پوری دنیا کی طرح پاکستان میں
بھی کئی اہم دن منائے جاتے ہیں ان کا مقصد کسی اہم واقعے کی طرف لوگوں کی
آگاہی یاتوجہ مبذول کرانا ہوتا ہے ایسا ہی ایک بہت اہم واقع 07 اپریل 2012
کی صبح 04 بجے سیاچن گیاری سیکٹر میں پیش آیا جس میں برف کے گرنے والے تودے
کے نیچے دب کر پاک فوج کے 139 جوان شہید ہوگئے تھے اور کئی دن کی جدوجہد کے
بعد ان شہداء کے جسد خاکی کو برف کے تودے کے نیچے سے نکالا گیا تھا۔ کل اس
دل خراش واقعے کو پورے تین سال گذر گئے ، وطن عزیز میں ہونے والا اس طرح کا
ہر واقع میرے زہن میں تقش رہتا ہے اور شائید میری طرح بہت سے لوگوں کو بھی
ایسے واقعات یاد رہتے ہوں ہاں جن کے پیارے اس واقع میں شہید ہوئے انھیں تو
یہ سب آج بھی اتنی شدت سے یاد ہوگا جتنا 07 اپریل 2012 کی صبح تھا ۔
07 اپریل کو تمام دن میں گاہے باگاہے اس واقعے کے حوالے سے نوٹس کرتا رہا
کہ شائید آج اس واقعے کے حوالے سے کوئی تقریب کوئی پروگرام کہیں منعقد ہو
کوئی ٹی وی چینل اس بارے میں رپورٹ نشر کرے کوئی چینل ان شہداء کے لواحقین
کو اپنے کسی ٹاک شو میں بلائے کوئی سیاسی سماجھی تنظیم یا سول سوسائیٹی کسی
چوک کسی چوراہے پر ان کی یاد میں شمعیں جلائے لیکن مجھے کہیں ایسا نظر نہیں
آیا پروگرام اور ٹاک شوز تو کجا کسی چینل نے اس واقع کے لیئے دو لفظ بھی
نشر نہیں کیئے اور کرتے بھی کیوں انھیں پارلیمنٹ میں ہوئی بے ھودگی دکھانے
سے فرصت نہیں انھیں تو وہ دکھانا ہے جس کو دیکھ کر سر شرمندگی سے جکھ جائے
چیختے چلاتے لڑتے مرتے ٹاک شوز میں بھلا ان شہداء کے لواحقین کی جگہ کہاں
مارنگ شوز میں عریانیت میں ان معصوموں کی جگہ کہاں ۔۔۔ آہ میری طرح شائید
ان شہداء کے لواحقین بھی انتظار کرتے رہے ہوں کہ آج ان کے پیاروں کا بھی
کوئی دن منایا جائے گا ان کی شہادت پر کوئی خصوصی تقریب منعقد ہوگی آج ملکی
سیاسی سماجھی اور مذہبی جماعتیں کوئی ان شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی
اور ان شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے کوئی ریلی کوئی دعائیا
تقریب کا انعقاد کریں بات یہیں ختم نہیں ہوئی پوری دنیا میں ہر بات میں
حوالہ دیا جانے والا شوشل میڈیا پر بھی لوگوں کی اس معاملے میں بے حسی عروج
پر دیکھنے میں آئی جہاں ایک شخص اپنی منگیتر کی شرٹ کے کلر کے بارے میں
اپنے دوستوں سے پوچھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شوشل میڈیا پر ایک بحث
کا زریعہ بن جاتا ہے پھر جناب ہمارا میڈیا تو اسے بریکنگ نیوز کے طور پر
نشر کرتا ہے انھیں انڈیا کی فوجی پریڈ میں کتے کے گھسنے کی خبر تو نشر کرنے
پر فخر ہوتا ہے لیکن افسوس کے ان خاکی وردی کا کفن پہنے ان شہیدوں کا کہیں
ذکر نہیں تھا پارلیمنٹ میں ہوئے تماشے یا غیروں کی جنگ پر ہی شوشل میڈیا پر
بحث جاری رہی اور ان شہداء کا دن خاموشی سے گذر گیا شوشل میڈیا کا ذکر اس
لیئے کیا کہ دنیا میں اسی کے حوالے سے کئی خبریں بنتی ہیں کئی نشریاتی
ادارے اسی کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیتے ہیں ۔
اب آئیے ان گلے شکوں کے بعد میں ذکر کرتا ہوں اس دل دھلادینے والے واقعے کی
تاکہ کم از کم میں اور آپ تو اپنے ارض پاک پر جان نچھاور کرنے والوں کو یاد
رکھیں برفانی تودہ گرنے کا یہ واقعہ 07 اپریل کو صبح 04 بجے کے قریب سیاچن
گلیشیئر کے گلیاری سیکٹر میں پیش آیا تھا پاکستانی فوج کے مطابق سیاچن کے
قریب برفانی تودے تلے دبنے والوں میں فوجی اہلکاروں سمیت 139 افراد شامل
تھے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق اس برفانی تودے کے نیچے دب جانے
والوں میں سات افسران کے علاوہ ایک سو سترہ فوجی اہلکار اور اس کے علاوہ
پندرہ عام شہری شامل تھےاس برفانی تودے کے نیچے دب جانے والے افراد کے
ناموں کی فہرست بھی جاری کی گئی تھی جن کے جسد خاکی کی تلاش مہینوں تک جاری
تھی کیونکہ خراب موسم تمام امدادی کاروائیوں کو بار بار روکنے پر مجبور
کرتا تھا اور کئی دفعہ تو یہ کاروائی کئی دن تک معطل کرنی پڑتی تھی ۔
اطلاعات کے مطابق سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برف کے نیچے دب جانے والے
فوجیوں میں سے اکثریت کا تعلق سکردو کی سب ڈویژن شگر سے تھا اور ان سب کا
تعلق ناردرن لائٹ انفنٹری چھ سے تھا ۔ اس علاقے میں دنیا کی دوسری بلند
ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو بھی واقع ہے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر امدادی
کارروائیاں انتہائی مشکل کام تھا عسکری ذرائع کے مطابق بٹالین ہیڈکوارٹر پر
برفانی تودے کی تہہ 80فٹ بلند تھی اور خطرناک موسم کے باوجود پاک فوج اپنے
تمام وسائل کو بروئے کار لائی ہوئی تھی اور پوری قوم ان جوانوں کی سلامتی
کے لیئے دعاگو تھی ۔
زندہ قومیں کبھی اپنے شہیدوں کو نہیں بھولتیں جنھوں نے اپنی قیمتی جانوں کے
نذرانے اس مملکت خداداد کے لیئے پیش کیئے ۔
|