ون ویلنگ موت کی ڈیلنگ
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
ماں ایک طرف چولہے پربریانی جبکہ
دوسری طرف اپنے نازوں سے پلے بیٹے نعمان کے مستقبل بارے خیالی پلاؤپکارہی
ہے ۔ ماں نے ابھی نعمان کے مزیدکئی کام کرنے ہیں ، اس کایونیفام
جودوپہرکودھویا تھااسے تارسے اتارنااور استری کرناہے ،جوتے چمکانے ہیں
اوراس کی بیڈ شیٹ بدلنی ہے۔ شادی کے سترہ برس بعد پیداہونیوالا نعمان اپنے
والدین کی کل کائنات ہے ۔ نعمان ذہین سٹوڈنٹ ہے، والدین کواس سے بڑی امیدیں
ہیں ۔کالج سے واپسی پرنعمان نے کھاناتناول کیا اورپڑھنے بیٹھ گیا، شام کے
وقت اس کے موبائل پرکال آئی اوروہ ماں کے رو کتے روکتے اپنے موٹرسائیکل
پرگھر سے نکل گیا۔ماں نے نعمان کی خوشی کیلئے اپنی طلائی چوڑیاں جبکہ باپ
نے اپنی گھڑی اورپرانی موٹرسائیکل فروخت کردی اور اسے نیاموٹرسائیکل لے دیا
جس پروہ شان سے اپنے کالج جاتاہے۔ماں باپ کوہروقت دھڑکالگارہتا،وہ روزانہ
نعمان کوڈھیروں دعاؤں اورنصیحتوں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں کیو نکہ اس کے والد
آئے روزاخبارمیں ون ویلنگ کے نتیجہ میں نوجوانوں کی اندوہناک اموات کی خبر
یں پڑھتے اوردلخراش تصاویرد یکھتے ہیں ۔آج شام بھی ماں نے روکامگر نعمان
جلدی آنے کے وعدے پرموٹرسائیکل پرباہر نکل گیا، گلی میں نعمان کا دوست
نویدجو چھ بہنوں کااکلوتابھائی ہے ،وہ بھی اپنے موٹرسائیکل پراس
کامنتظرتھا۔نوید کے والد سکول کے ٹیچر جبکہ والدہ گھرمیں خواتین کے کپڑے
سلائی کرتی ہیں انہوں نے نویدکواحساس محرومی سے بچانے کیلئے مقامی دکان سے
قسطوں پر موٹرسائیکل لے کردی تھی۔نعمان اورنویدکایہ پروگرام طے شدہ تھا ،انہوں
نے اپنے اپنے موٹرسائیکل کی رفتاربڑھاتے ہوئے ان کارخ رنگ روڈ کی طرف
موڑدیا اوروہاں پہنچتے ساتھ ون ویلنگ شروع کردی ،کچھ دیر بعد ان دنوں
کاتوازن برقرارنہ رہا اوروہ آپس میں ٹکرانے کے بعد پیچھے سے آنیوالی ایک
کار کی زد میں آگئے۔ہیلمٹ کے باوجودنعمان کوسرمیں گہری چوٹ آئی جبکہ
نویدکاچہرہ قابل شناخت نہیں رہا ، دونوں موٹرسائیکلوں کوکافی نقصان
پہنچااورنعمان کاموبائل بھی ٹوٹ گیا۔حادثہ کے مقام پرکافی شہری اکٹھے ہوگئے
،ان میں سے ایک آدمی نے فوراً 1122کو اطلاع دی جو بارہ سے پندرہ منٹ
بعدآگئی مگر نعمان اورنویدہسپتال لے جاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔
ادھرنعمان کے والدبھی گھرلوٹ آئے ، ماں نے بریانی کو دم دیا توخیال آیا
بیٹے کوفون کروں اوربتاؤں بریانی تیارہے گھرآجا ؤاکٹھے کھاناکھاتے ہیں ۔ماں
نے بیٹے کاموبائل نمبرڈائل کیا مگر فون بند ہے ،دوچاربارنمبرڈائل کرنے کے
باوجودبیٹے سے رابطہ نہ ہونے پر مضطرب ماں مزید بیقراراوربے چین ہوگئی اور
اس نے باہرکا دروازہ کھول کرگلی میں جھانکا مگر نعمان وہاں بھی نہیں ہے ،وہ
ننگے پاؤں گلی میں نکل گئی اوربھاگتے ہوئے اپنے گھر سے کچھ دور نوید
کادروازہ کھٹکھٹا تے ہوئے زورسے نوید کوآوازدی جس پرنوید کی ماں دروازے
پرآگئی اوربتایانویدگھرپرنہیں ہے اسی اثناء میں گلی کی کچھ اورخواتین بھی
وہاں آکر نعمان کی ماں کوتسلیاں دے رہی ہیں ۔ خواتین کاشورسن کرنعمان کے
والدسمیت کچھ مردحضرات بھی گھروں سے نکل آئے ہیں۔ ایک نوجوان نے بتایا
نعمان اورنوید موٹرسائیکلوں پررنگ روڈ کی طرف گئے ہیں لہٰذاء آپ لوگ پریشان
نہ ہوں وہ آتے ہی ہوں گے ۔ اس کایہ کہناتھاکہ اچانک 1122کی دوگاڑیاں
اپنامخصوص ہارن بجاتی ان کی گلی میں داخل ہوئیں اورہجوم کے پاس آکررک گئیں
،ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھے اہلکارنے بلندآوازمیں پوچھا نعمان اورنویدکاگھرکون
سا ہے ،نعمان کی والدہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولی'' میں نومی کی ماں ہوں''
آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔ ''نویدمیرابیٹا ہے ''دوسری خاتون بولی مگر وہ دونوں
بھی گھر میں نہیں ہیں۔اس اہلکارنے جواب دیا وہ دونوں اب اس دنیا میں نہیں
رہے ،نعمان کا والد چلایا یہ کیا بکواس ہے ۔اہلکاروں نے نعمان اورنوید کی
لاشیں نیچے اتاردیں جس پروہاں کہرام مچ گیاہے اور آنکھوں کے بندٹوٹ گئے ہیں
۔نعمان کی ماں پرسکتہ طاری ہے۔ ماں نے زورسے کہاشورنہ کرو میرانومی سورہا
ہے ، ماں نے نومی کو سینے سے لگایا اوراس کی خون آلودپیشانی چوم لی،پھربولی
بیٹانومی اٹھوبریانی تیارہے کھالو۔نومی میں نے تمہارایونیفارم استری کردیا
ہے ۔تمہارے جوتے بھی چمکادیے ہیں۔اپنی موٹرسائیکل گھر لے آؤاسے بھی دھونا
ہے ،مگر وہاں موجودافرادکی آوازیں ،آہیں اوران کے آنسو نعمان اورنویدپر
کوئی اثرنہیں کررہے وہ خودتو بے موت مرگئے مگر ان کی اندوہناک موت نے ان کے
ورثاکوبھی زندہ درگورکردیا ۔اب نعمان کی ماں کے پاس یادوں اورآنسوؤں کے
سواکچھ نہیں ہے ۔
یہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ نعمان اورنویدنے خود موت منتخب کی تھی بلکہ بے
رحم موت کوللکاراتھا ۔ہماری شاہراہوں پرمنچلے نوجوان ون ویلنگ کے نام پرنہ
صرف اپنی بلکہ اپنوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں جوانہیں دیکھ دیکھ کرزندہ ہوتے
ہیں اوران کے مرنے پرزندہ لاش بن کررہ جاتے ہیں۔ ون ویلنگ درحقیقت موت سے
ڈیلنگ ہے ،اس خونیں کھیل کاسدباب سی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ اورسی ٹی
اوراولپنڈی شعیب خرم جانبازسمیت ہر سٹی ٹریفک پولیس کیلئے ایک چیلنج ہے، سی
سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس کی ہدایات پر جس طرح طیب حفیظ چیمہ نے
بیڑااٹھاہے اس طرح باقی سی ٹی اوزبھی اپنے شہروں میں مہم شروع کر یں۔ ون
ویلنگ کاپہیہ جام کرنے کیلئے ایک ٹھوس ایکشن پلان اورخصوصی ٹاسک فورس بنانے
کی ضرورت ہے ۔لاہور میں سی ٹی او طیب حفیظ چیمہ کی سربراہی میں آئے روز
گاڑیوں کی بغیر رکاوٹ آمدورفت یقینی بنانے جبکہ شہریوں میں ٹریفک قوانین کا
شعوراجاگرکرنے کیلئے کوئی نہ کوئی مہم چلناخوش آئند ہے۔ون ویلنگ کیخلاف مہم
کی کامیابی کیلئے سی ٹی اوزکو شہریوں کابھرپورتعاون درکارہے۔ون ویلنگ
کیخلاف مہم میں شہریوں کوشریک کرنے کیلئے ایک طریقہ کاربنایا جائے۔ طیب
حفیظ چیمہ اپنے آفس میں ایک کنٹرول روم قائم کریں جہاں ٹول فری فون پرشہری
اطلاع دیں اورایک ای میل سمیت فیس بک اکاؤنٹ بھی جہاں تصاویراور ویڈیوز
بجھوائیں۔آگہی واک کااہتمام اوراس میں ون ویلنگ کے نتیجہ میں مرنیوالے
نوجوانوں کے والدین یاورثاکومدعو جبکہ ان کے جذبات واحساسات کوعام کیا
جائے۔میڈیا بھی اس مہم کوبھرپورکوریج دے۔کنٹرول روم میں آنیوالی فون کال کے
مطابق متعلقہ وارڈنز کو وائرلیس پر خبردار کیا جائے اورمقامی پولیس بھی ان
کاساتھ دے کیونکہ نوجوان وارڈنزسے نہیں ڈرتے اورا ن کے قابونہیں آتے ۔ کئی
ون ویلرزنے گوگل اورفیس بک پراپنے اپنے نام اوراپنی اپنی تصویر کے ساتھ ون
ویلنگ کی ویڈیوزاورتصاویراپ لوڈ کی ہوئی ہیں وہاں سے بھی ان کاسراغ لگایا
جاسکتا ہے۔ طیب حفیظ چیمہ ون ویلرز کیخلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ چھوٹی
عمر کے موٹرسائیکل ڈرائیورزکیخلاف بھی مہم شروع کریں جو اپنے پیچھے مزید
دوچارمعصوم بچوں کوبٹھاکردن بھرموٹرسائیکل سڑکوں پردوڑاتے اورکئی اندوہناک
حادثات کاسبب بنتے ہیں ۔ان بچوں کازندگی خطرے میں ڈالنا معاشرے کیلئے قابل
قبول نہیں۔ اٹلس ہنڈاکے سیفٹی منیجرتسلیم شجاع جس طرح دوسری متعدد مہمات کی
پذیرائی اور کامیابی کیلئے لاہور،راولپنڈی اوراسلام آبادسمیت کئی شہروں میں
ٹریفک پولیس کے ساتھ اپنا بھرپور مالی اوراخلاقی تعاون کرتے ہیں وہ چھوٹی
عمر کے بچوں بارے بھی خصوصی مہم کی کامیابی کیلئے اپناکلیدی
کرداراداکریں۔یہ بچے ہمارامستقبل اورپاکستان کے معمار ہیں ،انہیں ا پنی
پرواہ نہیں مگرہم ان کی تربیت اور حفاظت کر یں گے ۔کوئی انسان کسی صورت
اپنے ہاتھوں اپنی جان نہیں لے سکتااوراسے خطروں سے کھیلنے کی اجازت دی
جاسکتی ۔بچے اورنوجوان ون ویلنگ اورموٹرسائیکل پردوسرے کرتب دیکھانے کی
بجائے دوسرے تعمیری اورتفریحی شعبوں میں اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کااظہارکریں۔
طیب حفیظ چیمہ اورشعیب خرم جانباز ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کوملیں
اورانہیں قومی یاصوبائی اسمبلی میں بل پیش کرنے پرآمادہ کریں جس میں ون
ویلنگ کے سدباب کیلئے سخت قانون سازی کی جائے۔ون ویلنگ کے دوران مرنیوالے
نوجوانوں پر قتل عمد اوران کے والدین کیخلاف اعانت جرم اورمجرمانہ غفلت کی
دفعات کے تحت ایف آئی آردرج کی جائے ، کوئی ادارہ تنہا کچھ نہیں کرسکتاشہری
بھی اپنا کردار اداکریں۔جووالدین اپنے بچوں کوموٹرسائیکل لے دیتے ہیں مگران
کی سرگرمیوں پر ''چیک'' نہیں رکھتے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ہم میں سے جس کسی
کے بھائی یادوست ون ویلنگ کر تے ہیں مگروہ انہیں روکتے نہیں درحقیقت وہ ان
کے بدترین دشمن ہے ۔جو نوجوان ون ویلنگ کرتاہوا گرفتارہوجائے اس کی
موٹرسائیکل کاچالان موٹرسائیکل کی قیمت کے مساوی ہواوراس جرم کوناقابل
ضمانت قراردیا جائے اورجرم ثابت ہونے پرچھ سے آٹھ برس قیدبامشقت مقررکی
جائے۔ ون ویلرز بہت محنت سے گرفتار ہوتے ہیں ان کی فوری ضمانت ایک سوالیہ
نشان ہے ۔ون ویلنگ کے معاملے میں محاورہ''جوڈرگیا وہ مرگیا'' درست نہیں
بلکہ ''جو ڈر گیاوہ بچ گیا''درست محاورہ ہے کیونکہ ڈرانسان کوکئی مصیبتوں
اورآفات وبلیات سے بچاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ انسان کوسترماؤں سے زیادہ پیارکرتا
ہے مگروہ بھی انسان سے کہتا ہے'' مجھ سے ڈرو'' ۔جہاں قانون کاڈر نہیں
ہوتاوہاں خون بہتا ہے۔ لاہوراورراولپنڈی میں گاڑیوں کی آمدورفت میں بہتری
کیلئے مزیداقدامات کی ضرورت ہے مگراس کے باوجود طیب حفیظ چیمہ اورشعیب خرم
جانبازکی انتھک کاوشوں اوران کی انتظامی صلاحیتوں کوسراہے بغیر نہیں
رہاجاسکتا۔ پولیس ،ٹریفک پولیس ،ائیرپورٹ سکیورٹی فورس سمیت قومی ادارے
عوام کی خدمت اورحفاظت کیلئے ہیں ،اداروں اوراہلکاروں سے معمولی باتوں پر
الجھنادانائی نہیں نادانی ہے ،اگرکوئی اہلکارکسی شہری کے ساتھ زیادتی
یابدتمیزی کرے توانصاف کیلئے قانونی راستہ اپنایااور اس کے اعلیٰ حکام
کوتحریری شکایت کی جائے۔شعبدہ بازی یاشور نہیں صرف شعورسے ہماری کایاپلٹ
سکتی ہے ۔ہم پاکستان اوراس کے اداروں کادوسرے ملکوں اوران کے اداروں سے
موازنہ کرتے وقت ان کے شہریوں کی فرض شناسی اوران کی طرف سے قوانین کی
پاسداری کیوں بھول جاتے ہیں۔ |
|