میری ماں بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئی
(Rizwan Peshawari, Peshawar)
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فناہوتے
نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جداہوتے نہیں
دنیا فانی ہے ،اس میں کوئی آدمی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا،ہر آدمی پر موت
طاری ہوجاتی ہے،کسی نہ کسی دن روح اپنے جسم عنصری سے پرواز کر جایئگی،اسی
طرح میں بھی منگل کے دن رات گیارہ بجے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ
اچانک میرے موبائل فون پر میرے چھوٹے بھائی سبحان اﷲ کے نمبر سے کال موصول
ہوئی،جب میں نے کال اٹینڈ کر لیا تو وہ میرا دوسرابھائی فہیم اﷲ تھے،خوب
ہچکیاں لے رہے تھے میں نے کہا کہ کیا ہوا ہے مجھے بھی بتاوں نا؟تو فہیم اﷲ
نے کہا کہ امی جان میرے سے باتیں نہیں کر رہی ہے تو اتنے میں سبحان اﷲ نے
کہا کہ بھائی جان اماں جان فوت ہوگئی ہے اور جلد گھر پہنچنے کی کوشش کریں۔
میں چونکہ مدرسہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا،اور ہمارا مدرسہ بھی
پشاور کے ایک طرف رنگ روڈ حیات آباد پشاور پر واقع ہے،تو مجھ سے گھر پہنچنے
میں قدرے تاخیر ہوئی،جب میں نے گھر جانے کا ارداہ کیا تو اس وقت رات کے
بارہ بج رہے تھے،رات اپنی تاریکی میں خوب کھو گئی تھی،اتنی سخت تاریک رات
تھی کہ راستہ جاننا بھی مشکل تھا،مگر اﷲ تعالیٰ نے بھی صبر کی اتنی توفیق
عطاء فرمائی اور مخلص دوستوں نے بھی بہت دلاسا دیا ،خیر میں ادھر اُدھر
ٹیلیفونک رابطوں میں مصروف ہوگیا،بالآخر استاد محترم حضرت مولانا محمد طیب
صاحب اور مخلص دوستوں نے مجھے گاڑی میں بٹانے کے لیے مدرسے سے باہر کیا تو
رنگ روڈ پر اتنی خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ چیونٹی کی رینگنے کی آواز بھی
سُنائی دے رہی تھی،بالآخر اﷲ تعالیٰ کی فضل وکرم سے مجھے گاڑی مل گئی
کیونکہ رات اپنی آدھی سفر طے کر چکی تھی تو اکیلے جانا مناسب نہیں
تھا،اساتذہ کی مشورے سے میرے ساتھ دو دوستوں کا انتخاب کیا گیا کہ یہ دو
ساتھی (مولانا مسعود جان اور مولانا حامد حسن)ان کے ساتھ چلے جائینگیں،رات
گئے میں گھر پہنچا تو والدہ ماجدہ اپنی ابدی نیند سوگئی تھی میں نے بہت
آوازیں دی مگر والدہ ماجدہ نے کچھ بھی نہیں کہا ،جب میرا نظر اپنی دو چھوٹی
بہنوں پر پڑا تو اور بھی حالت ابتر ہوگئی۔
مرحومہ کو اﷲ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء کریں،مرحومہ کی نماز
جنازہ شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب حفظہ اﷲ نے بانڈہ
نبّی پبّی میں پڑھائی،اور مرحومہ کو ہمارے قومی قبرستان میں دفن کردیا
گیا،وہاں پر قبرستان میں حجرت مولانا محمد بلال عابد صاحب نے چند گزارشات
بیان کئے اور لوگوں کو خوب موت کی تلقین کی۔
لیکن ماں ماں ہوتی ہے اسی کے پاؤں تلے جنت ہے۔حضرت لقمان حکیم ؒ نے ایک
مرتبہ اپنے بیٹے سے کہامیرے بیٹے جاؤ دنیاسے جنت کی مٹی لے کر آجاؤ،وہ
گیاتھوڑی دیربعد مٹی لے کر آگیا، کمال کردیاحضرت لقمان حکیم ؒ نے
اوربیٹابھی تولقمان حکیم کاتھااس نے بھی کمال کردیا۔سچی بات یہ ہے کہ اﷲ
تعالیٰ برتن میں دیکھ کر مکھن ڈالتاہے ۔لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے کہامیرے
بیٹے !دنیامیں کہاں سے جنت کی مٹی لے کر آیاہے؟بیٹے نے کہاابوجان ! میں نے
اپنی ماں کے قدموں کے نیچے سے مٹی اٹھائی ہے یہ حقیقت ہے کہ یہ مٹی جنت کی
ہے،لقمان حکیم نے بیٹے کوشاباش دی۔
: حضرت مولاناقاضی محمدزاہدالحسینی ؒ بہت بڑے عالم اور سچے عاشق رسول تھے ،یہ
وہ عالم دین ہے جب دنیاسے وصال فرماگئے قبر میں اتاراگیاچند لمحات بعد ان
کی قبر پر خود بخود سبزہ پیداہوگیانبی کریم ﷺ سے سچی محبت کی دلیل ہے ۔وہ
جب کسی کی ماں کی فوتگی پر تعزیت کے لیے تشریف لے جاتے تویہ جملہ کہتے
’’بھلیاماواں ختم نیہ ہوندیاں ‘‘ایک جہاں سے دوسرے جہاں منتقل ہوجاتی ہیں
ان کی دعائیں اولاد کے لیے جاری رہتی ہیں۔
خوش نصیب وہ ہیں جونیک لوگوں کے نمازجنازہ میں شریک ہوتے ہیں ۔کبھی یوں بھی
ہوتاہے کہ جنازہ میں شرکت کی وجہ سے معافی مل جاتی ہے اور جنازہ پڑھنے
والوں کی بخشش کر دی جاتی ہے۔نمازجنازہ میں کتناپیاراجملہ ہے اللھم اغفر
لحینا:اے اﷲ زندوں کی بخشش فرما۔
مرحومہ ایک نیک اورزندہ دل خاتون تھیں۔مرحومہ کے شوہر ایک جامع الصفات
انسان تھے ۔مرحومہ کے لیے ان کی نیک اولاد بھی صدقہ جاریہ ہے ۔
میں تمام حضرات سے اپیل کرتاہوں کہ جن کے ماں فوت ہوچکی ہیں ہر وقت ان کے
لیے دعاکیاکریں ۔جن کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خوب خدمت کریں ہم نے
جوکچھ پایاہے وہ ماں باپ کے جوتوں کے صدقے پایاہے ،انسان کے لیے موجودہ دور
میں ماں وباپ کی عظمت کوسامنے رکھ کرزندگی بسر کرناعبادت کااعلیٰ مقام ہے
۔اﷲ تعالیٰ کاحکم ہے کی میری عبادت کی جائے اورماں باپ کی اطاعت کی جائے ۔
آج مرحومہ کی جدائی ہم سب کودعوت فکر دے رہی ہے کہ’’توبہ کرو‘‘رب کی عبادت
کرواور نبی کریمﷺ کی اطاعت کرواسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہماری والدہ ماجدہ کی مغفرت کرکے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ
مقامات عطاء فرمائے،اور ان کوآقائے نامدار ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔(آمین)
|
|