڈیرہ غازیخان میں سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت اور بڑے سیاسی گروپ متحرک ہوگئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اگرپہلے بات کی جائے تو اس میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ ابہام اس لیے کہ جنتے لیڈر(مقامی)ہیں اتنے ہی پارٹی میں گروپس ہیں جو ایک دوسرے کے بھی مدقابل ہیں ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی جاہی ہے۔ ہر کوئی دعوی کرتا ہے کہ اس کو پارٹی کی اعلی قیادت کا اعتماد حاصل ہے۔ اور بلدیاتی الیکشن میں اس کی جانب سے نامزد، امیدوار ہی پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ کارکنان اور متوقع امیدوار بھی اس کی وجہ سے مخمصے کا شکار ہیں۔ کہ کس کے ساتھ وابستہ رہیں۔ یہ صورت حال پی ایم ایل این ، پی پی پی اور پی ٹی آئی میں زیادہ ہے۔پی ایم ایل این میں ممبران اسمبلی میں سردار محمد جمال خان لغاری کا گروپ اور سید علیم شاہ کا گروپ اسی طرح حافظ عبدلکریم کا گروپ بظاہر الگ الگ ہے۔ جبکہ ناراض لیگیوں کا گروپ الگ ہے۔ یہی حال پی پی پی کا ہے جس کے ایک نہیں تین ضلعی صدر کے دعویدار ہیں۔ سابق ٹکٹ ہولڈر شبلی شب خیز غوری اور، ٹالپور کا گروپ الگ الگ ہیں یہ مسئلہ پی ٹی آئی میں بھی موجود ہے ممبر صوبائی اسمبلی سردار احمد علی خان دریشک الگ اور سابق ٹکٹ ہولڈر میاں بیوی اخوند ہمایوں رضا اور زرتاج گل الگ الگ گروپ کو لیڈ کرتے ہیں ۔سیاسی پارٹیوں کی مقامی قیادت کا آپس میں اتفاق نہیں۔ تاہم بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع ہیں اور کافی جوش وخروش پایاجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مقامی سطح پر موجود مسائل کو حل کرنے کے لیے اگرچہ ابھی تک پارٹی کی اعلی قیادت کی طرف سے کوئی ہلچل دکھائی نہیں دیتی مگریہ صورت حال زیادہ دیر تک نہیں رہے گی۔ اعلی قیادت کی مداخلت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ اب یہ مداخلت کب ہوگی اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اپنی اپنی پارٹیوں کے خیر خواہ، قیادت کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت تک تو ڈیرہ غازیخان میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے سب سے زیادہ متحرک و فعال سابق وزیر اعلی ہنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ۔ لیگی ایم پی اے سید علیم شاہ۔ جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما شیخ محمد عثمان فاروق۔ محترمہ زرتاج گل پیش پیش پیں جوکہ کارکنان سے رابطوں میں ہیں اور حلقہ بندی کے عمل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے لیے اب تک کے ہونے والے اقدامات پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ الیکشن ہونگے۔ تاہم عوامی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ ملک میں مردم شماری جوکہ مارچ 2016 کرائے جانے کا کہا گیا ہے اور الیکشن کمیشن کی استعداد کار میں کمی۔ یہ دو عنصر ایسے ہیں کہ شاید یہ الیکشن امسال ستمبر میں نہ ہوں اور اگلے سال مارچ کے بعد ہوں۔ کیونکہ حلقہ بندی کے لیے بھی مسائل ہیں جن میں آبادی اور رجسٹر ووٹرز کا تناسب اور حلقوں کا سائز وغیرہ اہم ہیں ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر مردم وخانہ شماری پہلے ہوجاَئے تو حلقہ بندیوں میں آسانی ہوگی۔ کیونکہ آخری مردم شماری کے تحت آبادی پر حلقہ جات بننے سے حلقوں کا چھوٹا اور بڑا ہونے کا مسئلہ ہے۔ ترمیمی بل اور آرڈیننس کے مطابق یونین کونسل کا حلقہ کم سے کم 13 ہزار کی آبادی اور زیادہ سے زیادہ کے بارے خاموشی ہے۔ ابہام ہے۔ کہیں یہ حلقے 30 ہزار آبادی پر بھی بنے تھے۔ قانون کے تحت تخمینہ کی گئی آبادی پر حلقہ بندی نہیں ہوسکتی۔ آگے کیا ہوگا اس بارے حتمی ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ عوامی حلقوں میں شامل سیاسی و سماجی طبقات کی طرف سے آنے والی حلقہ بندی اور الیکشن رولز کے لیے تجاویز کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں سماجی شعبہ کی طرف سے مہم کا آغاز بھی کیا جائے۔ لوگوں کو اس سارے عمل میں شریک کیا جائے جس سے ایک تو الیکشن کی فضا بڑھے گی اور لوگوں کی اس میں دلچسپی اور بڑھے گی۔ معاشرتی طور لا تعلقی کا اظہار کے کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 58710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.