مزید ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت

پاکستان کی ستر فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، کئی صنعتوں کا انحصار بھی زرعی پیداوار پر ہے، ملکی برآمدات کا بڑا حصہ زرعی پیداوار کا ہے، لہذا زراعت کی ترقی کے بغیر ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔مذید یہ کہ صنعتی ترقی کے لیے بجلی کی ضرورت ڈیموں سے ہی پوری کی جاسکتی ہے۔جبکہ عالمی ثالثی عدالت نے بھارت کو کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے ، بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین درجن سے زائد ڈیم تعمیر کررہا ہے، ان ڈیموں کی تعمیر سے وہ پاکستان میں صومالیہ اور اتھوپیا جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہے۔کشن گنگا ڈیم منصوبے کی مالیت 36 سو کروڑ روپے بتائی جاتی ہے، جہاں سے 33سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کا نیلم ، جہلم پاور پراجیکٹ شدید متاثر ہوگا، اس کے علاوہ ماحولیات، جنگلات، جنگلی حیات، زراعت ان سب پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور زراعت کے لیے پانی کی کمی کا مسئلہ مذید بڑھ جائے گا۔سندہ طاس معاہدے کے بعد پاکستان نے دو بڑے ڈیم بنا کر زرعی معیشت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے پاکستان کے دریاؤں جہلم اور سندھ پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اس سے قبل بھارت کا تعمیر کردہ بگلیہار ڈیم کا مقدمہ بھی ہم ہار چکے ہیں،اس کی تعمیر سے ہماری زراعت کے لیے پانی ناپید ہوجائے گا۔اب جو ڈیم بھارت تعمیر کرنے جارہا ہے جس کی تعمیر سے33سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، اگر پاکستان اپنا حق استعمال کرتے ہوئے پہلے ہی دریائے جہلم کے کسی اور مقام پر ڈیم تعمیر کر چکا ہوتا تو آج ہمیں بجلی کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اس وقت تونائی کے بحران کے باعث ہی پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے جاچکا ہے۔پاکستان کا نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا اور بہترین نہری نظام ہے مگر کچھ عرصے سے جب دریاؤں میں پانی کم ہوجاتا ہے تو نہریں بھی خشک ہوجاتی ہیں ۔یوں دنیا کا بہترین نہری نظام بیکار پڑا ہے۔اور اب جبکہ بھارت نے چند ڈیم بنالیے ہیں اور مذید بنا رہا ہے یہ منصوبے مکمل ہونے کے بعد وہ پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں کا پانی اپنی مرضی سے چھوڑنے پر قادر ہوجائے گاتو ایسی صورتحال میں ہماری زراعت کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔

سندھ طاس معاہدہ 1960 ء میں عالمی بنک کی ثالثی میں کیا گیا تھا ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کو مکمل طور پر بھارت کے حوالے کردیا گیا ، جبکہ چناب ، سندھ اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا ۔ مگر اب بھارت پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کا حق تسلیم کرنے سے عملاً انکار کررہا ہے۔ اس وقت جبکہ تربیلا ڈیم جس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 9.6 ایکڑ فٹ تھی ، خاصی کم ہوکر 6.6 ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مٹی ، گارا، ریت، پتھر بھرنے سے ایسا ہوا ہے اور اس کی صفائی پر اتنے زیادہ اخراجات آئیں گے کہ ایک اور ڈیم تعمیر ہوسکتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس ڈیم میں سالانہ پچاس ہزار ٹن مٹی ، گارا، ریت پتھر وغیرہ پانی کے ساتھ جمع ہوجاتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ کرتے وقت یہ بات بھی کہی جارہی تھی کہ پاکستان ہر دس سال بعد تربیلا ڈیم کی طرح ڈیم تعمیر کرے گا لیکن اس معاملے میں جس قدر پیش رفت کی گئی ہے، وہ آج پوری قوم کے سامنے ہے۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی طرح موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن رہی ، اورپیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نا قابل عمل قرار دیے گئے کالا باغ ڈیم منصوبے پر موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ کی گئی۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر مصلحتوں ، سستی ، کاہلی، عدم توجہی اور بین الاقوامی سازشوں کا شکار کردی گئی۔ نہری پانی کی قلت کے باوجود ملک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر سے اجتناب برتا گیا۔ جن چند ڈیموں کی تعمیر جاری ہے ان پر کام کی رفتار بہت سست ہے ۔ ملک بھر میں موسم گرما کی آمد سے قبل ہی ایک بار پھر لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر ہرسال بعد ملک میں مذید ڈیم بنائے جاتے تو آج پاکستان بجلی برآمد کرنے والا ملک ہوتا۔پاکستان میں تونائی بحران کبھی پیدا نہیں ہوتا، سستی بجلی پیدا ہوتی، ملکی برآمدات بڑھ جاتیں اور تجارتی خسارہ برائے نام رہ جاتا، یا پھر فاضل تجارت ہوتی تو ایسی صورت میں ہمیں آئی ایم ایف کی بھی ضرورت باقی نہ رہتی۔ اب بھی اگر حکومت پاکستان نئے ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کردے تو اس سے عوام کو سستی بجلی میسر آئے گی ، اور ملک میں زراعت، صنعت، تجارت، غرض ہر شعبہ زندگی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817420 views Journalist and Columnist.. View More