|
آپ نے سنا
ہوگا کہ انسانی جسم میں دماغ ایک ایسا عضو ہے جو حصہ بقدرِ جثہ پر عمل نہیں
کرتا، بلکہ وزن کے لحاظ سے جسم کے صرف دو فیصد ہونے کے باوجود کل توانائی کا 20
فی صد حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ لیکن اس سوال کا جواب سائنس دانوں کو بھی معلوم نہیں
تھا کہ کیوں؟
یہ تو درست ہے کہ دماغ کے اندر گرِڈ سٹیشن کی طرح بے
تحاشا تاریں اور کنکشن ادھر سے ادھر جا رہے ہوتے ہیں جو ہر وقت بے حد مصروف
رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ نیند کے دوران بھی دماغ کی اس چہل پہل اور گہماگہمی میں کوئی
خاص کمی واقع نہیں ہوتی۔ تاہم اب امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے خیال
پیش کیا ہے کہ دماغ جتنی توانائی استعمال کرتا ہے اس کا دو تہائی حصہ نرو خلیوں
یا نیورانز کو بجلی کے سگنل بھیجنے میں مدد کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ |
یونی ورسٹی
آف منی سوٹا میڈیکل سکول کے وائی چَین اس عمل کو ’روزمرہ کی دیکھ بھال
کاکام‘کہتے ہیں۔
آپ اس کو پاکستانی حکومت کی اصطلاح میں ’نان
ڈیویلپمنٹل چارجز‘ کہہ سکتے ہیں، صرف فرق یہ ہے کہ یہ خرچ دماغی کارکردگی کے
لیے انتہائی ضروری ہے اور چین کے بہ قول اس کے بغیر دماغی خلیے مرنا شروع ہو
جائیں گے۔
یہ نتیجہ دماغ کے میگنیٹک
ریزوننس سپیکٹروسکوپی سکین کرنے کے بعد نکالا گیا جس میں یہ ناپنے کی کوشش کی
گئی کہ دماغ کتنی توانائی استعمال کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک خاص قسم کے مالی
کیول پر توجہ مرکوز کی گئی جسے اے ٹی پی کہا جاتا ہے۔ اے ٹی پی جسم میں ایندھن
کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دماغ کے مختلف حصوں میں اس کی مقدار میں کمی
بیشی کا جائزہ لینے سے دماغ کی مجموعی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چَین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی
کئی عشروں سے موجود تھی تاہم اس کا زیادہ تر استعمال دوسرے اعضا میں کیا جاتا
تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کو مریض کے دماغوں میں کئی قسم کی بیماریوں کا پتا
چلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جن میں آلزہائمر اور پارکنسن کی بیماریاں
بھی شامل ہے۔
ابھی تک اس
تکنیک کا استعمال جانوروں میں کیا گیا ہے لیکن چَین کا ارادہ ہے کہ اس کا دائرہ
بہت جلد انسانوں تک بھی بڑھایا جائے۔ |