یمن تنازعہ میں پاکستان کا کردار
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
یمن کی صورت حال انتہائی
تشویشناک ہے۔ ایک مرتبہ پھر گہری سازشوں کا جال تن کے شیعہ سنی فسادات کی
راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ مختلف دانشور انجام سے بے خبر ہو کر اپنی اپنی
نظریاتی وابستگی کے مطابق مسلکی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں ۔ سر زمین
پاکستان میں بد قسمتی سے بہت سے بیرونی فنڈنگ کے وظیفہ خور موجود ہیں ۔ ان
کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اپنے محسنین کی حمائت کا علم سر نگوں نہ ہو خواہ
قومی اور ملکی مفادات داؤ پر ہی کیوں نہ لگ جائیں۔ دن بدن حالات نازک صورت
حال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ
یمن کے حوثی قبائل اور سعودی عرب کا موجودہ تنازعہ بھی عالمی طاقتوں کی طرف
سے مشرق وسطی میں شروع کی گئی Proxy Warکا ہی حصہ ہے۔ سکرپٹ رائٹر وہی ہیں
لیکن اداکار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ہم زرا مڑ کے پیچھے دیکھیں کہ
Rigional Change اور Reforms کے نام سے عراق، تیونس اور لیبیا میں جو
مداخلت کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کہ یہ اپنوں کی نادانیوں کے
ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار کا بھی نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ کی
حالیہ ریپورٹ کے مطابق سابقہ چودہ سالوں میں افغانستان، عراق، شام، پاکستان،
لیبیا اور یمن میں پندرہ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ مسلمان
اپنی تباہی کے ذمہ دار خود ہیں۔ بر وقت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی بجائے
دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ آخرت کی فکر سے بے بہرہ اور اقتدار کی
ہوس کے پچاری مسلمان حکمران خود بھی ذلیل ہوئے اور عوام الناس کو بھی رسوا
کیا۔
اگر یمن کی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہاں بھی امریکہ کا دوہرا معیار ہے
اگر ایک طرف وہ تکریت میں شیعہ ملیشیا کو سپورٹ کر رہا ہے تو دوسری طرف یمن
میں حوثی باغیون کے خلاف کاروائی کی حمائت۔ حقیقت میں یہ شیعہ سنی تنازعہ
نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس معاملے کو ہوا دے کر شیعہ سنی کو
لڑانے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ یہ لوگ اہل بیت میں سے حضرت ذیدؒ کی اولاد
میں سے ہیں اور اپنے آپ کو ذیدی بھی کہتے ہیں لیکن مسلک کے لحاظ سے حضرت
امام شافعیؒ کے مقلد ہیں ۔ اپنی مساجد میں نماز بھی شافعی مسلک کے مطابق
ہاتھ باندھ ادا کرتے ہیں ۔ بنیادی طور پہ حوثی قبائل اور حکومت یمن کا
تنازعہ سیاسی نوعیت کا ہے نہ کہ مسلکی طرز کا۔ یہی وجہ ہے کہ صنعا میں
موجودہ حملوں کے خلاف شیعہ اور سنی مل کر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ان حوثی
قبائل کے پاس جیٹ طیارے، ٹینک اور ٹینک شکن گنز بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ
اسلحہ انہیں ایران نے دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل عراق میں بھی ایران
نے سپاہ پاسداران کے لوگ بھیج کر مداخلت کی تھی ۔ لیکن ایرانی حکومت اس کا
انکار کر رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایران نے بھی انہیں اسلحہ
نہیں دیا تو پھریہ اسلحہ آیا کہاں سے؟ کہیں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے
کیلئے تو ان قبائل کو منصوبہ بندی کے تحت مضبوط نہیں کیا گیا جس طرح کہ
طالبان کے نام پر دہشت گردوں کو اسلحہ دے کر مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال
کیا جا رہا ہے۔
ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ میڈیا میں جان بوجھ کر سنی شیعہ فسادات کے طور پر
اس معاملے کو ہوا دی جارہی ہے تا کہ ایک مرتبہ پھر عراق ایران جنگ کی طرح
عرب ایران جنگ کی راہ ہموار کی جائے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کر
کے اپنے مفادات کو تحفظ دیا جائے۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے ہر دور میں
استعماری قوتوں کو کوئی نہ کوئی آلہ کار مل جاتا ہے جسے استعمال کرنے کے
بعد پھینک دیتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے ماضی قریب پر غور کریں تو کئی ایسی
مثالیں مل سکتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرق وسطی میں بپا
تمام جنگوں کے پیچھے تیل کے ذخائر ہیں اوریمن کا مسئلہ بھی مشرق وسطی کے
تیل کا ہی مسئلہ ہے۔ امریکہ اور یورپ کو سعودی تیل کی ترسیل ابنائے بابل
مندر کے رستے سے ہوتی ہے۔ خطرہ یہی تھا کہ عنقریب یہ حوثی باغی اس جگہ کا
کنٹرول حاصل کر لیں گے اور تیل کی سپلائی روک کر کئی م مشکلات پیدا کرستے
ہیں ۔اسی انجانے خوف کی وجہ سے عالمی طاقتوں کے ایماء پر اتحاد تشکیل پایا
اوریہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس جنگ کو سیاسی جنگ تک ہی محدود رکھا
جائے اور مذہبی منافرت نہ پھیلائی جائے تو بہتری اسی میں ہے۔
اس صورت حال میں حتی المقدور کوشش ہو رہی ہے کہ یمن میں باغیوں کے خلاف
کاروائی میں پاکستان کو بھی گھسیٹا جائے۔اطلاعات کے مطابق حکومتی وفد سے
سعودیہ نے فوج بھیجنے کاباضابطہ مطالبہ بھی کردیا ہے۔ اس طرح اس ’’پراکسی
وار‘‘ کو پاکستان میں دھکیلنے کی در پردہ منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ اس موقع
پر ہم پاکستانی فوج کو سلام پیش کرتے ہیں کہ مضبوط ڈپلومیسی اور دانشمندی
کا ثبوت دیتے ہوئے حکمرانوں کو ذاتی تعلقات کی بناء پر کوئی بھی جذباتی
فیصلہ کرنے یا قدم اٹھانے سے روک دیا ہے۔ کیونکہ اندرونی طور پر پاک فوج
کئی محاذون پر برسر پیکار ہے۔ اور کسی بھی ملک کو خارجہ پالیسی ترتیب دیتے
ہوئے اپنے اندرونی معاملات کا گہرائی سے جائزہ لینا بہت ضروری ہوتا
ہے۔پاکستان عالم اسلام کی عسکری لحاظ سے’’ سپر پاور ‘‘ہے۔ پاکستان کو ایسی
جنگ میں ہر گز نہیں کودنا چاہیے بلکہ ثالث اور مصلح کا کردار ادا کرنا
چاہیے ۔ اگر پاکستان کے محل وقوع کو دیکھیں تو ایک طویل سرحد ہندوستان سے
ملتی ہے جبکہ اڑھائی ہزار کلومیٹر کی سرحد افغانستان کے ساتھ ہے اور نو سو
کلو میٹر کا بارڈر ایران کے ساتھ ملتا ہے۔ باقی سمندری حدود ہیں ۔ چونکہ
ایران کی ہمدردیاں حوثی قبائل کے ساتھ ہیں اور وہ اس جنگ کے خلاف ہے۔ کسی
یکطرفہ فیصلے کی صورت میں پاکستان کی ایرانی سرحد بھی غیر محفوظ ہو جائے گی
اور سمندری حدود پر بھی خطرات منڈلاتے رہیں گے۔
یقینا سعودی عرب ہمارا دوست ملک اور محسن ہے جس نے ہر کڑے وقت میں پاکستان
کی مدد کی۔ ہمارے مقامات مقدسہ اور خصوصا حرمین شریفین وہاں پر ہیں جو
ہمارے ایمان و یقین کا حصہ ہیں۔ اگر ان کو کوئی خطرہ ہو تو ہر مسلمان کا
فرض بنتا ہے کہ اپنے ان مراکز محبت کا دفاع کرے لیکن موجودہ صورت حال میں
ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دے رہی ۔ اس وقت پاکستان ، ترکی اورمصر جیسے
مسلمان ممالک کو چاہیے کہ اس مسئلہ کے پر امن حل کی کوششیں کریں ۔ یہ موقع
ہے کہ شیعہ سنی یا عرب و عجم کی تقسیم کو ختم کرکے اتحاد کی فضاء ہموار کی
جائے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ او آئی سی کا اجلاس طلب کیا جاتا جس میں ایران کی
بھی شرکت ایقینی بنائی جاتی۔ شکایات کا جائزہ لیا جاتا۔ اگر پر امن تصفیہ
کی کوششیں ناکام ہو جاتیں تو مل کر کوئی انتہائی اقدام اٹھا یا جا تا۔ لیکن
ایسا نہیں کیا گیا۔ اب بھی وقت ہے کہ سفارتی کوششوں کے ذریعے اس خاک و خون
کے کھیل سے چھٹکارا پا کر یکجہتی کی فضاء کو ہموار کیا جائے۔ |
|