ماہ اگست ۲۰۱۰ میں جب سیلابوں اور بارشوں
نے نے ملک کا تمام اسٹریکچر تباہ کر دیا پی پی حکومت فنڈ ریزی میں مصروف
عمل تھی تو ایم کیو ایم کے قاائد الطاف حسین نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے
لئے افواج پاکستان کو دعوت دی جس پر سیاسی دنیا میں ایک کہرام مچ گیا اور
محبان جمہوریت نے الطاف حسین کے بیان کو قدرتی آفات سے زیادہ نقصان دہ قرار
دیاا سی لہر میں اس وقت سیاست کے نئے کھلاڑی عمران نیازی نے بھی ایک مذاکرہ
میں انہی الفاظ کو دھرایا جو الطاف حسین نے کہے تھے۔، مگر حالات اس سوچ کے
مطابق نہیں تھے ایم کیو ایم جو سابقہ امیر المومنین ضیاء کی باقیات میں ہے
اج بھی اسی روش کی سیاسی سفر میں محو جیسے ۸۰ کی دہائی گر چہ حالات واقعات
تبدیل ہو رہئے ہیں مگر ایم کیو ایم نے اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ ایک نہ ختم
ہونے والی اس راگ کو مسلسل ایم کیو ایم جاری رکھی ہوئی تھی صرف یہ نہیں
بلکہ ایک وقت وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے جب قائد تحریک بر ملا کہہ رہئے تھے کہ
گھر کے بھانڈے بیچو اور اسلحہ خریدو نوے کی دہائی میں کراچی کے در و دیوار
قائد کا غدار موت کا حقدار جیسے نعروں سے بھرے ہوئے تھے انجمن مہاجر موومنٹ
سے مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ تک کا سفر کرنے والی یہ
جماعت غیر مرئی قوتوں کے دودھ سے پھلی پھولی اور خوب خوب حق نمک ادا کیا
کبھی کراچی کی علیحدگی تو کبھی جناح پور کا نقشہ سامنے لائے جمہوریت کا
ڈھنڈورا پیٹنے والی اس جماعت نے کئی روپ دھارے سندھ حکومت میں برابر کی حصہ
دار بنی تو ہمیشہ مرکز میں بھی ایک بیلنس پاور کی حیثیت اختیار کی وزارتیں
مشاورتیں اور اخر کار سندھ کی گورنر کی سیٹ پر بھی برا جمان ہوئے اور ملکی
تاریخ میں ایک لمبے عرصہ تک گورنر سندھ عشرت العباد رہئے جسکا ماضی ایک
عجیب روپ دھارے ہوا تھا ناچ گانے اور دوست احباب کی خوشیوں میں خوشی کا رنگ
ڈھالنے لئے جناب عشرت العباد صاحب زنانہ کپڑوں میں تازہ میک اپ لگا کر شو
پیش کیا کرتے تھے۔ قائد الطاف حسین کی نظر میں ائے اور سندھ کے گورنر بنا
دئے گئے واقفان حال کے مطابق سندھ میں بد امنی کی جڑ یہی گورنر ہاوس تھا کہ
گھر کا بھیدی ڈھنکا ڈھائے ۔ سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں شاید کہ یہ پی پی
کی الذولفقار کی پیروی تھی کہ مرحوم بھٹو صاحب بھی اسی دھونس دھاندلی سے
سیاست کے قائل جس پر اج ایم کیو ایم چل رہی ہے مخالف سیاست دان کے گھروں کو
جلا دینا مد مقابل امیدوار کو اغوا کر لینا اس دور کی تاریخ کے انمٹ واقعات
ہیں جو اج ایم کیو ایم کے روپ میں سامنے آ رہئے ہیں۔ ملک میں جنرل مشرف کے
دور حکومت میں اس جماعت کی خوب ابیاری ہوئی ملک کے سفید وسیاہ کے مالک بنے
تو دوسری طرف کراچی جو کبھی ملک کی غریب پسی ہوئی ابادی کے لئے باعث راحت
تھی ایک جہنم بنتی گئی بندوق کے زور پر سیاست کرنے والے گروہ کے ظلم کو
روکنے لئے دوسری سیاسی جماعتوں نے اپنے دفاع کی خاطر بندوق کا سہارا لیا
اور سندھ بالخصوص کراچی کی ابادی انسانیت سے فارغ ہوتی گئی قتل و غارت لینڈ
مافیا بھتہ خوری بے گناہوں کے دل و دماغ میں میخیں گاڑنا بوری بند لاشیں
حتی کہ عید قربان پر چمڑ ہائے قربانی نہ دو گے تو اپنا چمڑہ تیار رکھو جیسے
کارہائے نمایاں کراچی کی سیاسی جماعتوں کے گلے میں لٹکے ہوئے ہار تھے جس کو
کبھی نہ کبھی ختم ہونا تھا کہ رب اکبر کو کفر کی حکومت تو منظور ہے ظلم کی
نہیں اور پھر یہ مطالبہ تو برس ہا برس سے ایم کیو ایم ہی کر رہی تھی کہ
کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے؟ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے لئے
شاید اخری ثابت ہو رہا ہے نائن زیرو پر دفاعی اداروں کا چھاپہ کو معمولی
بات نہیں تھی کسی کے گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ کبھی اس اہنی حویلی
پر بھی چھاپہ پڑ سکتا ہے اور نہ کسی نے سوچا تھا کہ یہ حویلی سیاسی کارکنوں
کی اماجگاہ کی بجائے مجرم پیشہ لوگوں کی اماجگاہ ہو گی۔ نائن زیرو سے اسلحہ
کے برامدگی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب افراد کا ملنا اور پھر
جماعت کی طرف سے اس کاروائی پر مختلف بیانات کا انا از خود ایک مشکوک رد
عمل تھا جس پر کوئی بھی زی شعور شخص بھروسہ نہیں کر سکتا تھا مگر وہ لوگ جو
بندوق کی نالی پر ھراساں تھے۔ سابقہ وزیر داخلہ مرحوم نصیر اﷲ بابر نے بھی
ایک اپریشن کیا مگر وہ وقتی ثابت ہوا کہ ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی مفاد کی
چادر میں خاموشی اختیار کی ہوئی تھی پورے ملک میں خوف کی فضا کو ختم کرنے
میں مگن اداروں کا یہ حق بنتا تھا کہ کہ وہ ملک کی اکثریتی ابادی کو قتل و
غارت سے بچائیں تا کہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی سے بھی خوف کے سائے
ختم ہوں جو ادھے ملک کے رزق کا زریعہ ہے اس ناقابل تسلیم حرکت میں اگر کوئی
بھی ملوث ہو اس کو وہی سزا دی جانی چاہئے جو دہشت گرودں کو دی جا رہی ہے
اسی بارے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی نائب صدر محترم انس نورانی جو سیاسی
دنیا میں ایک معتدل اور معقول سیاست دان تصور کئے جاتے ہیں مگر مردان کے
جلسہ عام میں ایم کیو ایم پر انہوں نے بھی ہزاروں بے گناہوں کے قتل کا
الزام لگایا اور سخت سے سخت سزا بھی تجویز کی جو واقعی حیران کن بات ہے۔اس
سے قبل پی پی کے جناب زولفقار مرزا اور خود عمران خان نیازی بھی ایک سنجیدہ
کوشش کر چکے ہیں مگر اس وقت متحدہ والوں کا طوطی بولتا تھا اب جب جماعت کے
گرفتار کارکن خود ہی بول رہئے ہیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو ہی
جانا چاہئے صرف صولت مرزا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ سامنے آنے والا ہے جو کہ
شاید کسی سیاسی جماعت کے لئے نا قابل قبول ہو مگر حیقیت کو پردوں میں
چھپایا نہیں جا سکتا یہ خصوصی کیس دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے بھی ایک سبق
ہو گا کہ سیاست انسانی جان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا نام نہیں بلکہ بقاء
انسانیت کا نام ہے جس پاکستان کی سیاسی جماعتیں کوسوں دور ہیں۔ اب ملک و
ملت کے ساتھ کراچی کی رونقیں بحال ہونی والی ہیں وہاں اب شجر ناریل پھر سے
سفید پھول اگائے گا جس کی مہک ہر دل و دماغ کو تسکین دے گی کراچی ایک بار
پھر ملک کے غریبوں کے روزگار کا زریعہ بننے والا ہے جہاں دکھ خوف کی بجائے
امن و سکون ہو گا لینڈ مافیا انسانی سمگلر اور بھتہ خوری کا مکمل صفایا ہو
جائے گا، جس کے لئے ملک کی تمام جماعتوں کو دفاعی اداروں کا ساتھ ہونا ہو
گا اور ہر جماعت اپنے اندر موجود ملک دشمن لوگوں سے برات کا علان کرنا ہو
گا تا کہ چند مفاد پرست لوگوں کی وجہ سے ملک کی انیس کروڑ عوام دکھ میں
مبتلا نہ ہو ورنہ ایم کیو ایم کی طرح ہر جماعت کو اس مکافات عمل سے گزرنا
پڑے گا جو سیاسی ماحول میں باعث شرمندگی ہی ہے۔ |