جرمنی میں اسلام۔(حصہ اوّل)
(Shahid Shakeel, Germany)
جرمنی میں اسلامی زندگی کا آغاز
دو سو ساٹھ سال قبل ہوا ، ہزاروں مسلمان جنگوں میں شریک ہوئے لیکن ان کی
پہچان اور شناخت ایک جنگجو یا فوجی تک ہی محدود رہی،فریڈرک ویلہلم کے دور
میں بیس مسلمانوں کو عبادت کیلئے ایک ہال فراہم کیا گیاجسے انہوں نے مسجد
کے طور پر استعمال کیا،دو سو سال قبل گوئٹے نے اسلام کا مطالعہ شروع کرنے
کے ساتھ اسلام کے بارے میں تمام مواد اکٹھا کیامواقع حاصل نہ ہونے پر گوئٹے
مسلمانوں کو قریب سے نہ جان سکا،انیس سو پندرہ میں جب برلن میں پہلی مسجد
کی تعمیر کا آغاز ہوا اس وقت تک اسلام ایک اجنبی مذہب تھااس وقت جرمنی میں
چند مسلمان بحیثیت ماہر تعلیم ، طالب علم یا بعض سابق جنگی قیدی رہائش پذیر
تھے ،مسجد کی تعمیر کے بعد مختلف ممالک سے مزید طالب علموں ،تاجروں اور
سفارت کاروں کی آمد شروع ہوئی سلطنت عثمانیہ اور جرمنوں کے درمیان اتحاد
پیدا ہوالیکن بنیادی طور پر جرمنی میں اسلامی زندگی کا آغاز انیس سو بیس
میں ہواانیس پندرہ میں خستہ لکڑیوں سے تعمیر کی گئی مسجد کو منہدم کر کے
انیس سو چوبیس اور ستائیس کے دوران دوبارہ اسی مقام پر نئی مسجد گنبد اور
میناروں سے تیار کی گئی جسے احمدیہ مسجد کہا جاتا ہے اس دوران انیس بائیس
میں پہلی اسلامی کمیونٹی قائم ہوئی،سولہ سال انیس سو چوبیس سے انیس سو
چالیس تک ایک اسلامی میگزین شائع ہوتا رہاانیس سو انتالیس میں پہلی بار
قرآن پاک کا جرمن زبان میں مکمل ترجمہ کیا گیا،انیس سو تیس میں پہلی اسلامک
ورلڈ کانگریس برلن میں منعقد ہوئی اور ایک اسلامی تعلیمی ادارہ قائم
ہوالیکن نازیوں نے تمام ترقی یافتہ پروجیکٹ کو ختم کر دیااور مسلمانوں پر
ظلم ڈھانا شروع کیا انہیں تعصب اور برے القاب دئے گئے،ایذا پہنچائی گئی ،کئی
لوگوں کو ملک بدر کیا اور بہت سے مسلمان قتل کر دئے گئے،نازیوں نے اپنے
مقاصد کے حصول کیلئے اسلامی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا اور یوں
مسلمانوں کا پہلا دور اختتام کو پہنچا۔
جرمنی میں مسلمانوں کا دوسرا باب انیس سو اکسٹھ میں نئے معاہدوں کے تحت
شروع ہواترکی سے مسلمانوں کی آمد بحیثیت مہمان محنت کش (مزدور)سے ہوئی تاکہ
وہ دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہونے والے ملک کی ترقی میں حصہ لیں، جرمنی کی
ترقی و خوشحالی میں ترکی خواتین بھی شامل تھیں ترکی سے آئے بیشتر لوگ غیر
شادی شدہ اور نوجوان تھے بعد ازاں شمالی افریقا اور سابق یوگوسلاویہ کے
مسلمانوں نے بھی بحیثیت مہمان لیبر جرمنی میں قدم رکھا،معاہدے کے علاوہ
دیگر مراعات حاصل ہونے اور کئی سال جرمنی میں رہائش رکھنے کے بعد مسلمانوں
نے اس ملک کو ایک نیا گھر شمار کیاحکومت نے پانچ سال بدستور رہائش رکھنے
اور کسی جرم میں ملوث نہ ہونے پر نئے امیگرینٹس قوانین بنائے اور مسلمانوں
کو کہیں بھی رہائش رکھنے کا حق دیاعلاوہ ازیں اگر یہ لوگ چاہیں تو اپنے
خاندان والوں کو بھی جرمنی مستقل لا سکتے ہیں اس قانون سے ترکوں نے فائدہ
اٹھایا اور خاندان کے ہر فرد کو جرمنی آنے کی دعوت دی،حکومت نے عبادت کیلئے
نئی مساجد اور اسلامی تعلیم کیلئے اداروں کی اجازت بھی دی۔تیسرا دور نئی
نسل سے شروع ہوا پہلی اور دوسری جنریشن کے بعد مسلمانوں کے بچوں ان کے
نواسے نواسیوں پوتوں کی پیدائش کے بعد کئی مسلمانوں کے عارضی قیام کو مستقل
کر دیا گیالیکن وقت اور حاات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں میڈیا نے بھی ترقی
کی اور میڈیا کی برق رفتاری کئی مسلمانوں کی زندگی پر گہری اثر انداز
ہوئی۔برلن کے بعد دوسری مسجد انیس سو ستاون میں ہیمبرگ اور آخن میں تعمیر
کی گئی اور انیس سو اسی کے بعد جرمنی کے تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر میں
مساجد کی تعمیرات کا آغاز ہواآج جرمنی میں دوہزار سے زائد مساجد ہیں،ایک
اندازے کے مطابق اس وقت جرمنی میں تقریباً چار میلین سے زائد مسلمان رہائش
پذیر ہیں اور مختلف مذہبی سمتوں میں ان کے نمائندے بھی موجود ہیں،مسلمانوں
کی سب سے بڑی اسلامی انجمن انیس سو بیاسی میں ترکوں نے قائم کی اس انجمن
میں مذہبی امور سے وابستہ ترک نژاد تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں
اسلامی کلچر کو آرڈینیشن کونسل قائم کرنے میں بھی کئی مسلم ممالک کے
رہنماؤں نے حصہ لیا۔دو ہزار چھ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جرمن اسلامی
کانفرنس تشکیل دی جس میں ہر سال جرمن سیاست دان ان کے نمائندے اور مسلمانوں
کی انجمن سے تعلق رکھنے والے مذہبی امور کے نمائندے شرکت کرتے ہیں اس
کانفرنس میں اسلامی تعلیم ، مساجد کی تعمیر و تبدیلی ،مسلمانوں کا تحفظ ،
انٹرنیشنل میڈیا اور دیگر مسائل پر غور کیا جاتا ہے،جرمنی میں مقیم پچاس
اسلامی ممالک کے باشندوں اور چار مختلف مذہبی سمتوں سے تعلق رکھنے والے
مسلمانوں کے بارے میں گہرائی سے تبادلہ خیال کیا جاتا ہے،جرمن مائیگرینٹس
ادارے کی تحقیق کے مطابق نصف سے زیادہ ترک جرمن شہریت اختیار کر چکے ہیں ان
کے مسائل اور دیگر مسلمانوں کے حقوق جن میں اسلامی تعلیم وغیرہ سر فہرست ہے
پر بھی بات چیت کی جاتی ہے۔جرمنی میں رہائش پذیر تین چوتھائی مسلمان سنی
عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں جو عالم اسلام میں سب سے بڑی تعداد میں ہیں شیعہ
عقیدے سے تعلق رکھنے والے سات فیصد ہیں جو ایران او ر عراق سے ہیں دوسری
بڑی تعدا علویوں کی ہے اور بہت کم تعداد میں دیگر عقائد یعنی عبادتی، صوفی
ازم یا احمدی ہیں۔
اسلامی تعلیم۔جرمن سکولوں میں اسلامی تعلیم کی کلاسز شروع کرنے پر کئی
دہائیوں سے تبادلہ خیال ہوتا رہا ،دو ہزار دس میں جرمن محقیقین نے سکولوں
میں اسلامی تعلیم دینے کی اجازت دی یہاں یہ بات قابل غور اور نہایت اہمیت
کی حامل ہے کہ جرمن حکومت نے اسلامی تعلیم کی اجازت دی لیکن اسلامی تعلیم
دینے کیلئے مسلمان اساتذہ نہیں ہیں،ایک اندازے کے مطابق مسلمان طالب علموں
کی تعداد نو لاکھ ہے اور مزید بڑھنے کے امکانات ہیں،کئی صوبائی ریاستوں نے
تیزی سے بدلتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر وسیع پیمانے پر ماڈل تجربات اور
اسلامی اسباق و نظریات کے تناظر میں جرمن زبان میں بھی اسلامیات کی کلاسز
کا اہتمام کیا لیکن اساتذہ کی کمی آڑے آئی جرمنی کے چار بڑے صوبوں میں
آزمائشی منصوبوں کے تحت آغاز ہو چکا ہے لیکن صوبہ بائرن میں مسلمانوں کی
تعدا د کم ہونے کی وجہ سے کئی معاملات میں روکاوٹ پیش آرہی ہے،حکومت کا
کہنا ہے مسلمان والدین کی خواہش پر نئے قوانین کے تحت ان کی تمام خواہشات
کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر
سکیں اور بالخصوص اسلامی تعلیم پر بھی عبور حاصل ہولیکن اساتذہ کی کمی
ہے،نو لاکھ سے زائد مسلمان بچوں کیلئے صرف تین سو اساتذہ مختلف صوبوں میں
اسلامی تعلیم کی کلاس لے رہے ہیں اور یہ تعداد بہت کم ہے،حتیٰ کہ دوہزار
چار میں اسلامی تعلیم کے فروغ کیلئے میونسٹر یونیورسٹی میں کئی مسلمان
اساتذہ کو تربیت دی گئی تاکہ مانگ پوری ہو سکے ایک اندازے کے مطابق کم سے
کم دوہزار اساتذہ کی اشد ضرورت ہے اور یہ مانگ پوری کرنے میں کئی سال لگ
سکتے ہیں،اساتذہ کی کمی اور مانگ پوری کرنے کیلئے حکومتی نمائندوں اور
اسلامی علما ء کانفرنس میں اکثر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
جاری ہے |
|