٭پاکستان نے ذکی الرحمن لکھوی کے ممبئی حملے میں ملوث
ہونے کے ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیے جس کی وجہ سے عدالت نے انہیں بری
کیا لہٰذا پاکستان اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور یقینی بنائے کہ ذکی
الرحمن لکھوی جیل سے باہر نہ آئیں( بھارتی وزیر مملکت برائے داخلی امور کرن
رجیچو)
٭پاکستان ذکی الرحمن لکھوی کو فوری بھارت کے حوالے کرے یا عالمی عدالت
انصاف میں مقدمہ پیش کرے( چیئرپرسن خارجہ کمیٹی امریکی کانگریس ای ڈی رائس)
٭اس کیس میں جاری قانونی کارروائی کے نتائج پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہماری
طرف سے حکومت پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ وعدے کے مطابق ممبئی حملے کے
ملزمان، ان کی مالی معاونت اور ضمانت دینے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں
لانے میں تعاون کرے(ترجمان امریکی محکمہ خارجہ جین ساکی)
٭بھارت سے جب بھی سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو
وہ برہم ہوجاتا ہے جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس حملہ بھارتی ریاستی اداروں کا
منصوبہ تھا اور یہ واقعہ ممبئی حملوں سے دو سال قبل ہوا ، بھارتی انتہا
پسند رہنما سوامی اسیم آنند کی طرف سے واقعہ میں ملوث ہونے کے اعتراف کے
باوجود اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جبکہ اس کیس کے مرکزی ملزم کو
ضمانت پر رہا کردیا گیا لیکن بھارت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مناسب
اقدام نہیں کیا گیا(حکام دفتر خارجہ پاکستان)
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب اسلام آباد کے ہائی کورٹ نے ممبئی حملہ کے
مبینہ ملزم ذکی الرحمن لکھوی کی نظر بندی یہ کہہ کر ختم کردی کہ ملزم کی
مسلسل نظر بندی کے احکامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور حکومت اس حوالے سے کوئی
ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرسکی لہٰذا اگر ملزم کسی اور مقدمے میں ملوث نہیں ہے
تو اسے فوری رہا کیا جائے۔ اس کے بعد بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر
کونئی دہلی طلب کیا گیا اور میڈیا کو بھی بلایا گیا جو سفارتی آداب کے
منافی ہے ۔ ذکی الرحمن لکھوی کی نظر بندی کے عدالتی احکامات کے اگلے ہی روز
محکمہ داخلہ پنجاب نے ممبئی حملہ کے اس مبینہ مرکزی ملزم کی نظر بندی کے
احکامات میں توسیع کردی۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ذکی الرحمن لکھوی کی
نظر بندی میں چوتھی مرتبہ توسیع کی گئی ۔ 28نومبر2008ءکو ممبئی میں دہشت
گردوں کی کارروائی 58گھنٹے تک جاری رہی جس میں 166 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں
زخمی ہوئے ۔ ابھی یہ کارروائی جاری تھی کہ بھارت کی جانب سے اس کی ذمہ داری
پاکستان پر ڈال دی گئی اور ہمارے عسکری اداروں و جہادی تنظیموں کو اس میں
ملوث قرار دے دیا۔ بعدازاں بھارت کی جانب سے اجمل قصاب، حافظ سعید، ذکی
الرحمن لکھوی سمیت متعدد افراد کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا گہا اوریہ بھی کہا
گیاکہ اس حملے کی ساری پلاننگ پاکستان میں ہوئی۔ اجمل قصاب کو بھارت میں
گرفتار کی گیا جبکہ حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کو پاکستان میںحراست
میں لیا گیا۔ اجمل قصاب کے بارے میں بھارت نے بہت واویلا کیا کہ اس کا تعلق
پاکستان سے ہے تاہم اجمل قصاب کے اس بیان کے بعد کہ اس نے صرف دباﺅ کی
بنیاد پر اس کی ذمہ داری قبول کی جبکہ حافظ سعید اور ذکی الرحمن سے اس کی
کوئی ملاقات نہیں ہوئی،پھانسی دے دی گئی۔ حافظ سعید کو ان حملوں میں ملوث
ہونے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا جبکہ ذکی الرحمن ابھی تک
نظربند ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان اس کیس میں
سنجیدہ نہیں ہے جبکہ پاکستان کے سرکاری ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان اس
مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن بھارت خود ہی انصاف کی راہ
میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ بھارت کے کردار کا اگر جائزہ لیں تو بھارت نے
کبھی بھی ممبئی حملے کے مرکزی ملزم اجمل قصاب تک پاکستانی وکلائے استغاثہ
کو رسائی نہیں دی اور اب اس کی پھانسی کے بعد جاری مقدمہ پیچیدہ بن چکا ہے۔
اس سے بھارت کا معتصبانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ دوہرا معیار بھی عیاں
ہوتا ہے کہ وہ ممبئی حملے کے بارے میںشورتو مچاتا ہے لیکن اس نے اجمل قصاب
تک پاکستانی وکلاءکو رسائی نہیں دی ۔ اس کے علاوہ سانحہ ”سمجھوتہ ایکسپریس“
ممبئی حملوں سے دو سال قبل ہوا تھا لیکن بھارت کی جانب سے اس پر کوئی خاص
پیش رفت نہیں ہوئی اورپھر خاموشی اختیار کر لی گئی جبکہ مرکزی ملزم کو بھی
رہا کردیا گیا۔ 18 فروری 2007ءکی نصف شب ”سمجھوتہ ایکسپریس“ بھارتی صوبہ
ہریانہ کے شہر پانی پت سے گزر رہی تھی کہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئی جس میں
80سے زائد پاکستانی شہید ہوئے لیکن بھارت کے سرکاری اعداد و شمار میں جاں
بحق ہونے والوں کی تعداد68 بتائی گئی جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ یہ ریل
گاڑی دہلی سے پاکستان آرہی تھی اورا س میں غالب اکثریت پاکستانی شہریوں کی
تھی۔ اس حملے کے فوراََ بعد ہی بھارت نے اپنی روایت کے مطابق اس کی ذمہ
داری پاکستانی اداروں اور شدت پسند تنظیموں پر ڈال دی لیکن جب پاکستان کی
طرف سے مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تو بھارت نے خاموشی اختیار کرلی
کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ اس کے پیچھے اس کے اپنے ہی لوگ کارفرما ہیں۔
بھارت میں سنگین نوعیت کی دہشت گردی اور جرائم کی تحقیقات کرنے والے قومی
تفتیشی ادارے این این آئی نے سوامی اسیم آنند کو اس بم دھماکہ کا اصل ملزم
قرار دیا جبکہ کرنل پروہت، سنیل جوشی، میجر اپادھیا،لوکیش شرما، سندیپ
ڈانگے اور کمل چوہان بھی اس کیس کے مرکزی ملزمان ہیں ۔ اس کیس کو کمزور
کرنے کیلئے سنیل جوشی کو گرفتاری کے بعد پراسرار حالت میں قتل کردیا گیاتھا
تاکہ اس حملے کے دیگر سرپرستوں کے نام سامنے نہ آسکیں۔ اس کے علاوہ بھارتی
انتہا پسند رہنما سوامی اسیم آنند کی طرف سے واقعہ میں ملوث ہونے کا اعتراف
بھی کیا گیا لیکن اس کے باوجود اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ا ور
بھارت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مناسب اقدام نہیں کیا گیا۔ سوامی اسیم
آنندمقتول جوشی اور اپنے دیگر ساتھیوں سے باتوں میں اکثر اپنے جذبات کا
اظہار کرتا تھا جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ان سب کے دلوں میں نہ صرف
جہادی شدت پسندوں کے خلاف بلکہ پوری اقلیتی برادری(بھارتی مسلمان) کے خلاف
انتقامی کارروائی کے جذبات پیدا ہوگئے۔ سوامی اسیم آنند نے سمجھوتہ
ایکسپریس کا انتخاب صرف اسی لیے کیا تھا کہ اس میں سفر کرنے والے بیشتر
مسلمان اور پاکستانی ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کا سرغنہ بھارتی
فوج کا کرنل پروہت ہے جو مالیگاﺅں بم دھماکہ کی سازش کا ماسٹر مائنڈ بھی
تھا۔ اس نے ہی سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکہ کے لیے فنڈز اکٹھے کیے اور
دہشت گردوں کو دھماکہ خیز موادRDX فراہم کیا۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے
مطابق کرنل پروہت نے2006ءمیں 12 جولائی کو رام گڑھ ،16سے 21اکتوبر کے دوران
پنچ مڑھی وقتاََ فوقتاََ ملک کے کئی مقامات پر ہندو شدت پسندوں سے ملاقاتیں
کیں اور لوگوں کو اس حملے کے لیے تربیت بھی دی۔ سمجھوتہ ایکسپریس کیس
میںملزمان کے اعتراف جرم اور ان کے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود بھارت کی جانب
سے کارروائی نہیں کی گئی جبکہ ممبئی حملوں کے بارے میں وہ نہ صرف خود بلکہ
بین الاقوامی دباﺅ بھی ڈلوانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے جبکہ عالمی برادری
بھی بھارت کے اس دوہرے معیار پر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ یہ صرف دو
واقعات کا ذکر کیا گیا لیکن اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو بھارت کی جانب سے
ہمیشہ معتصبانہ کارروائیاں کی گئیں جن کی فہرست بہت لمبی ہے۔ بھارت کے بارے
میں یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہوگا کہ آزادی سے لے کر اب تک ضد، ہٹ دھرمی،
دھونس اور دھاندلی کا کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جو بھارت نے پاکستان کے
خلاف استعمال نہیں کیا۔
|