شرارت -ایک معصوم بچی کی

وہ ایک معصوم سی بچی تھی،جورات کوکروٹیں بدل رہی تھی،اس کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں گھڑی کے کانٹے پر، اوربڑی بے صبری وبے قراری سے انتظار کررہی تھی رات کے 12بجنے کا،وقت آپہونچا اور 12؍بج کر ایک منٹ ہوگئے، جلدی سے موبائل اٹھائی اوراپنی خالہ جان ودیگر رشتہ داروں کے نمبرات ڈائل کرنے لگ گئی،خوش نصیبی یہ کہ سب نے فون ریسیو (Receive) بھی کرلئے،غموں کے پہاڑکواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے بولی :بڑی چاچی کی سانس بہت دھیمی چل رہی ہے،بس آخری حالت ہے،کچھ دنوں سے بڑی چاچی کی طبعیت یوں بھی خراب چل رہی تھی، لوگوں نے یقین بھی کرلئے،اورصبح ہوتے ،ہوتے خالہ جان اور کئی رشتہ دارگھرپہونچ گئے، رونا، دھوناتوراستہ ہی میں عورتوں نے شروع کردیاتھا،آنگن پہونچنے سے پہلے پہلے ، ایک کہرام سا مچ گیا، جب عورتیں آنگن پہونچیں، تو حیرت کی انتہا نہیں رہی،وہ معصوم سی بچی ،پھولوں کی طرح مسکرارہی تھی،گھر کے لوگ اپنے کام ،کاج میں مشغول تھے،نہ یہاں کوئی مردہ تھی ،نہ کسی کی سانس دھیمی چل رہی تھی،نہ مرے ہوئے کو اپنے مرنے کا احساس تھا،نہ گھر والے کو اس کا علم، بچی کی مسکراہٹ سے لوگ حیرت زدہ ہونے لگے،تو بچی نے تالیاں بجائیں اور بولی:معلوم نہیں آپ لوگوں کوآج ’’ فرسٹ اپریل ہے۔

اس بچی کاتعلق ایک شریف اورمسلم گھرانے سے ہے،اورNinthکلاس میں پڑھ رہی ہے۔ اوریہ تو ایک واقعہ ہے،جسے ہم نے ذکرکیا؛نہ جانے فرسٹ اپریل کواپریل فول Aprail Foolکے نام سے اس طرح کے کتنے واقعات سامنے آتے ہیں،اورلوگ ثواب سمجھ کر اس ’’ بد مذاقی ‘‘ کوانجام دے رہے ہیں،نہ حکومتی سطح پر اس کو ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے،اورنہ ہی سرکاری وغیرسرکاری اسکولوں ،اداروں اور تعلیم گاہوں میں اپریل فول منانے پرکوئی پابندی عائدہورہی ہے۔

یوں توآج معاشرہ بُری طرح گندہ ہوچکاہے،پوری دنیاگناہوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے؛ لیکن اس کے باوجود گناہ کو گناہ ہی سمجھاتاہے ،اپریل فول جولوگ بھی مناتے ہیں،اس گناہ کوگناہ سمجھتے ہی نہیں؛بلکہ اس میں سب سے زیادہ مستحق ثواب وہ شخص ہے ،جو سب سے زیادہ کسی کو بے وقوف بنائے،غیروں کی دیکھادیکھی مسلم قوم بھی اس رسمِ بدکواپنے سماج سے جوڑنے لگی ہے،جس واقعہ کوابھی ہم نے ذکرکیااس کیلئے یہ زندہ مثال ہے۔

سوال یہ ہے کہ اپریل فول منانے کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیاہے؟کہاں سے اس کا آغازہوا؟اس بارے میں مورخین کے بیانات مختلف ہیں، بعض مصنفین کاکہناہے :کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہواکرتاتھا،رومی لوگ اس مہینہ کو اپنی دیوی وینس Venusکی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھاکرتے تھے ، اور Venusکا ترجمہ یونانی زبان میںAphrodit کیاجاتاتھا،یونانی نام سے مشتق کرکے اس مہینے کانام اپریل رکھ دیا گیا۔(برٹانیکاپندرہواں اڈیشن ۸؍۲۹۲،ازذکروفکر)

چونکہ اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی تھی ،اوردیوی وینس کی طرف اس مہینہ کے منسوب ہونے کی وجہ سے اس سے ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا،اس لئے لوگ فرسٹ اپریل کوجشنِ مسرت منا نے لگے،ہنسی،مذاق بھی جشنِ مسرت کا ایک حصہ تھا،جورفتہ ،رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا ، اس موقع سے جشنِ مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفہ دیاکرتے تھے، کسی کوبطورمذاق تحفہ دے دیا ، اوروہ رواج بن گیا۔

ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ 21مارچ سے موسم میں تبدیلی آناشروع ہوتی ہے،ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیرکیاکہ (معاذ اﷲ)قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنار ہی ہے؛لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانہ میں ایک دوسرے کو بے وقوف بناناشروع کردیا۔ (برٹانیکا۱؍۴۹۶)

یہ بات گرچہ آج بھی مبہم ہے کہ قدرت کے اس نام نہادمذاق کی پیروی کرکے اس رسمِ بدکے چلانے سے مقصودکیاہے؟قدرت کی پیروی مقصودہے،یااﷲ جل جلالہ سے نعوذباﷲ انتقام لینا مقصود ہے ؟

انیسویں صدی کی معروف انسائیکلوپیڈیا’’لاروس‘‘نے ایک تیسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے بیان کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ مسیحں کوتمسخراوراستہزا کانشانہ بنایاگیا،اپریل فول اسی شرمناک واقعہ کی یادگارہے۔

نام نہادانجیلوں میں لکھاہے:کہ پہلے حضرت عیسیٰ مسیحں کو یہودی سرداروں اور فقیہوں کی عدالتِ عالیہ میں پیش کیاگیا،پھرانہیں پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ ان کا فیصلہ یہاں ہوگا ، پیلاطس نے انہیں ہیروڈیس کی عدالت میں بھیج دیا،بالآخرہیروڈیس نے انہیں دوبارہ فیصلے کیلئے پیلاطس کی عدالت میں بھیج دیا، لاروس کا کہناہے کہ حضرت مسیح ں کو ایک عدالت سے دوسری عدالت بھیجنے کامقصدان کے ساتھ مذاق کرنا، اورانہیں تکلیف پہونچاناتھا،اورچونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیاتھا،اس لئے اپریل فول اسی شرمناک اور جھوٹ ومن گھڑت واقعہ کی یادگارہے۔

حضرت عیسیٰ مسیح ں کے تمسخراوراستہزاکولوقاکی انجیل میں اس طرح بیان کیاگیاہے:
ــــ ’’اورجوآدمی اسے (حضرت مسیح ں کو)گرفتارکئے ہوئے تھے،اس کا ٹھٹے اڑاتے، اورمارتے تھے،اوراس کی آنکھیں بندکرکے اس کے منہ پرطمانچہ مارتے تھے،اوراس سے یہ کہہ کرپوچھتے تھے،کہ نبوت (الہام)سے بتا،کہ کس نے تجھ کو مارا؟طعنے مار،مارکربہت سی اور باتیں اس کے خلاف کہیں۔
(لوقا:۲۲،۶۳تا۶۵ازذکروفکر)

اگراپریل فول کی اس تیسری وجہ کو اصل حقیقت مان لی جائے ،تو غالب گمان یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ رسم جاری کی ہوگی،اورچونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی پرانی ہے،اس لئے یہودیوں کے اس رسم کے جاری کرنے کا مطلب حضرت عیسیٰ ں کی تضحیک ہے؛لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جو رسم یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ں کی ہنسی اڑانے کیلئے جاری کی،عیسائیوں نے نہ صرف اسے قبول کیا؛بلکہ اسے رواج دینے میں شریک ہوگئے۔

جب کوئی قوم باربارخداکے حکم کی عدول اور نافرمانی کرتی ہے،گناہ پرگناہ کرکے ان کے قلوب سیاہ ہوجاتے ہیں،تو حق وباطل ،صحیح وغلط ،جھوٹ وسچ کوسمجھنے کی صلاحیت بھی ان میں ختم ہو جاتی ہے، ہمارے عیسائی بھائیوں کے ساتھ شایدایساہی ہوا، یہودیوں نے زہرِآب عیسائیوں کو اس لئے پیش کیا تھاتاکہ دنیاکی زندگی ان کے لئے تنگ ہوجائے۔اوربے چارے عیسائی بھائیوں نے اسے آبِ حیات سمجھ کر پی لیا،اسی طرح جس صلیب پرحضرت عیسیٰں کو ان کے خیال میں سولی دی گئی ہے،ا ن کی نگاہ میں یہ چیزقابل نفرت ہونی چاہئے تھی؛کہ اس کے ذریعہ ہمارے نبی کواذیت دی گئی ؛لیکن آج انہوں نے اسے مقدس مانناشروع کردیا،یاپھریہ کہ بے چارے عیسائی صاحبان کو پیالہ میں زہرکاعلم ہی نہ تھا ، اورانہیں اس حقیقت کاپتہ ہی نہ تھا،کہ اپریل فول کے ذریعہ یہودیوں کامقصدہمارے حضرت عیسیٰ مسیحں کی ہنسی اڑانا تھا، اوربلاسوچے ، سمجھے اس پر انہوں نے عمل کرناشروع کردیا۔

بہرحال وجہ جوبھی ہو،اپریل فول کے ذریعہ ایک ایسے واقعہ کی یادمناناہے،جس کی اصل یاتوبت پرستی ہے، یاتوہم پرستی،یاپیغمبرکے ساتھ گستاخانہ مذاق۔اس میں جھوٹ ہے،دھوکہ دہی ہے ، اور دوسرے کواذیت دیناہے۔

قصوراس معصوم سی بچی کانہیں؛لیکن قصورہماری تعلیم گاہوں،درسگاہوں اوراسکولوں کا ضرورہے،ہم تمام اسکولوں اور تعلیم گاہوں کی بات نہیں کرتے؛لیکن اکثرمقامات میں یہی دیکھا گیا ہے،کہ وہاں تعلیم توہورہی ہے؛لیکن نہ اخلاق سکھائے جاتے ہیں،نہ آدابِ انسانیت بتائے جاتے ہیں ، نہ ٹیچرکے پاس اتنی فرصت ہے،نہ پرنسپل کے پاس اتنا وقت ہے کہ پرانی بے ہودہ رسموں سے بچوں کو واقف کرائیں۔

’’اپریل فول‘‘میں جھوٹ ہے،دھوکہ دہی ہے،دوسروں کوتکلیف پہونچاناہے،اورتینوں چیزیں سماج کیلئے کینسرہیں،چاہے اس سماج میں بسنے والے مسلم ہوں یاغیرمسلم،ہاں اگر مسلم قوم ہے تو انہیں جھوٹ ،دھوکہ دہی اورایذاسے خاص طورسے بچناچاہئے؛چونکہ ہم جس نبی کے نام لیواہیں،محمدمصطفیٰ نے ا تو جھوٹ کی قباحت کوبیان کرتے ہوئے ارشادفرمایاہے:کہ جب انسان جھوٹ بولتاہے تو اس کی بدبوسے فرشتے ایک میل دورچلے جاتے ہیں۔ دوسری حدیث میں نبی کریم ا نے جھوٹ بولنے کومنافق کی علامت قراردیاہے۔جولوگ ہنسی اورمذاق کے طورپر جھوٹ بولناکوئی عیب نہیں سمجھتے،انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ نبی کریم ا نے ایک موقع پر ارشادفرمایا:افسوس اس شخص پرجولوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے،اس کیلئے بڑی ہلاکت ہے،اس کیلئے بڑی ہلاکت ہے۔(ترمذی)

کسی کو دھوکہ دینا،فریب میں مبتلاکرنااتنابڑاجرم ہے،کہ سرکاردوعالم اارشا دفرماتے ہیں: جس نے مسلمانوں کودھوکہ دیاوہ ہم میں سے نہیں۔(مشکوٰۃ ؍۳۰۵)دوسری جگہ ارشادفرماتے ہیں :یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات کہو،جس میں وہ تمہیں سچاسمجھے،حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو ۔(ابوداؤد)کسی کو تکلیف پہونچانا مسلمانوں کی شان نہیں ہے، نبی کریم انے یہاں تک ارشاد فرمایا: مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان،ہاتھ سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہونچے،اگرکسی مسلمان کے کسی عضوسے کسی کوتکلیف پہونچتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان کہلانے کے لائق نہیں ہے۔

کیاترقی یہی ہے کہ بچپن سے ہی اپنے معصوم بچوں ،بچیوں اورطالب علموں کے ذہن ودماغ میں مغربیت بھردی جائے؟ جھوٹ بولنے کی تعلیم دی جائے،دھوکہ دینے کی تربیت دی جائے،دوسروں کو تکالیف پہونچانے کی مشق کرائی جائے،اگرترقی یہی ہے تو ہمیں ایسی ترقی منظورنہیں؛اس لئے کہ اسلام ہرچیزپرمقدم ہے،آج گرہم نے اپنے طالب علموں ،بچوں اور بچیوں کو اپریل فول منانے سے نہیں روکا،تویادرکھئے! کل جب قیامت کے دن ہمارے یہ بچے اوربچیاں اپریل فول منانے کی وجہ سے یہودونصاریٰ کی صف میں اٹھائے جائیں گے ، تو اس کے ذمہ دار ہم بھی ہوں گے۔

ایک طرف ہمارادعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں،اوردوسری طرف ہمAprail Fool مناکران لوگوں کاساتھ بھی دے رہے ہیں جو اس دن کواپنی دیوی وینس کی طرف نسبت کرکے اس دن کو جشنِ مسرت کے طورپرمناتے ہیں۔ایک طرف ہماری زبان کلمہ اشھد ان لاالٰہ الا اللّٰہ کا اقرارکرتی ہے،اوردوسری طرف اپریل فول مناکران لوگوں کی تائیدوتصدیق بھی کرتی ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ قدرت نے گویااس دن ہمارے ساتھ مذاق کیاہے(نعوذباﷲ)ہم بھی مذاق کے طورپراس دن کو منائیں۔ایک طرف ہماراایمان ہے تمام نبیوں کی عظمت وتقدس اورپاکیزگی پر،اوردوسری طرف اپریل فول کے ذریعہ حضرت عیسیٰ ں کی تضحیک کی یادگار بھی منائیں ،شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے۔
Khalid Anwar
About the Author: Khalid Anwar Read More Articles by Khalid Anwar: 22 Articles with 29574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.