بلیڈ ایک دھات کا بنا ہوا آلہ ہے
جو کاٹنے کے کا کام کرتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کی زبان اور ان کے کام بھی
بلیڈ کا کام کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر قرآنِ پاک کی سورۃ الفلق میں
ہے۔اﷲ تعالی فرماتا ہے:
ومن شرا لنفثت فی العقد۔ومن شرحاسداذاحسد
ترجمہ:اور گرِہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔اور حاسد کے شر سے جب وہ
حسدکرے
یہ گرِہیں رشتوں میں بھی لگتی ہیں جولوگ اپنی زبان کے بلیڈ چلا کر لگاتے
ہیں۔کہیں ساس بہو پر بلیڈ چلاتی ہَے کہیں بہو ساس پر۔کہیں نند بھابھی پر
بلیڈ چلاتی ہے کہیں بھابھی نند پراور رشتوں پر گرہیں لگتی چلی جاتی ہیں۔ یہ
سب تو روائتی رشتے ہیں لیکن بعض دفعہ بیٹیوں والی ماؤں پر بھی بلیڈچلتاہے۔
اگر کسی کے گھر بیٹا پیدا ہو تو بیٹی والی ماں کی مبارک باد پر یہ بات
سامنے آتی ہے کہ ہمارے گھر بیٹے کی پیدائش پر جل گئی تھی۔
بیٹی کی ماں اگر کسی کے بیٹے سے پیار سے بات چیت کر لے تو بیٹے کی ماں کی
طرف سے اعتراض آتا ہے کہ ہمارے بیٹے کو ہاتھ میں لے رہی ہے۔اگر کسی ایسے
گھر میں آنا جانا ہوں جہاں بیٹے ہیں تویہ طعنہ ملتا ہے کہ بیٹیوں کے رشتے
جو کرنے ہیں تو ہمارے گھر کے چکرتو لگائے گی ۔ اگر رشتہ داروں سے حُسنِ
سلوک کردے تو ایک اور بلیڈ چلتاہے کہ ہم سے تو بنا کر رکھنی پڑے گی بیٹیاں
نہیں بیاینی ہم سے بنائے گی نہیں تو کون لائے گا اِس کی بیٹیوں کے
لئے رشتے۔ساس اور دیگر رشتہ داروں کا ایک بلیڈ یہ بھی چلتا ہے ،اسکو اتنے
بڑے گھر کی کیا ضرورت ہَے اسکی تو بیٹیاں ہیں بیاہ دے گی تو پھر ایک کمرے
میں بھی گزارہ ہو جائے گا۔ پھر بیٹیوں کی ساسوں کا بلیڈ چلتا ہے کہ ماں کی
بیٹیاں تھیں کہیں آگے بھی بیٹیاں نہ ہوں۔ زرا سی کمزوری کسی میں د یکھی
نہیں اُس کا چرچا کر کے ایک بلیڈاور چلا دیا جاتا ہے اور گرہیں بڑھتی چلی
جاتی ہیں۔ آجکل بچوں کے رشتوں کے وقت رنگت،مالی حیثیت، اور تعلیم پر اعتراض
بھی بلیڈ کا کام کر رہا ہے اور گرہیں مضبوط کرتا چلاجارہا ہے۔
ذرا سوچئے جس طرح ریت میں پانی کے قطر ے جذب ہو جاتے ہیں اور پانی کے یہ
قطر ے ریت سے نہیں نکالے جاسکتے اسی طرح ایک د فعہ زبان سے نکلی ہوئی بات
کا اثر کبھی دل سے نہیں نکلتا ہمارے چند جملے کسی کے دل میں نشتر بن کر
اُتر سکتے ہیں اور اُس کے دل کو دکھی کر سکتے ہیں۔ |