تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی....آئینی یا غیر آئینی؟
(عابد محمود عزام, karachi)
پاکستان تحریک انصاف 224
دنوں بعد بالآخر اسمبلیوں میں واپس آہی گئی ہے۔ سات ماہ اسمبلیوں سے باہر
رہ کر اپنے مقاصد کے حصول میںناکامی کے بعد تحریک انصاف کے پاس اسمبلیوں
میں واپس آنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اپنی ضد کو پس پشت ڈال کر سات
ماہ کے بعد اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی واپسی کو جہاں ایک طرف جمہوریت کی
فتح قرار دیا جارہا ہے، وہیں اس سے عمران خان اور پی ٹی آئی کی بے بسی بھی
ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ اسمبلی کو جعلی قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی نے استعفے
دیے تھے، لیکن اب ایک بار پھر اسی جعلی اسمبلی میں واپس آگئے ہیں۔ تحریک
انصاف کی قیادت نے 22 اگست 2014ءکو اسلام آباد میں دھرنے کے دوران قومی
اسمبلی، پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا تھا، تاہم
خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔پی ٹی آئی کے بہت سے
ارکان اسمبلی استعفے نہیں دینا چاہتے تھے ، لیکن عمران خان نے اپنی جماعت
کے متعدد ارکان اسمبلی سے زبردستی استعفے دلوائے، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی
میں اختلافات زور پکڑ گئے۔ تحریک انصاف کے 34 میں سے بعض ارکان نے اسمبلی
سے مستعفی ہونے کی مخالفت کی تھی۔ ان میں گلزار خان، ناصر خٹک، سراج خان
اور مسرت زیب شامل تھے۔ جنہوں نے 24 اگست کو اپنا علیحدہ گروپ قائم بنایا۔
30 اگست کو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مبینہ کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاؤس
اور دیگر سرکاری عمارتوں پر ہلہ بولا تو اگلے ہی روز تحریک انصاف کے صدر
جاوید ہاشمی اس فیصلے کے خلاف بطور احتجاج پارٹی سے الگ ہو گئے۔ پی ٹی آئی
کے اعلان کے باوجود اسپیکر نے استعفے منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ اسپیکر
سردار ایاز صادق کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان ایک ایک کرکے استعفوں
کی تصدیق کے لیے آئیں۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں تو شریک نہ
ہوئی، تاہم مارچ میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا اور اب سات ماہ کے بعد
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی شریک ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق
عمران خان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ عمران خان کے لیے
اسمبلی میں آجانا ہی بہتر تھا، اگر وہ پہلے آجاتے تو یہ ان کے فائدے میں
تھا، لیکن منتخب پارلیمنٹ کے خلاف سخت الفاظ استعمال کر کے سات ماہ بعد
واپس پارلیمنٹ میں آنے سے پی ٹی آئی کو کئی سیاسی، قانونی اور آئینی مشکلات
کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عمران خان دھرنے کے دنوں میںمنتخب حکومت کو جعلی اور غیر قانونی حکومت کہتے
رہے ہیں۔ اسمبلیوں کو ڈمی، جعلی، نقلی، غیر آئینی اور غیر قانونی تک کہا۔
جس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے ایک اہم ادارے پارلیمنٹ کا وقار اور تقدس
پامال ہوا اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی، بلکہ تمام سیاست
دانوں کی جانب سے غیر دوستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پی
ٹی آئی ارکان اسمبلی سات ماہ کے بعد پارلیمنٹ میں واپس آئے تو انہیں سیاست
دانوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یمن کی صورت حال پر غور کے
لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کے ارکان کی شرکت
پر مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی اور اے این پی کے ارکان وقفے وقفے سے نعرے بازی
کرتے رہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ کا اجلاس شروع
ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے دانیال عزیز اور عمر ایوب نے بولنے کی اجازت چاہی،
تاہم اسپیکر نے انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی، جس پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان
نے تحریک انصاف کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ اسی دوران جے یو آئی، اے این
پی اور ایم کیو ایم کے ارکان بھی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر احتجاج کرنے
لگے۔ جبکہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ آج ہم تحریک انصاف کے
ارکان اسمبلیوں کو ہم خوش آمدید کہا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپنی رولنگ میں کہا کہ تحریک انصاف
کے ارکان دوبارہ پارلیمنٹ میں آگئے ہیں، اس لیے ان کے استعفے بھی اپنی موت
آپ مر گئے ہیں، وہ پہلے کی طرح تحریک انصاف کے ارکان کی عزت کریں گے۔ جبکہ
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئین کے تحت
استعفا دینے والے خود بخود مستعفی ہوجاتے ہیں، لہٰذا تحریک انصاف کے جو
ارکان آج اپنی نشستوں پر واپس آئے ہیں وہ اراکین نہیں اجنبی ہیں۔متحدہ قومی
موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ارکان
مستعفی ہیں، اس لیے ان کی موجودگی میں پارلیمنٹ کا اجلاس غیر آئینی ہے۔
آئین کا آرٹیکل 64 شق ون اور ٹو واضح ہے، جو رکن مسلسل 40 دن غیرحاضر رہے،
وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی استعفیٰ دے تو وہ فوری طور پر موثر ہو جاتا
ہے۔ تحریک انصاف کو واپس آنے کی اجازت دینا اسپیکر کا صوابدیدی اختیار
نہیں۔ جن ارکان نے استعفے دیے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی اپنا استعفا واپس
نہیں لیا، اس کے باوجود پارلیمنٹ میں واپس آگئے ہیں۔ آئین موم کی گڑیا
نہیں، اس لیے جب تک انہیں آئینی نکتے کا جواب نہیں ملے گا، ان کی جماعت
احتجاج اور واک آؤٹ کرتی رہے گی اور بعض ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ ارکان
پارلیمنٹ کے استعفے تین طلاقوں کی طرح ہیں، اگر دے دیے تو طلاق ہوگئی۔ جبکہ
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں جنہوں نے شور
مچایا وہ دراصل خوفزدہ ہیں کہ اگر دھاندلی پکڑی گئی تو سب کا پردہ چاک
ہوگا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کنٹینر پر چڑھ کر آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ کو
گالیاں دیتے رہے ہیں، آج وہیں آکر بیٹھ گئے ہیں۔ کچھ شرم ہونی چاہیے، کچھ
حیا ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے ہررکن کو کھڑا کر کے یہ پوچھا جائے کہ اس نے
استعفا دیا ہے یا نہیں؟ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے پی ٹی آئی پر
تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کے حوالے سے پارلیمنٹ کا غیر ضروری اجلاس
تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اسمبلیوں میں واپسی پر تحریک انصاف کے ارکان کو 7 ماہ کی
تنخواہیں بھی ادا کی جائیں گی، تاہم ڈیلی الاؤنس نہیں ملے گا۔ جس پر مبصرین
کا کہنا ہے کہ جس ادارے کوپی ٹی آئی ارکان جعلی اور نقلی کہتے رہے ہیں، اسی
ادارے سے تنخواہیں لینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ دوسری جانب سات ماہ بعدپی ٹی
آئی ارکان کے اسمبلی میں واپس آنے سے کئی قانونی پیچیدگیوں نے جنم لیا ہے،
کیونکہ پی ٹی آئی ارکان سات ماہ کے بعد اسمبلی اجلاس میں شریک ہوئے ہیں،
حالانکہ اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی رضا مندی سے استعفا دے، منظور ہو یا نہ
ہو، وہ رکن خود بخود مستعفی ہوجاتا ہے اور جو رکن مسلسل چالیس روز اسمبلی
سے غیر حاضر رہے ، وہ بھی مستعفی ہوجاتا ہے، لیکن یہاں تو پی ٹی آئی ارکان
سات ماہ کے بعد اسمبلی میں حاضر ہوئے ہیں، جن کا اسمبلی میں آنے کا قانونی
طور پر کوئی جواز نہیں بنتا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا اس حوالے
سے کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے استعفے آئینی طور پر منظور ہوچکے ہیں، ارکان
کو پارلیمنٹ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ پارلیمنٹ کے تقدس
کا خیال رکھنا چاہیے۔ جبکہ سابق رہنما پی ٹی آئی جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ
تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے استعفے ہوچکے ہیں، واپس اسمبلیوں میں جانا
غیرآئینی وغیرقانونی ہے۔ تحریک انصاف نے فیصلے میں بہت دیر کر دی، اسے
سپریم کورٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہرقانون سید ظفرعلی شاہ نے کہا کہ
آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت تحریری استعفیٰ اسپیکر کو بھیجنے کے ساتھ ہی موثر
ہوجاتا ہے، منظور ہونے نہ ہونے کا آئین میں کوئی ذکر نہیں، لہٰذا تحریک
انصاف کے ارکان کی اسمبلیوں میں واپسی آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی
ہے۔ سپریم کورٹ کو معاملے کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔ سابق سپیکر قومی
اسمبلی سیدفخر امام کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ارکان کی اسمبلیوں میں
واپسی کا کوئی جواز نہیں۔ اخلاقی، قانونی اور آئینی طور پر تحریک انصاف کے
ارکان اسمبلی ہاؤس میں بیٹھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ پوری دنیا میں روایات ہیں
کہ جب کوئی رکن استعفیٰ دے دیتا ہے تو اسپیکر اسے منظور کر لیتا ہے، اسپیکر
کو استعفے روکنے کا اختیار نہیں۔ اے این پی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان کا
کہنا تھا کہ عمران خان کنٹینر پر اسمبلی کو جعلی کہتے رہے، اب کس منہ سے اس
جعلی اسمبلی میں واپس آئے ہیں؟۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف نے گزشتہ برس 14 اگست کو انتخابی دھاندلیوں کو
بنیاد بنا کر لاہور سے ریلی نکالی تھی اور اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیا
تھا، جو دسمبر تک برقرار رہا۔ تاہم 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک
اسکول پر حملوں کے بعد عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا موقع ملا تو انہوں
نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔ مبصرین کے مطابق عمران خان ایک عرصے سے
پارلیمنٹ میں واپس آنے کا موقع تلاش کر رہے تھے، جیسا کا دھرنا ختم کرنے کا
موقع ملا تھا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے
پارٹی کے ارکان اسمبلی کے پارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ کیا۔ قبل ازیں وہ
فیس سیونگ کے دو مواقع ضائع کر چکے ہیں، اب جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے
آرڈیننس کے اجرا کی آڑ لے کر انہوں نے پارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پارلیمنٹ میں واپسی پر منقسم
تھی، لیکن عمران خان نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف
پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا، بلکہ پنجاب اور سندھ اسمبلی کے
اجلاسوں میں شرکت کی اجازت دی ہے۔ پی ٹی آئی کی شکست اور پسپائی کی طویل
کہانی ہے۔ کچھ حاصل ہوئے بغیر اس کی پارلیمنٹ میں واپسی کو سیاسی حلقوں کی
جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کے 3 باغی ارکان کے اصولی
موقف کو کامیابی ملی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے اصولی طور
پر الیکشن کمشن کو تسلیم کر لیا ہے۔ وہ جس پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیتے تھے
اب اس کا دوبارہ حصہ بن گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمنٹ واپس
جانے سے ایجی ٹیشن کی سیاست دم توڑ جائے گی اور وزیراعظم محمد نواز شریف کو
سیاسی طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کا اپنی ضد اور
انا کو پس پشت ڈال کر سات ماہ کے بعد اسمبلی میں واپس آجانا اگرچہ ایک مثبت
اقدام ہے، لیکن پی ٹی آئی کے استعفوں کا معاملہ قانون اور آئین کے مطابق حل
کرنا چاہیے۔ |
|