میری قوم کی بے حسی دیکھئے
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
انقلاب زمانہ دیکھئے کہ میں
حکمرانوں کے خلاف لکھنے والا اور اپنی غریب عوام کو ڈیفنڈ کرنے والا آج خود
ہی اپنی قوم کے بھی خلاف لکھنے پر مجبور ہوں .آخر کیوں کب تک میں کبوتر کی
طرح بلی سے بچنے کے لئے آنکھیں بند کر کے بیٹھا رہوں گا .آخر کیوں میں پھڑ
پھرانے کی کوشش نہیں کرتا .جس ڈر.خوف .میں مبتلا ہوں .اس کی یقینن کافی
وجوہات ہیں .ایک تو میں بزدل ہوں .حکمران سے انصاف نہ ملنے پر نا امید ہوں
.ایمان کی کمزوری بھی ہو سکتی ہے .پیٹ کی بھی مجبوری ہو سکتی ہے .مزید
تمہید میں نہیں جانا چاہتا .بات کر رہا ہوں .١٣ سال کا بچہ زین .ایک
وہہات.خود سر وڈیرے کے ہاتھوں لاہور میں قتل ہوتا ہے .تو ہم چینل پر وڈیرے
کی کہانیاں سناتے ہیں .افسوس تو مجھے اس بات کا ہے .کہ لاہور ہو یا کراچی .بھتہ
خور ہو .یا ٹارگٹ کلر.دہشت گرد ہو .یا آوارہ .نشہ کرنے والا یا نشہ بیچنے
والا .ہم اس کی طرف بر وقت اشارہ کیوں نہیں کرتے .کیوں اپنا فرض نہیں
نبھاتے .کیوں پولیس کو اطلاح نہیں دیتے .یا خود کیوں نہیں سمجھاتے.قانون
ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کرتے .دو ہی وجوہات ہیں .یا
معاشرہ تباہ ہو چکا ہے یا من ہیسل قوم ہم قوم ہی نہیں رہے ہم ہجوم ہیں یا
بھیڑ بکریوں کا اک ریوڑ ہیں .جن کو میرا ظالم حکمران ہانک رہا ہے .ساری
برائیوں کی جڑھ میرا حکمران ہے .کیونکہ اگر مجھے ذرا سا بھی حکمران کی طرف
سے انصاف ملنے کی امید ہو تو میں سب سے پہلے قانون کے رکھوالوں کو اطلاح
دوں گا .رابطہ کروں گا اور ایکشن ہوتا دیکھوں گا .قانون کے رکھوالوں پر خوش
ہوں گا اور آئندہ بھی ان سے تعاون کروں گا .یورپ میں یہی ہوتا ہے .جب کوئی
لڑکا . لڑکی . عورت . مرد .جوان .بھوڑا.کہیں بھی کوئی غلط کام ہوتا دیکھتے
ہیں .مشکوک آدمی دیکھتے ہیں .وہ اپنی بالکونی میں کھڑے کھڑے پولیس کو اطلاح
دیتے ہیں .اور اسی وقت وہ عمل ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں .اور اگر
ان کے کہنے پر ایکشن نہیں ہوتا .تو سمجھ لو کہ جس ادارے کو فون کیا گیا تھا
اس کی شامت آ گئی.اس لئے وہاں سب برائیوں کے باوجود کوئی کن ٹوٹا.بدمعاش .جاگیردار
.وڈیرہ .کانجو .زرداری .لاشاری .لغاری .چیمہ .چٹھہ.نہیں ہوتا .اسلح کی
نمایش تو کجا .اسلح غیر قانونی رکھ ہی نہیں سکتا .پاکستان کا باوا آدم ہی
نرالا ہے .یہاں اپنے محلے میں اگر میں کسی کام کرنے والی عورت کو غلط جگہ
کوڑہ وغیرہ پھینکنے سے منع کروں تو اس کے مالکان بھی برا مان جاتے ہیں .حالانکہ
میں بھی کیولری گراونڈ لاہور کی طرح ایک پوش علاقے میں رہتا ہوں .تو یہ
حالت ہے اس قوم کی .کہ محلے والے سب کانجو صاحب وڈیرے کی غلط حرکتوں سے
واقف تھے .مگر کسی نے یہ جرات نہ کی .کہ قانون والوں کو حقیقت سے آگاہ کیا
جاۓ .کیونکہ کسی کو خادم اعلی اور اس کی پولیس پر عتبار ہی نہیں .اور عتبار
ہو بھی کیسے .جب کہ میں خود تین ایف.آئی .آر .اپنی جیب میں تین سال سے لئے
پھر رہا ہوں .اور گوجرانوالہ کے ہر پولیس افسر سے مل چکا ہوں .اور نتیجہ
صفر ہے .تو پھر میرے اندر عتماد کہاں سے آے گا .کاش محلے .یا مسجد کی کوئی
پنچایت ہوتی .کاش بلدیاتی سطح پر کوئی پنچایت کو اختیار ہوتا .کاش نچلی سطح
پر کوئی خود مختار ادارہ ہوتا .تو محلے میں کوئی بدمعاش پیدا ہی نہ ہوتا .کاش
خادم اعلی کبھی مجھ جیسے شخص سے ہی نظام مانگ لیتے .میں ان کو ایک بہترین
بلدیاتی نظام دے دیتا .کاش .کاش ..اسی لئے کہتا ہوں کہ اس ملک کو ایک
انقلاب کی ضرورت ہے .جو ایک دفعہ یہ گند صاف کرے .نظام کو تبدیل کرے .انصاف
اور احتساب کا عمل شورع ہو ..ورنہ .حکمران سے نا امید ہی لکھوں گا اور قوم
کو ہجوم ہی لکھوں گا .کوشش جاری ہے .اسی لئے میں نے جب بارویں کتاب .انقلاب
کاروان.میں حکمران سے نا امید لکھا ..وہاں یہ بھی لکھا ...سنا ہے نام چلو
انقلاب کا دیا جلا کے دیکھتے ہیں ....چلو اس منچلے ہجوم کو بھی قوم بنا کے
دیکھتے ہے .......خدا اور نبی سے نا امید نہیں جاوید ...حکمران سے نا امید
لکھوں یا بد گمان لکھوں ...تو ہی بتا کیا لکھوں ..سوچتا ہوں کیا لکھوں .... |
|