کوئی عنوان سے یہ نہ سمجھے کہ یہاں میں کسی مفتی سے فتویٰ
یا کسی عالم سے کی گئی کوئی ماہرانہ گفتگو تحریر کروں گا۔ کیونکہ میرے ذہن
میں اور آنکھوں کے سامنے جو چیز کلبلا رہی ہے وہ درحقیقت نماز کی ادائیگی
کا طریقہ کار ہے۔ ویسے تو نماز میں خشوع و خضو کا حکم ہے اور شاید (علماء
کرام تصیح کریں گے) واجب ہے کہ ایک حدیث پاک ﷺ کے مفہوم کے مطابق جس کی
نماز اسکی روح کے مطابق ادا نہیں کی ہوئی ہو گی ، اسکی نماز کو قیامت کے دن
اسکے چہرے پر یوں مارا جائے گا جیسے رومال میں کوئی چیز لپیٹ کر ماری جائے۔
اب خشوع و خضوع بھی دو قسم کا ہوجاتا ہے۔ ایک ظاہری جس کو ساری دنیا دیکھ
سکتی ہے اور ایک باطنی یا اندرونی، جس سے بندہ یا پھر اللہ ہی واقف ہوتا
ہے۔ یہاں میں ظاہری خشوع کی بات کروں گا۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ جو
میں تحریر کروں، وہ کوئی پتھر پر لکیر ہو گی، نہیں ۔ البتہ وہ شاید کسی حد
تک ان لوگوں کو آئینہ دکھا دے، جو زیرِ بحث طریقوں میں سے کسی بھی طریقے سے
نماز ادا کرتے ہیں۔
میں تو مشہور کامیڈین عمر شریف کے اس شعر کی مانند ہوں۔۔
مانا کہ پورا مسلماں تو نہیں ہوں لیکن
دین سے اتنا رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، کچھ بھی نہیں
شبِ برأ کی رات پٹاخے تو پھوڑ سکتا ہوں۔
یعنی میں کوئی توکل علی اللہ کرنے والا ، قناعت پسندی اختیار کرنے والا
مومن نہیں۔نماز کبھی پانچ وقت پڑ لیتا ہوں، کبھی پانچ دن نہیں پڑتا۔مسجد
کبھی جاتا ہوں، کبھی غائب ہو جاتا ہوں۔ لیکن پھر بھی جب بھی اپنے مسلمان
بھائیوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کچھ کو دیکھ کر رشک نہیں، بلکہ
حسد محسوس ہوتا ہے کہ میں اس طرح کیوں نہیں پڑھ پاتا۔ اس طرح سکون سے میں
کیوں نماز ادا نہیں کرپاتا۔ اگر چہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ذکر سے
ہی دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ اور جب دل اطمینان میں ہو، سکون میں ہو تو
سمجھیں کہ سارا جسم ہی سکون میں ہو گا۔ روح بھی سکون میں ہو گی، دماغ بھی
سکون میں ہو گا۔ اب نماز بھی ذکرِ الٰہی کی ہی ایک قسم ہے۔ لیکن ہم پھر بھی
بے سکون رہتے ہیں ، کیوں؟نماز میں جو ظاہری خشوع ہے اس کا مطلب نماز کے
ارکان کو انتہائی سکون سے ادا کرنا ہے۔ اگر قیام ہے تو قیام نظر آئے، اس
میں حرکت کوئی نہ ہو۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی اپنے کپڑوں سے کھیل
رہا ہے۔ قمیص کی سلوٹیں درست کر رہا ہے، آستینوں اوپر نیچے کر رہا ہے۔کوئی
اپنی داڑھی کا خلا ل کر رہا ہے، باقاعدہ ہاتھوں سے سر کے بالوں میں یا
داڑھی میں کنگھی کی جا رہی ہے۔اگر ناک صاف کیا جا رہا ہے تو مسلسل صاف ہو
رہا ہے (معذرت کے ساتھ) اور نہ صرف ناک کی صفائی ہو رہی ہے بلکہ ناک سے
نکلنے والے مواد کو چیک کیا جا رہا ہے کہ کیا کچھ خارج ہو ا ہے۔اگر جسم کے
کسی حصے میں خارش ہو رہی ہے تو خارش کیے جا رہا ہے۔ سنا یہ ہے کہ زیادہ سے
زیادہ تین مرتبہ قلیل حرکت کی وہ بھی انتہائی مجبوری کی حالت میں اجازت ہے۔
اب قلیل حرکت کیا ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں کہ اگر کہیں خارش کا احساس
ہورہا ہے تو پہلے تو برداشت کرے، لیکن اگر نہیں ہو رہی تو پھر وہاں ایک
ہاتھ کی ایک انگلی سے ہلکی سی خارش اس طرح نامحسوس طریقے سے کرے کہ دوسرا
اگر دیکھ بھی لے تو یہی سمجھے کہ غلطی سے ہاتھ اٹھ گیا ہے۔یہ ایک مثال ہے۔
لیکن میں نے اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اگر خارش کرنی ہے تو
بے شک ہاتھ تو ایک ہی ہو گا، لیکن پورے ہاتھ سے سیکنڈوں تک خارش کی جا رہی
ہو گی۔بلکہ عین ممکن ہے کہ پورا قیام اسی خارش میں گزر جائے۔پورا قیام اسی
داڑھی کے خلال میں گزر جائے یا کپڑوں کی سلوٹیں درست کرتے ہوئے گزر
جائے۔پھر قیام میں سیدھا کھڑا ہو کر نگاہیں سجدے کی جگہ جمانے کا کہا گیا
ہے۔ لیکن میں نے دیکھا ہے اور کئی افراد کو دیکھا ہے کہ وہ بجائے سجدے کی
جگہ نظریں ٹکانے کے یا تو ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی قریب سے گزرے تو
کن انکھیوں سے دیکھیں گے کہ کون گزرا ہے۔ اگر کوئی حرکت قریب میں ہوئی ہے
تو بھی اس کو دیکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو
اگرچہ ادھر ادھر تو نہیں دیکھتے، لیکن بجائے سجدے کی جگہ دیکھنے کے اس طرح
قیا کی حالت میں اس طرح جھک جاتے ہیں کہ نظریں اپنے قدموں پر جماتے ہیں یا
ان کی نظریں پنجوں پر ہوتی ہیں۔قیام سے رکوع میں جاتے ہوئے پہلے دامن کو
ہلکا ساجھٹکا دیا جاتا ہے پھر رکوع کیا جاتا ہے۔ اور پھر رکوع میں حکم ہے
کہ اپنے پاؤں کی انگلیوں پر نظر جمائی جائے ۔ لیکن یہاں نظروں کے ساتھ پاؤں
کو گویا حرکت دی جاتی ہے۔ پاؤں کی انگلیاں ورزش کر رہی ہوتی ہیں۔ہاتھ
گھٹنوں پر ہوتے ہیں لیکن شاید گھٹنوں کی مالش کرنے کے لیے نہ کہ رکوع کے
ایک رکن کے طور پر۔رکوع اس طرح کیا جانا چاہیے کہ کمر سیدھی رہے۔ لیکن یہاں
یا تو پورا جھکا ہی نہیں جاتا کہ کمر سیدھی ہو یا پھر اتنا جھکا جاتا ہے کہ
سر بس گھٹنو ں کو اب چھوئے کہ اب چھوئے۔اب باری آتی ہے رکوع سے اوپر اٹھنے
کی۔ تو پہلے ایک دفعہ مزید نیچے جھکا جاتا ہے، جیسے سپرنگ پر سے اچھلنے کے
لیے سپرنگ کو ایک دفعہ دبایا جاتا ہے، پھر اوپر اچھلا جاتا ہے، اسی طرح
پہلے رکوع میں جھکا جاتا ہے پھر جھٹکے سے اوپر اٹھا جاتا ہے ۔ اور اٹھتے ہی
دونوں ہاتھوں سے پچھلے دامن کو سیدھا کیا جاتا ہے۔کہا گیا ہے کہ جب کوئی
ایسی حرکت سرزد ہو جائے جس میں دونوں ہاتھ استعمال ہو جائیں تو نماز میں
کراہت آجاتی ہے۔ اور یہاں تو یہ حرکت شاید عام ہے۔سجدے میں جاتے ہوئے دامن
کو باقاعدہ دونوں ہاتھوں سے سیدھا کیا جاتا ہے۔جیسے استری کی جارہی ہو۔ پھر
دامن کو نیچے جاتے ہوئے باقاعدہ گھٹنوں پر پھیلایا جاتا ہے کہ کہیں سجدے کے
دوران دامن ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ سجدے کے دوران پاؤں سیدھے کھڑے ہوں۔ بے
شک اسی طرح ہوتے ہیں لیکن سجدے سے جلسہ کی حالت میں آتے ہوئے اور پھر سجدے
کی طرف جاتے ہوئے پاؤں کی حرکت یوں ہو جاتی ہے کہ زمین سے اٹھ جاتے ہیں۔
اور جب زمین سے پاؤں اٹھ گئے اور انکے نیچے سے ہوا کا گزر ہو گیا تو نماز
میں فرق آگیا۔ سجدے میں بھی رکوع کی سی حالت یعنی کمر سیدھی ہو۔ رکوع اور
سجدے کمر کا سیدھا ہونا یوں ہے کہ اگر کمر پر پانی سے بھرا پیالہ رکھا جائے
تو وہ نہ گرے۔یہاں سجدے میں کولہوں کو تو اٹھایا جاتا ہے لیکن ناف سے لیکر
چھاتی تک یوں سجدہ کیا جاتا ہے کہ چھاتی زمین سے ملتی دکھائی دیتی ہے۔اس کے
بعد اگر تو زمین پر مٹی ہے تو ایک بار ہاتھوں سے اس کو صاف کرنا جائز ہے
لیکن سجدے کی جگہ پر پھونک مارنا قطعاً جائز نہیں۔ اور یہاں ایک بار نہیں
بلکہ بار بار پھونک ماری جاتی ہے اور وہ بھی کچی مٹی والی زمین پر نہیں
بلکہ پلاسٹک یا قالین والی صفوں پر۔ کوئی کرے تو کیا کرے، کوئی جائے تو
کہاں جائے۔قعدہ کرتے ہوئے ہاتھوں کو گھٹنوں پر اس طرح رکھا جاتا ہے کہ
انگلیاں سیدھی قبلہ کی طرف ہوں اور گھٹنوں سے آگے لٹکی ہوئی نہ نظر آئیں۔
اور سکون کی حالت میں ہوں۔لیکن یہاں انگلیاں لٹکی ہوئی بھی ہوتی ہیں اور
حرکت میں بھی ہوتی ہیں۔ میں اس حرکت کا ذکر نہیں کر رہا جو ایک انگلی کھڑی
کر کے اشارہ کیا جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر خارش
ہو رہی ہو گی یا ایک ہی ہاتھ اپنی جگہ رکھے رکھے دامن سے کھیل رہا ہو گا۔
قیام کی مانند اپنی داڑھی سے کھیلا جا رہا ہوگا۔ داڑھی کو سنوارا جا رہا
ہوگا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات بھی بہت ضروری ہے
کہ رسول اکرم ﷺ نے ساری عمر سر پر عمامہ مبارک رکھا۔ اور نماز کے اوقات میں
تو خاص طور ہمیشہ سر کو عمامہ مبارک سے ڈھانپا ہوتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں
کہا جائے تو اسے سنتِ مؤکدہ کہا جائے گا۔ علمائے کرام بہتر بتائیں گے۔ ہم
سر کو تو نہیں ڈھانپتے۔ چلیں کوئی بات نہیں۔ البتہ کم از کم نماز میں تو سر
کو ڈھانپنا چاہیے۔لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ نمازیوں کی اکثریت کے سر ننگے
ہوتے ہیں۔ جب قریب میں ٹوپی موجود نہیں تو شائد علمائے کرام، مفتی صاحبان
اجتہاد ی فیصلہ دے دیں کہ کبھی کبھار نماز ہو جائے گی۔لیکن اس کو عادت نہ
بنایا جائے۔مقتدی کی حد تک تو میرا دل بھی گوارا کرتا ہے کہ مجبوری کی حالت
میں (جب ٹوپی موجود نہ ہو) تو بنا سر ڈھانپے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن
اگر امام بنا سر ڈھانپے نماز پڑھائے تو دل کیسے گوارا کرے کہ اس کے پیچھے
نماز پڑھی جائے۔ اوپر سے وہ امام جو سورتوں کی ترتیب بھی آگے پیچھے کر دیتا
ہو۔ یعنی پہلی رکعت میں مثال کے طور پر سورۃ الفلق اور دوسری رکعت میں سورۃ
الفیل پڑھائے۔ ہوسکتا ہے نماز ہو جاتی ہو، لیکن میرا دل نہیں مانتا۔یہ جو
کچھ میں نے تحریر کیا ، میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ ہو سکتا ہے غلط ہو، لیکن کافی
لوگ اگر غور کریں تو مندرجہ بالا ساری غلطیاں نہ سہی تو ایک آدھ تو ان سے
انجانے میں سرزد ہو ہی جاتی ہو گی۔تو کوشش کریں کہ ان غلطیوں سے اپنی
نمازوں کو پاک کریں، تاکہ دلوں کو ، روح کو، جسم کو سکون نصیب ہو۔جہاں تک
باطنی خشوع کا تعلق ہے تو وہ اسطرح ہونا چاہیے کہ دل و دماغ میں کسی بھی
قسم کا خیال نہ ہو سوائے اس بات کے کہ نماز اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کے
لیے ادا کی جا رہی ہے۔ اور یہ سمجھ کر نماز پڑھی جائے کہ مبادا یہ آخری
نماز ہو۔اس پر ان شاء اللہ پھر لکھوں گا، لیکن علماء کرام سے پوری تفصیل لے
کر۔ کیونکہ یہ ایک نازک موضوع ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی عبادات کو اسکی اصلی
روح کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ |