ذوالفقار علی بھٹو ……یادیں احساسات اور جذبات

مارچ 1977 میں قبل از وقت عام انتخابات کا انعقاد ذوالفقار علی بھٹو کی غلطی تھی یا عوامی حمایت کے حصول کا گمنڈ انہیں لے بیٹھا ؟ یا پھر بین الااقوامی سازش کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو ٹریپ کیا گیا اور انہیں یہ باور کرایا گیا کہ عوام انہیں دیوتا کی طرح پوجتے ہیں لہذا وہ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کرکے دوبارہ منتخب ہو جائیں……!!! جو کچھ بھی تھا حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کئی ماہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے ملک کو جمہوریت کی پٹڑی پر گامزن کرنے کی طرف قدم بڑھایا تھا……لیکن پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے خوشحالی کی منازل طے کرتے نہ دیکھنے والے ملکی و غیر ملکی بدخواہوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ التنے کے لیے5 جولائی کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا کیونکہ 5 جولائی امریکہ کا یوم آزادی ہے اور امریکیوں کو یقین تھا کہ اس موقعہ پر بھٹو ساحب اسلام آباد سے باہر نہیں جائیں گے۔امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں نے بھٹو حکومت کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے خفیہ مشن کو ’’آپریشن کوکا کولا ‘‘ کا نام دیا تھا۔بھان متی کے کنبے اپوزیشن اتحاد کو احتجاجی تحریک چلانے پر اکسایا حتی کہ پہیہ جام ہڑتال جیسے غیر ملکی ہتھکنڈوں کو بھی استعمال کیا گیا،جس طرح افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضا سے امریکی ڈالروں کا منہ برسایا گیا تھا اسی طرح پاکستان میں نوستاروں قسمت کے ماروں کو امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں سے ڈالروں میں غرق کیا گیا۔

ملک میں لاقانونیت دندناتی پھر رہی ہے،ہر طرف ہاہاہا ہوہوکا شور برپا ہے ،بنکوں کو آگ لگائی جا رہی ہے ،لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹی جا رہی ہے، سرکاری و نجی املاک کو جلا کرخاکستر کیا جا رہا ہے،جو محب وطن بلوائیوں کے آگے سر تسلیم خم کرکے ہڑتال کرنے سے انکاری ہوتے ہیں اور ملک و قوم سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں، انکی دوکانوں اور مکانوں کو آگ اور اپنی ہوس کے شعلوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ایپلی فائر ایکٹ کی جس قدر ضرورت ان دنوں تھی آج کی صورت حال اس کے مقابل نمک میں آٹے کے برابر بھی نہیں ہے، مساجد اور اس کے لاؤڈ سپیکرز کو دل کھول کر حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کیا گیا۔خالصتا سیاسی معاملات کو کفر اسلام اور جنت اور دوزخ کا مسلہ بنا کر پیش کیا گیا اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا گیا۔ حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا کہ مساجد کے مولویوں نے پیپلز پارٹی سے وابستہ لوگوں کی نماز جنازہ تک پڑھانے سے انکار دیا اور انہیں کافر قرار دیکر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے منع کیا جاتا رہا۔

لوٹ مار کرنے والے ،سرکاری و نجی املاک کو لوٹنے اور نزر آتش کرنے والے یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کر رہے ہیں، ہاتھوں میں نوستاروں والے سبز جھنڈے اٹھائے اور زبانوں پر نظام مصطفی کے نفاذ کے نعرے بلند ہیں، حکومت دبکی بیٹھی ہے، عوام کی اکثریت ملک کو خانہ جنگی کی نذر ہونے سے بچانے کے عظیم تر مقصد کے تحت گھروں میں محصور ہوکر امریکی ڈالروں کے لالچ میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کو بددعائیں دے رہی ہے۔مگر اپنی منتخب حکومت کی حمایت میں سڑکوں پر محض اس لیے نہیں آرہی کہ پیارا وطن کہیں خانہ جنگی کی نظر نہ ہوجائے۔یہ سوچ بھٹو کے حامی عوام اور پیپلز پارٹی کی تھی جب کہ ڈالروں اور ہوس اقتدار میں غرق اپوزیشن کا بھان متی کے کنبہ ملک رہے نہ رہے ،لیکن بھٹو کو نہیں رہنا چاہیئے کی آگ میں جل رہا تھا۔

غیر ملکی سفارت خانے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی بجائے بلوائیوں کو سپورٹ کر نے میں مصروف ہیں، سب اپنے اپنے ملک رپورٹس بھیج رہے ہیں کہ ’’بھٹو حکومت اب گئی کہ اب گئی‘‘ اس ہو کے عالم میں ذوالفقار علی بھٹو سب سکیورٹی کو ایک طرف رکھتے ہوئے بنا کسی کو بتائے اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے راولپنڈی کے راجہ بازار پہنچ جاتے ہیں، اپنے محبوب قائد کو دیکھ کروہاں ہزاروں افراد جمع ہو جاتے ہیں اور راجہ بازاربھٹو زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ عوام کے پرجوش نعروں سے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک نیا ولولہ ،حوصلہ اور جذبہ ملتا ہے جس کے جواب میں بھٹو راجہ بازار میں اپنے استقبالی عوام سے مخاطب ہوتے ہیں’’ پاکستان کے خلاف بین الااقوامی سازش کی گئی ہے یہ تحریک مجھے اقتدار سے الگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ہے۔ ‘‘ اس موقعہ پر ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا ایک خطفضا میں لہرا اور کہا کہ’’اب مذاکرات نہیں ہوں گے‘‘

ایک روز بھٹو صاحب نے اپوزیشن اتحاد پی این اے کی لیڈر شپ کو مذاکرات کی دعوت دیدی اور یہ پیش کش بھی کردی کہ ’’جن انتخابی حلقوں میں دھاندلی ثابت ہو گئی وہاں نئے سرے سے انتخابات کروادئیے جائیں گے‘‘ لیکن اپوزیشن نہ مانی اور نہ ہی اسے ماننا تھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس خطاب کرتے ہوئیوزیر اعظم بھٹو نے اپنے اور پاکستان کے خلاف کی گئی امریکی سازش سے پردہ اٹھایا اور انہیں پاکستان سمیت اسلامی دنیا کی آواز بننے کے جرم میں اقتدار سے الگ کرنے کی وجوہات سے بھی قوم کو آگاہ کیا اور کہا’’ ویتنام کی جنگ میں امریکہ کی حمایت نہ کرنے کا میرا جرم امریکہ نہیں بھلا سکا۔ وائٹ ایلیفنٹ( سفید ہاتھی) کا حافظہ بہت تیز ہے‘‘

جولائی 1977کی رات کا منظر کچھ یوں ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قوم سے خطاب نشرہو رہا ہے بھٹو پاکستانی قوم سے مخاطب ہے’’ 1965کی جنگ کا میں ہیرو، تاشقند میں میں ہیرو، انتخابات کا میں ہیرو،اب مجھے مذید ہیرو نہیں بننا جو ہیرو بننا چاہتا ہے اسے ہیرو بنا لیں،مجھے اقتدار کی ہوس نہیں ہے،اس ملک کا میں وزیر خارجہ،نائب وزیر اعظم،وزیر اعظم اور صدر مملکت کے عہدوں پر رہ چکا ہوں ،اب میں اور کیا چاہوں گا…… مصر میں اور سعودی عرب اور بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے…… مجھے بس پاکستان کے مستقبل کی فکر ہے ……میں اسے محفوظ بنانے کا خواہشمند ہوں……!!!!

سعودی عرب کے سفیر کی مداخلت سے نوستارے قسمت کے مارے حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوگئے‘‘اپوزیشن کے بھان متی کے کنبے اور حکومت کے درمیان بہت سے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد نتیجے پر پہنچ گئے اور ایک سمجھوتہ بھی طے پا گیا پانچ جولائی کو اس پر دستخط ہونا تھے کہ’’ امریکی ٹٹو‘‘ جنرل ضیاء حق نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی،اگرجنرل فیض علی چشتی کی زیر قیادت کیے گئے ضیاء کے’’ آپریشن فیئر پلے‘‘ کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے عدم استحکام کی بنیاد رکھی گئی اور عالم اسلام کو یتیم کیا گیا۔ پاکستان کا عدم استحکام اس لیے کہا گیا ہے کہ پانچ جولائی کے بعد پاکستان خلفشار کا شکار چلا آرہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایکبار عدالت کے روبرو کہا تھا’’ پاکستان کے مسائل کی چابی ان کی جیب میں ہے ‘‘ اس بات کی وضاخت کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ’’مارشل لا رجیم آج ملک میں انتخابات کرواکر جمہوریت بحال کردے اور خود واپس بیرکوں میں چلی جائے تو ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے‘‘ لیکن نہ عدالت کی سمجھ میں بھٹو کی بات آئی اور نہ ہی بھٹو کے خون کے پیاسے امریکی ٹٹوں کے ’’بھیجے ‘‘میں یہ بات بیٹھ سکی۔

بھٹو صاحب کو پاکستان کے ٹوٹنے کا ذمہ دار ٹہھراہا گیا، زرد صحافت کے علمبرداروں نے مارشل لا رجیم کا بھرپور ساتھ دیا ……نواب محمد احمد خاں کے مقدمہ قتل میں انہیں سزا ئے موت دیدی گئی حالانکہ عدالت کے فیصلے میں بہت سقم موجود تھا ، اس مقدمہ قتل میں بہت ساری نئی نظیریں قائم کی گئیں، مثلا عدالتی فیصلوں میں ہمیشہ شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے مگر اس مقدمہ میں شک کا فائدہ استغاثہ کو دینا کار ثواب جانا گیا۔ دنیا بھر کے پاکستان کے ہمدرد سربراہان مملکت کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے رحم کی اپیلیں کی گئیں، لیبیا،ترکی ،فلسطین اور شام نے انہیں ان کے حوالے کرنے کی بھی پیشکشیں کیں لیکن امریکی ٹٹوں نے یہ اپیلیں مسترد کرکے پاکستان کے مستقبل اور استحکام کو چار اپریل کو صبح دو بجے پھانسی پر لٹکا دیا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگانے والے سمجھتے تھے کہ اس طرح بھٹو اور اسکی جماعت پیپلز پارٹی سے جان خلاصی ہو جائے گی لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی ،انکی سوچ غلط ثابت ہوئی کیونکہ گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں مدفن’’مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ طاقتور ثابت ہو ا ہے‘‘
اس دن سے آج تک پاکستان مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161085 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.