دنیا میں ایسے لا تعداد لوگ ہیں
جو اپنی زندگی میں ہی اپنی کمائی ہوئی دولت کو خیرات کر دیتے ہیں۔جو اپنی
محنت میں معاشرے کے محروم افراد کو بھی شامل کرتے ہیں۔ ان میں اب ایک نیا
نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ اور وہ ہیں ، (Tim Cook)ٹم کوک۔ جودنیا کی ایک
معروف کمپنی(Apple) ایپل کے سی ای اوہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی
ساری دولت6.65ارب ڈالرز خیرات کر دیں گے۔ اس سے پہلے مایئکروسافٹ کے بل
گیٹس، اوریکل کے لیری ایلیسن، فیس بک کے مارک زوکربرگ جیسے نامور اور دنیا
کے سب سے زیادہ امیر لوگ اپنی ساری جائیداد خیراتی اداروں میں تقسیم کرنے
کا اعلان کر چکے ہیں۔
اپنی محنت کی کمائی کو خیرات کرنا ، وہ بھی اپنی زندگی میں، کوئی معمولی
کام نہیں ہے۔پہلے لوگ وصیت کر جاتے تھے کہ ان کے دولت ان کی وفات کے بعد
خیرات کر دی جائے اور اس کا کچھ حصہ رشتہ داروں کو دے دیا جاتا تھا۔ اس میں
بھی پھر کئی قانونی مسائل پیدا ہو جایا کرتے تھے۔ ان کی وصیت پر عمل کے
تقاضے پورے کرتے ہوئے ساری دولت ہی خرچ ہو جاتی تھی۔ لیکن اب دنیا کی امیر
ترین شخصیات نے یہ کا خیر شروع کیا ہے۔ جس کا بلا شبہ خیر مقدم کیا جا تا
ہے۔ مال و دولت کماتے کماتے انسان اپنی قیمتی دولت یعنی صحت کو بھی گنوا
بیٹھتا ہے۔ پھر اپنی ساری دولت علاج پر خرچ کر دیتا ہے۔ اسان دولت کے پیچھے
آنکھیں بند کر کے دوڑتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کی لالچ اور
حرص اتنی ہوتی ہے کہ اگر اسے سونے کا ایک پہاڑ مل جائے تو وہ اس طرح کے کئی
مزید پہاڑ طلب کرتا ہے۔ اس طرح اس کی لالچ ختم نہیں ہوتی ہے۔ انسان کی حرص
کو قبر کی مٹی ہی ختم کرتی ہے۔ اس لئے انسان کو جو کمائے، رزق حلال کا خیال
رکھے۔ آج ہر شخص کی ضروریات کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ ایک پوری ہو تو دوسری
سامنے آجا تی ہے۔ضروریات کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں۔ تا ہم انسان کا زہنی اور
قلبی سکون سب سے بڑی دولت ہے۔ جو کمانا بھی انتہائی کٹھن ہے۔ ہماے ہاں بھی
اﷲ پاک نے لا تعداد لوگوں کو ارب کھرب پتی بنایا ہوا ہے۔ وہ اپنی دولت کو
غریبوں اور مساکین، اپنے عزیز و اقارب پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ غریبوں کو
کھانا بھی کھلاتے ہیں۔ یتیم اور محتاج بچیوں کی شادیاں بھی رچاتے ہیں۔
لوگوں کو چھت بھی مہیا کرتے ہیں۔ ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
ایسے بھی لوگ ہیں جنھوں نے لا تعداد بچوں کو گود لیا ہوتا ہے۔ وہ ان کی
تعلیم و تربیت پر اس طرح دھیان دیتے ہیں جیسے کہ یہ ان کی اپنی اولاد ہو۔
کسی غریب بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا صدقہ جاریہ ہو سکتا ہے۔ کیوں
کہ علم ہی ایسی دولت ہے جسے کوئی چھپا یا چرا نہیں سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے
ہر ایک اپنی تقفیق ک مطابق غریبوں اور محتاجوں پر خرچ کرے۔ تو یہ سب سے بڑا
صدقہ ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کم از کم اس قدر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کہ
وہ اپنے عزیز و اقارب ، پڑوس میں ایسے بچوں بچیوں ، غرباء و مساکین کی
فہرست بنائے۔ اس فہرست میں شامل مستحق افراد کی تعلیم، روزگار، شادی بیاہ،
کونسلنگ، کسی بھی طرح کی معاونت کا بندوبست کرے۔ یہی ہم سے ہر ایک کی خیرات
ہو گی۔ لیکن یاد رہے کہ ایک ہاتھ سے انسان کو ایسے دینے کی تا کید ہے کہ
دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہو۔ اس کی تشہیر نہ کی جائے۔ نیکی کی تشہیر ضروری
ہے لیکن ہر کسی کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی انتہائی لازمی ہوتا ہے۔ ہمارے
کسی قول و فعل سے کسی کو احساس کمتری نہ ہو۔ کسی کا دل نہ دکھے۔ آج ہم
دکھاوے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ اپنے ملازم کو اس کی لیاقت یا طلب کے
مطابق چند ہزار روپے تک دینا گوارا نہیں کرتے لیکن لاکھوں روپے کس طرح
عیاشی میں اڑا دیتے ہیں۔ جو کہ واضح طور پر دکھاوا ہوتا ہے۔ یہ دکھاوا ہر
کام میں روا رہتاہے۔ کسی کو اپنی دولت کی تشہیر مطلوب ہوتی ہے۔ کسی کو اپنی
طاقت کا رعب دکھانا ہوتا ہے تو کسی نے اپنی شہرت کے چرچے کرنا ہوتے ہیں۔ اس
میں عبادت، رشتہ داری، سیاست سب متاثر ہوتے ہیں۔ سب رشتے ناتے بھول جاتے
ہیں۔ لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔یہ دینی فریضہ بھی ہے۔اس پر عمر بھر کی
جمع پونجی خرچ کر ڈالتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہیں کہ ان کی زندگی میں اﷲ تعالیٰ
ایسی تبدیلی لاتے ہیں کہ وہ بالکل ہی بدل جاتے ہیں۔ ان کی عملی زندگی سے
لگتا ہے کہ اﷲ پاک نے ان کی عبادت ، دولت کو قبول فرما لیا ہے۔ اگر آ پ کی
عبادت اور ریاضت سے آپ کی زندگی میں مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے تو سمجھ لیں
کہ یہ سب بیکار اور دکھاوا تھا۔ پھر بھی رحمت اور بخشش کے دروازے کھلے رہتے
ہیں۔ اﷲ پاک توبہ قبول فرماتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ
ان کی عبادت کیسی ہے۔ ان کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی ہے۔ کمی کوتاہی کہاں
ہے۔ اس میں کیسے اصلاح لائی جاسکتی ہے۔ صرف اصلاح کی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنا محاسبہ، آڈٹ کرنا ہوتا ہے۔
ایسے لاتعداد لوگ ہیں کہ جن کی دولت ان کی زندگی ہی میں ان کے کام آئی۔ ان
کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی۔ اگر آپ امیر و کبیر ہیں لیکن آپ کا
زائقہ خراب ہے۔ یا آپ کو زائقہ کا پتہ ہی نہیں۔ یا آپ کا زائقہ چھین لیا
گیا ہے۔ تو پھر آپ اﷲ کی تمام نعمتوں سے محروم ہیں۔ ہر شے بے مزہ اور بدمزہ
ہو گی۔ اس لئے یہ وقت ہے کہ ہم آج ہی اپنی محنت کی کمائی، رزق حلال کو حلال
پر خرچ کریں۔ اپنی دولت جو بھی ہے، اسے تقسیم کر دیں۔ اس کا وہ ھصہ تقسیم
کر دیں جو ہماری فوری ضروریات سے زیادہ ہے۔ اسلام ہمیں اس بات کی اجازت
نہیں دیتا کہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ چاک کریں۔ بلکہ جو کچھ ہے اسے تقسیم کر
کے کھائیں۔ تا کہ کوئی بھوکا، ننگا، پیاسا، چھت کے بغیر نہ رہے۔ ہمارے پڑوس
میں ہمارے پکوانوں کی مہک سے کوئی بھوکا تڑپ نہ اٹھے۔ ہم میں ہر کوئی اپنی
کمائی میں اس قدر جتنا اﷲ اسے توفیق دے، خرچ کر سکتا ہے۔ ایسا ممکن ہے۔ بس
تھوڑی ہمت دردمندی کی ضرورت ہے۔ ایسی ہمت جو کسی دکھاوے، تشہیرکی محتاج
نہیں ہے۔ |