مغربی مورال پر کراس
تخلیق کار کو تخلیقی اختصاص کے مقام پر پہنچانے کے سلسلے میں قوت
تخیّل‘وسعت فکراور منفرد اسلوب وغیرہ جیسے فکری و فنی لوازمات کابنیادی رول
ہوتا ہے۔ان لوازمہ کے تناظر میں’’آزاد قیدی ‘‘کے سحر طراز افسانوں سے ظاہر
ہوتا ہے کہ مجموعہ کے خالق جناب فیصل نواز چودھری (اوسلو‘ناروے)اپنے تخیل
کی بلندی‘فکر کی وسعت اور دلنشیں اسلوب کے امتزاج کی بدولت عصری عہد کے
سیاسی‘سماجی‘تہذیبی معاشی‘ اخلاقی اورنفسیاتی مسائل کے مآل اندیش صفیر
ہیں۔بقول پروفیسر سید مسعود ہاشمی(پاکستان):
’’فیصل نواز چودھری پاکستان اور ناروے کے سماجی‘تہذیبی‘سیاسی اور نفسیاتی
مسائل کی عکاسی پر پوری دسترس رکھتے ہیں۔‘‘
ادب میں نظریۂ فن کے تعلق سے متفرق نظریات کی گہما گہمی ہر جگہ نظر آتی
ہے۔فیصل نواز چودھری نظریہ فن کی صراحت کرتے ہوئے مجموعے کے پیش لفظ میں
لکھتے ہیں کہ فن کار جس خطہ میں رہ کر فنی کام انجام دیتا ہے تووہاں کے
لکھے ہوئے ادب کو پڑھ کر وہاں کے ادبی‘معاشی‘معاشرتی اور ڈیلی لائف کے
متعلق قاری کو تمام معلومات ہونی جاہیے ۔اور فن کے منصب اور ذمہ داری کے
بارے میں موصوف کا کہنا ہے کہ ’’ہر قلم کار پر ایک ذمہ داری عاید ہوتی ہے
کہ وہ معاشرے میں اپنی تحریروں کے ذریعے تبدیلی لائے اور عوام الناس کو ایک
نئی اور ذہنی تازگی فراہم کرے۔‘‘
مذکورہ بالا خیالات کے پیش نظر فاضل افسانہ نگار ’’ادب برائے زندگی‘‘کے
قائل نظر آتے ہیں جس کا اظہار ’’آزاد قیدی‘‘کے افسانوں سے بھی صاف ہورہا ہے
۔یہ مجموعہ اٹھارہ افسانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے بیشتر افسانے پاک
وہند کے معیاری رسالوں میں شائع ہوکر قارئین سے داد تحسین حاصل کر چکے
ہیں۔کتاب کو عالمی سطح کے جن ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے پنے تاثرات سے
نوازا ہے ان میں خالد یوسف(آکسفورڈ)‘جاوید اختر
چوہدری(برمنگھم‘برطانیہ)‘پروفیسر سیّد مسعود ہاشمی(گجرات‘پاکستان)‘ جتندر
بلو(لندن)‘نصر ملک (ڈنمارک)‘مقصود الٰہی شیخ (انگلینڈ)‘فرخ صابری (لاہور
‘پاکستان ) وغیرہ شامل ہیں۔ راقم کو جب یہ علمی تحفہ بذریعے ڈاک موصول ہوا
تو کئی دنوں تک مطالعہ کرنے کے بعد اس پر کچھ لکھنے کا من بن گیا۔
شامل تصنیف افسانوں کی قرات سے مظہر ہے کہ افسانہ گار انسانیت کی اعلیٰ
قدروں کے پاسداربھی ہیں اور حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک بھی۔اپنی کہانیوں
میں انہوں نے مشرقی اور مغربی تہذیب کے محاسن و معائب کو فنی سطح پر
محققانہ نگاہ سے پیش کیا ہے اور بلا تعصب و مصلحت کے حسب مناسب اجاگر بھی
کیا ہے۔ان کے افسانے حکیم الامت علاّمہ اقبال ؔؒکے درجہ ذیل شعر کا نثری
مرقع معلوم ہوتے ہیں:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اعلیٰ تخّیل کے بل پراگرچہ فیصل نوازاپنے افسانوں میں ایک طرف مغربی تہذیب
کی اخلاقی بے راہ روی‘نسلی و علاقائی امتیاز اور مذہبی تعصب خصوصاََ۱۱/۹ کے
مشکوک واقعہ کے بعد مسلمانوں کے تئیں مغرب والوں کی بدلتی ہوئی سوچ کا نقشہ
بڑے دل پزیر اندازمیں کھینچتے ہیں
تو دوسری جانب وہ مشرقی عوام کے طبقاتی استحصال اور منجمد افکار ‘علاقائی
تعصب‘عدم مساوات اور ذات پات جیسے جاہلانہ رسم ورواج کی قلعی بھی کھول دیتے
ہیں۔بقول قمر سنھبلی
الفاظ کی تاثیر‘کہ جادو ہے زباں کا لہجے سے وہ پتھر کا جگر کاٹ رہا ہے
’’بلیک لسٹ‘‘نامی افسانے کے درجہ ذیل اقتباس سے یورپ میں مقیم مسلمانوں کے
روحانی کرب اور نفسیاتی الجھنوں کی فکر انگیزعکاسی ظاہر کی گئی ہے:
’’پوسٹ بینک میں بعض ساتھیوں کو وہ بالکل پسند نہیں تھا کیونکہ ناروے میں
ہر وہ خبر جس کا تعلق غیر ملکیوں ‘پاکستانیوں اور مسلمانوں سے ہوتا اسکا
جواب اسے دینا پڑتا بلکہ بعض اوقات تو اسے ایسا محسوس ہوتا گویا وہ جرم اس
سے ہی سر زد
ہوا ہو۔
اب اس کے پاس صرف یادیں باقی تھیں․․․․پتہ نہیں․․․․کب وہ بھی کوئی اس سے
چھین لے ؟‘‘
’’علی نے کہا ‘میرا جنگ سے کیا تعلق․․․․؟میں عراقی تو نہیں ہوں‘میں تو
نورویجن ہوں تو پھر مجھے روکنے کا کیا جواز․․․․؟
سکورٹی والا کہنے لگا کہ مجھ سے بحث مت کرو۔ مجھے جو حکم ملا ہے مجھے اس کی
تعمیل کرنی ہے․․․․․مسلمان ․․․اسلام ․․․․․
بلڈی شٹ․․․․پتہ نہیں سکورٹی والا دل ہی دل میں اسکو اور اسلام کو کتنی
گالیاں دے گیا۔
پوسٹ بینک کے ملازمین عجیب معنی خیز نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اپنا سکورٹی
کارڈ دکھاتے گزررہے تھے۔‘‘
ایک افسانہ بعنوان ’’چار ملین‘‘میں مشرقی اور مغربی لوگوں کے اخلاقی معیار
کا موازنہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مغرب والے مادیت پرستی کے
جنون میں انسانی اقدار کی تمام سرحدیں روندھے جارہے ہیں اور مشرق والے عصری
مشینی دور میں بھی فطری صالح قدروں کا احساس رکھے ہوئے ہیں۔افسانے کی کہانی
میں یورپ کی ایک ٹی ۔وی چینل ینگ جنریشن کا مورال چیک کرنے کے لئے ایک بڑے
شو کا اہتمام کرتی ہے۔افسانے میں یوہان مغربی تہذیب کی نما ئندگی کرتا ہے
اورراوی مشرقی تہذیب کا نمائندہ ہوتا ہے۔یوہان کا مورال چیک کرتے ہوئے جب
اس کے سامنے چارملین کراون کا چیک پیش کیا جا تا ہے تو وہ چار ملین کراون
پانے کی لالچ میں اپنے بیوی بچوں کی عزت نفس اور انسانی رشتوں کی پاسداری
پرمادیت کا کالا دھبہ لگاتے ہوئے طلاق نامے پر سائن کردیتا ہے۔ہر طرف سناٹا
چھا جاتا ہے اور اس کے بیوی بچے بے عزت ہو کر روتے بلکتے فنکشن ہال سے چلے
جاتے ہیں۔ہال میں موجود دیگر نورویجن عورتیں یوہان کی اس غیر انسانی عمل پر
نفرت آمیز ردعمل ظاہر کرتی ہوئی چلانے لگتی ہیں: ’’۔۔۔لالچی کتے ‘مکار‘دولت
کے بھوکے اورنورویجن سور۔۔۔‘‘ اس کے برعکس راوی‘جوفنکشن میں بطور مشرقی
تہذیب کا نمائندہ شامل ہوتا ہے‘کوجب اسی طرح چار ملین کراون کا چیک پیش کیا
جاتا ہے تاکہ وہ بھی طلاق نامے پر دستخط کرکے اپنے بیوی بچوں کو بے عزت
کرتے ہوئے مغربی مورال اپناکر خود کو ماڈرن ثابت کرے تو وہ چیک ہاتھ میں
لیکر اس پر کراس لگا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’مجھے یہ چیک نہیں چاہیے‘میری
بیوی کی ویلیو چار ملین کراون سے زیادہ ہے۔‘‘اس یہ ہمت دیکھ کرپورے ہال میں
سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ راوی نے نورویجن کا باشندہ ہونے کے باوجود یورپ
والوں کے مورال پرکراس لگایا تھا اور ان کے منہ پر یہ کہتے ہوئے طمانچہ
مارا تھا کہ اتنی مادی ترقی کرنے کے باوجود بھی تم لوگوں کا مورال کراس ہی
کے قابل ہے۔
لیکن افسانے کا کلائمکس اس وقت زبردست متاثرکن بن جاتا ہے جب راوی سے پوچھا
جاتا ہے کہ اس نے چار ملین کراون کا چیک لے کر اپنی بیوی کو طلاق کیوں نہیں
دی‘تو وہ کہتا ہے:
’’میں نے ہال پرپھر ایک مرتبہ نظر دوڑائی‘کیونکہ لوگ میرے جواب کا شدت سے
انتظار کررہے تھے۔میں نے کہا اس لئے
کہ وہ․․․․میرے بچوں کی ماں ہے۔‘‘
کتاب میں ا یک افسانہ’’دہشت گرد‘‘کے عنوان سے بھی شامل ہے۔اس افسانے میں
مغرب والوں کی انتقامی سوچ کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے
کہ کس طرح یہ لوگ ۱۱/۹ کے واقعے کو بہانہ بناکرمسلمانوں کے اچھے کام کوبھی
مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔افسانے میں راوی اور اس کی ننھی سی چھوٹی بچی
جب ریلوے اسٹیشن پر ایک زخمی کبوترپر رحم کھاکر مرہم پٹی کرنے کی غرض سے
ہاتھوں میں اٹھاتی ہیں تو پاس میں کھڑا پولیس والاان سے پوچھتا ہے کہ تم
لوگ اس کو تکلیف تو نہیں دوگے؟یہ عجیب سا سوال دونوں کو حیراں کردیتا ہے
اورراوی کی چھوٹی بچی جب پولیس والے سے پوچھتی ہے کہ آپ اس طرح کے سوال ہم
سے کیوں پوچھ رہے ہوتو پولیس والا بڑی حقارت سے کہتا ہے:
’’اس لئے کہ آپ لوگ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
مشرق میں سماجی نابراری اور امتیاز کی بدعت کو فیصل نواز چودھری نے اپنے
افسانے’’دو روٹیاں‘‘میں بڑے موثر اور دل پزیر اسلوب میں ظاہر کیا ہے۔جناب
خالد یوسف(آکسفورڈ) نے مذکورہ افسانے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’دوروٹیاں‘فیصل کا نمائندہ افسانہ ہے جسے طبقاتی استحصال اور ناہمواری کے
خلاف ایک موثر تحریر کہا جا سکتا ہے ۔اس میں ان کے مزاج کا ترقی پسندانہ
رنگ جھلکتا نظرآتا ہے۔‘‘
مجموعی طور پر تصنیف کے بیشتر افسانوں’چار ملین‘ ’بابا خواجہ‘’برف کے آنسو
‘’اوسلو کی شہزادی ‘’دوروٹیاں‘’بلیک لسٹ‘’نازی کراس‘’گھر کا راستہ‘’موٹر
وے‘’ناروے کاکیا حال ہے وغیرہ میں مشاہداتی فکر‘ انسان دوستی‘انسانیت
نوازی‘تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی پاسداری‘’طبقاتی کشمکش اور انقلابی سوچ
جیسی بہت ساری خوبیاں شفافیت کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ |