یمن کی صورتحال پر جائزہ لینے کے
لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری تھا کہ مک مکا کی سیاست جسے ہم قومی
مفاد میں کی سیاست بھی کہتے ہیں پر یقین رکھنے والے سیاسی حکمرانوں کی
ایوان میں تقریبا سات ماہ بعد واپسی ہوگئی جس پر ایوان میں ایک شور مچ گیا
اور رہی سہی کسر خواجہ آصف نے پوری کردی جس پر تحریک انصاف کے اراکین بھی
سیخ پا ہوئے مگر جو کچھ انہوں نے کنٹینر میں بیٹھ کر بویا تھا اب اس فصل کے
کٹنے کا وقت آچکا ہے عمران خان جس طرح کی سیاسی گفتگو کیا کرتے تھے اب ان
باتوں کا بدلہ لینے کا وقت آچکا ہے ابجب بھی اجلاس ہو گا اسی دوران کوئی نہ
کوئی حکومتی رکن کھڑا ہو کر اپنے دل کی بھڑاس نکالے گا جس طرح دھرنے میں
لوگ عمران خان کی تقریریں مزے لے لے کر سنتے تھے اب اسی طرح حکومتی اراکین
کی نمک مرچ والی باتوں سے لوگ محظوظ ہوا کرینگے اور تحریک انصاف صرف اپنے
اوپر کیے جانے والے حملے کا دفاع ہی کرتی رہے گی باقی رہی انکے مطالبات
والی بات وہ بھی سابقہ کمیشنوں کی طرح اخباروں اور خبروں تک ہی محدود
ہوگاپچھلے پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اسی طرح پورے کرلیے تھے
انہوں نے بھی اپوزیشن کے ہر مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اسے مان لیا کرتے تھے
اور کرتے اپنی مرضی تھے مگر وہ انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے انکا
مقصد کھاؤ پیو اور کھلاؤ تھا تاکہ وہ اپنے پانچ سال مکمل کرلیں پیپلز پارٹی
کے برعکس مسلم لیگ ن بھی اب ان باتوں پر یقین رکھنے لگ گئی ہے مگر ایک چیز
جو انہیں پیپلز پارٹی سے مختلف کردیتی ہے وہ ہے انتقام کی سیاست کہ جن سے
انہوں نے انتقام لینا ہوتا ہے ان کو معافی کسی صورت نہیں دیتے جب تک کوئی
بڑی مصیبت ان کے گلے نہ آن پڑے اس وقت تک پچھلوں سے حساب کتاب چلتا رہتا ہے
تحریک انصاف کو اسمبلی میں لانے اور پھرہر اجلاس میں انکی شان میں قصیدہ
گوئی ایک معمول بن جائیگی جس پر یہ واک اوٹ بھی کرینگے اور احتجاج بھی مگر
یہ کام یونہی چلتا رہے گا اور رہی بات پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر سعودی
عرب میں فوج بھیجنے کی تو اس بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ پاکستانی فوج ہر
صورت سعودی عر ب جائیگی اور اس بات کا فیصلہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے
پہلے ہی کرلیا گیا تھا اجلاس کی کاروائی تو رسمی سی ہے جسے پورا کرنا بھی
ضروری ہے اگر ایوان سے منظوری کی ضرورت بھی پڑی تو مسلم لیگ ن جس طرح اپنے
باقی کے معاملات کو اسمبلی سے پاس کروا لیتی ہے ویسے ہی اس بات پر بھی وہ
اکثریت سے منظوری حاصل کرلیں گے کیونکہ اس وقت قومی اسمبلی کے 269ممبران
میں سے 188ممبران مسلم لیگ ن سے ہیں ان میں سے جنرل نشستوں پر 148،مخصوص
سیٹوں پر 34 اور اقلیتی نشستوں پر 6اراکین قومی اسمبلی ہیں جبکہ 104 سینٹرز
میں سے 26سینٹرز مسلم لیگ ن کے ہیں اسکے علاوہ آزاد اور حلیف جماعتوں کے
اراکین بھی حکومت کا ساتھ دینگے اس لیے حکومت کا اپنی مرضی کا کوئی بھی بل
لانا اور پھر اسے پاس کروانا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور ویسے بھی ہمیں
سعودی عرب کی ہر لحاظ سے امداد کرنی چاہیے کیونکہ جب بھی کبھی پاکستان پر
یا پاکستان کے حکمرانوں پر برا وقت آیا تو سعودی عرب نے ہمیشہ بڑے بھائی کی
طرح ہمارا ساتھ دیا ہمارے لاکھوں پاکستانی اپنے روز گار کے سلسلہ میں سعودی
عرب میں موجود ہیں جنرل راحیل شریف کے قیادت میں پاکستان کی فوج اس وقت
دنیا کی نمبر ایک فوج بن چکی ہے جو ہر مشکل ووقت میں سر خرو ہوئی ہے اگر
پاک فوج کو سعودی عرب جانے کا موقعہ ملا تو وہ وہاں پر بھی قبضہ گروپوں کے
عزائم خاک میں ملا سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھیں گے آخر میں وزیر اعظم
پاکستان میں محمد نواز شریف کے چند الفاظ جو انہوں نے مشترکہ اجلاس میں کہے
جس سے پڑھنے والے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کیا چاہتی ہے وزیرا
عظم نے کہا کہ ہم مینڈیٹ کی تلاش میں نہیں بلکہ ہم پارلیمنٹ سے رہنمائی
مانگ رہے ہیں،ہم ایوان کی رائے لیناچاہتے ہیں، اچھے مشوروں کو پالیسی کی
شکل دی جائے گی، کچھ مخفی نہیں رکھیں گے، چھپانے کیلئے کچھ نہیں۔ ارکان
واضح مشورہ دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، ترکی اس لئے گئے کہ ہمیں ترکی سے
کچھ انتظار ہے، ترکی کے وزیراعظم سعودی وزیر سے ملی ہیں، ترکی اور پاکستان
کی ایک رائے ہے ترکی کے صدر کی سعودی عرب اور ایران سے بات چیت کے نتیجہ کا
انتظار ہے، ہم مصالحت کیلئے کوشش کر رہے ہیں، انڈونیشیاء، ملائشیاء اور
دیگر مالک کے ساتھ بھی ترکی کے ساتھ مل کر رابطے کریں گے، سعودی عرب کی
ڈیمانڈ بارے بھی ارکان مشورہ دیں کہ ہم کیا کریں کیا نہ کریں، اگر سعودی
عرب کی جغرافیائی وحدت پر وار ہوا تو مل کر مقابلہ کریں گے۔
|