شمائلہ جاوید بھٹی
8جنوری 2012ء کو میں نے ایک کالم ’’سیاچن موسمیاتی مسئلہ بھی ہے‘‘ لکھا تھا
جس میں واضح کیا تھا سیاچن کو عام طور پر ایک فوجی مسئلے اور تنازع کے طور
پر ابھارا گیا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سیاچن ایک بہت بڑا موسیمیاتی مسئلہ
بھی ہے جو کہ عالمی برادری کے لئے گہری تشویش کا باعث ہے۔ کیونکہ
گلیشیئرسردیوں میں پانی کے ذخیرے کے طور پر کام کرتے ہیں جو کہ میدانی
علاقوں میں گرمیوں میں پانی کی دستیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمالیہ کے
گلیشیئرز انڈیا، پاکستان، چین اور نیپال کے لئے پانی کا ایک بڑا ذریعہ اور
وسیلہ ہیں۔ ورلڈ وائیڈ لائف فنڈ (WWF) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے
گلیشیئر کا 67 فیصد خطرناک حد تک پگھل رہے ہیں۔ ڈاکٹر کیٹرینا Dr
Catarina(ہیڈ آف ڈبلیو ڈبلیو ایف۔ یو کے کلائمیٹ چینج پروگرام) کا کہنا ہے
کہ شروع شروع میں ہمالین گلیشیئر کے پگھلاؤ سے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں
اضافہ سیلاب کا باعث بنے گا جبکہ بعد میں انہی دریاؤں میں خشک سالی دیکھنے
میں آئے گی جس کے نتیجے میں برصغیر کے ممالک اور چین میں حقیقی معنوں میں
اقتصادی نقصان سامنے آئے گا۔ کیونکہ یہاں توانائی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ
ہائیڈرو بجلی پر ہے۔ سیاچن گلیشیئر کے ایک ہوائی جائزے پر مبنی ایک رپورٹ
’’گارڈین اخبار‘‘ شائع کرچکا ہے۔ 25 جنوری 2010ء کو دی ورلڈ گلیشیئر
مانیٹرنگ سروسز(WGMS) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گلیشیئر اتنی تیزی سے
پگھل رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس صدی کے وسط تک یہ گلیشیئر غائب ہو جائیں گے۔
اس کالم کے چھپنے کے تقریباً تین مہینے کے بعد 7اپریل 2012ء سانحہ گیاری
سیکٹر پیش آ گیا جس میں بہت بڑا برفانی تودہ گرنے سے 139 فوجی جوان اور
گیارہ عام شہری شہید ہو گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کے مطابق
سانحہ گیاری سیکٹر کو تین سال مکمل ہوگئے آج کے دن 139دھرتی کے بیٹوں نے
گیاری سیکٹر میں ہمارے کل کو بہتر بنانے کیلئے جانوں کی قربانی دی۔
وزیراعظم نوازشریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ قوم سانحہ گیاری کے شہدا کو
خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ سانحہ گیاری کے بہادر سپوت ہمارے دلوں میں آج بھی
زندہ ہیں، قوم شہید جوانوں کی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم کی مائیں بہنیں بیٹیاں اور بزرگوں کو
شہدائے گیاری کی عظیم ترین قربانی پر فخر ہے۔ شہدائے گیاری نے ہمارے کل کے
لئے اپنا آج قربان کیا۔ پاک فوج کا یہی جذبہ قربانی عوام اور فوج کے درمیان
مضبوط جذباتی رشتہ قائم دائم رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں
ساری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے تاہم سیاچن کا مسئلہ حل ہونا چاہئے اور
سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جانا چاہئے۔ اپریل 1984ء میں بھارت کی
طرف سے ’’میگھ دوت‘‘ نامی فضائی آپریشن کے ذریعے اہم چوٹیوں اور پھر سالترو
رینج کے ساتھ زمین سے بلند تقریباً تمام مقامات پر قبضے سے قبل تک
70کلومیٹر طویل سیاچن کے بارے میں یہ تصور بھی محال تھا کہ انسانی رسائی سے
دور یہ گلیشیر دنیا کا ایسا بلند محاذ جنگ بن جائیگا جہاں دو ملکوں کی
فوجیں برس ہا برس سے ایک دوسرے کے مقابل موجود ہیں۔ شاید اسی لئے 1948ء اور
1971ء کی جنگوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کئے گئے معاہدے کشمیر
کے جنوب مشرق کے ان علاقوں میں کسی سرحدی پٹی کا تعین یا حدبندی نہیں کرتے۔
جولائی 1949ء میں کئے گئے کراچی معاہدے میں ایک جنگ بندی لائن تشکیل دی گئی
تھی جو 1972ء میں شملہ معاہدے کے بعد معمولی تبدیلیوں سے لائن آف کنٹرول بن
گئی۔ یہ پٹی سیاچن گلیشیئر کے جنوب میں گرڈ ریفرنس NJ9842 سے موسوم مقام تک
گئی۔ اس سے آگے کے علاقے کی حدبندی اس لئے غیرضروری سمجھی گئی کہ کسی کے
وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ علاقے کی بدلتی ہوئی جنگی حکمت عملی اور
تزویراتی کیفیت اسے متنازع بنا دیگی۔ اسی لئے دنیا بھر میں چھپنے والے
نقشوں میں اسے پاکستان کا علاقہ قرار دئیے جانے اور کوہ پیماؤں کو سیاچن کے
ویزے اسلام آباد سے جاری ہونے پر بھارت سمیت کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوا۔
تاہم 1983ء میں گلیشیر کی چوٹیوں پر بھارتی قبضے اور بعدازاں اس کی پیش
قدمی روکنے کے پاکستانی فوجی اقدامات کے بعد تنازع کے سفارتی حل کی کوششیں
کی گئیں۔ |