علامتی تخلیق -معنی سے
زیادہ مفہوم سے سروکار رکھتی ہے ‘کیونکہ اس کے استعاراتی نظام کی حیرت
انگیز(Wondrous) معنویت کی تفہیم کے لئے موضوعی سیاق وسباق (Subjective
Context) کا استدلالی طریقہ کار ہی کار آمد ثابت ہوتا ہے یعنی جو علامت متن
(text)میں استعمال ہوتی ہے وہ اپنی تفہیم متن کے ہی ماحول سے ظاہر کردیتی
ہے ۔ اگر قاری بین المتن (Intertext) کے ماحول کو محسوس کرنے یا سمجھنے سے
قاصر رہ گیا تو تخلیق کی صیحح تنقیدی توضیح کے برعکس یہ’’ سوال از آسماں
جواب از ریسماں ‘‘جیسا معاملہ بن جا تا ہے۔علامتی افسانے کو تخلیقی اعتبار
عطا کرنے کے لئے متن کی پوشیدہ متحرک جہتیں ایک اہم رول ادا کرتی ہیں اور
ان متحرک جہات کو ابھارنے میں تخلیق کار کی تخلیقی توانائی کو بنیادی اہمیت
حاصل ہوتی ہے۔اس تناظر میں قرب عباس (لاہور ‘پاکستان) کا "افسانہ"اپنی
موضوعاتی گہرائی ‘اسلوب کی چاشنی ‘علامتی اظہار‘پلاٹ سازی‘ ڈرامائی فضا
آفرینی اور تخلیقی زرخیزی وغیرہ جیسی تخلیقی وفنی خوبیوں کی بنا پر ایک
کامیاب افسانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔قرب عباس کی تخلیقی زرخیزی کی سراہنا
کرتے ہوئے معروف افسانہ نگا ر وحید قمر(جرمنی )لکھتے ہیں کہ ’’موجودہ عہد
کے جوچندنوجوان افسانہ نگار مجھے متاثر کر پائے ہیں‘قرب عباس ان میں
سرفہرست ہے۔ ‘‘۔اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ افسانے کے تخلیقی
بیانیہ کی سحر انگیزی قاری کو پورا افسانہ پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے
اورافسانے کا علامتی عنوان یعنی ’’پھانسی‘‘کی معنویت قاری کے ذہن پر عجیب
قسم کے تاثرات چھوڑ جاتی ہیں کہ پھانسی افسانے کا عنوان نہ ہوا بلکہ سماج
کے ان لالچی اور مفاد پرست انسانوں کے مردہ ضمیر کو پھانسی کا استعارہ
بنایا گیا ہوجو وحشیوں کی طرح معصوم انسانوں کے ارمانوں کا خون چوس کر اپنا
لالچی پیٹ بھر دیتے ہیں۔ افسانے کی سحر انگیز داستانی فضا کی تاثیریت سے
راقم کے ذہن میں جناب صابر وسیم کا یہ شعر کلبلانے لگا۔ عجیب حیرت
بکھیرتے تھے وہ داستان گو کہ شب نے جانے سے صاف انکار کر دیا تھا افسانے کے
مرکزی کرداروں میں بظاہر چار ہی کردار یعنی عبداﷲ ڈرائیور ‘وکیل صاحب‘ایس ․
ایچ ․ او(دین الہی) اور بچہ نظر آرہے ہیں لیکن دیگر ضمنی کرداروں کے علاوہ
کہانی میں دھند اور سفید گاڑی بھی علامتی طور پر ایک متحرک اور طنز
آمیز(Ironical)رول نبھا رہے ہیں۔افسانے میں کرداروں کی آمد یوں ہوتی ہیں :
’’جو ابھی ابھی سفید گاڑی یہاں سے گزری ہے، اس میں سوار تین لوگ اس کوشش
میں ہیں کہ صبح ہونے سے پہلے سپریم کورٹ تک پہنچ جائیں۔ دورانِ سفر جرم اور
مجرم انکا موضوع ہے۔۔۔ اس گاڑی کو بہت دور جانا ہے۔ لیکن۔۔۔ دھند گہری ہے،
بہت گہری ہے۔۔۔ کہ جیسے جہالت ہو۔۔۔ جہالت جیسی گہری دھند میں اس گاڑی کی
رفتار بیس کلو میٹر فی گھنٹہ سے بھی کم ہے۔ یعنی بہت آہستہ، بہت سست۔۔۔
بالکل ایسے ہی سست جیسے کسی بد نظم معاشرے کا نظام ہو عبداﷲ ڈرائیور کی
آنکھیں دھند کو کاٹ کر سامنے سڑک پر راستہ تلاش کر رہی ہیں، ساتھ ہی سیٹ پر
بیٹھے وکیل صاحب ٍ اپنے ہاتھ کو بغلوں میں دبائے، سمٹے بیٹھے ہیں اور پچھلی
سیٹ پر ایس․ ایچ ․ او دین الٰہی دراز ہے۔‘‘
مذکورہ اقتباس میں استعمال ہوئے الفاظ اور نام بظاہر عام فہم سے معلوم ہوتے
ہیں لیکن افسانے کے موضوع کے پس منظر میں جھانکنے سے عیا ں ہوجاتا ہے کہ
افسانے میں یہ الفاظ علامتی اظہار کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔سفید گاڑی
معاشرے کے اپاہیچ نظام کا استعارہ ہے اور یہ گاڑی(نظام) دھند (بکھرے پن)کی
کی شکار ہوچکی ہے۔اور اس دھند آلود ہ نظام کے ذمہ داروں کو گاڑی میں سوار
دکھایا گیا ہے یعنی قانون کے محافظ(پولیس)قانون(وکیل)اور عام
انسان(ڈرائیور)جس کی حیثیت ایک بے کار پرزے کی سی رہ گئی ہے۔گاڑی میں سوار
پولیس اوروکیل کا موضوع بحث ‘کل کی ہونے والی پھانسی ہوتا ہے اوردوران بحث
ایس ۔ایچ ۔او اپنی سروس کے دوران مجرموں کو ختم کرنے کے بہادرانہ قصے
سناسنا کر زورزور سے ہنستا رہتا ہے۔ افسانے کی قرات کے دوران یہ حقیقت کھل
کر عیاں ہوجاتی ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے علامتی طور پر بڑے ڈرامائی انداز
میں محافظوں کی سیا کاریوں ‘انصاف گھروں کے اندھے قانون اورعام انسان کی بے
کسی و بے بسی کا فن کارانہ پوسٹ مارٹم کر ڈالا ہے۔ محافظوں کے کالے کرتوت
کا نقشہ افسانے میں ایس ․ایچ ․او دین الٰہی کی زبان سے یوں کھنیچاگیا ہے:
’’او جی ‘ہم نے بڑے بڑے کمینوں کو مارا ہے۔ جب ڈپٹی صاحب ہوتے تھے تھانے
میں‘ تو سیدھا اِن کاؤنٹر ہوتا تھا۔‘‘ اس نے بات کہہ کر کش لگایا، دھواں
باہر چھوڑا جو کہ ایک قہقہے نے غائب کر دیا ۔ ایک دفعہ جی۔۔۔ میں نے بڑے
مشہور قاتل کو پکڑا۔ حرامزادے نے نو قتل کیے ہوئے تھے۔ کسی کے ہتھے نہیں
چڑھتا تھا۔ پکڑ لیا۔۔۔ وہ دو راتیں تھانے میں رہا۔۔ اس کے آڈر آگئے۔۔۔ آڈر
سرکاری نہیں۔۔ ڈپٹی صاحب کے۔۔۔ ہم موٹر وے کے پار اسے لے گئے اور وہاں جا
کر کہا بھاگ جا۔۔۔ اتنا کمینہ تھا۔۔۔ بولا تم مجھے مارنے آئے ہو، میری
زندگی لینے۔ اور میں تمہارا ہی حکم مانوں؟ نہیں بھاگتا۔۔ سینے پر گولی مارو۔۔۔
ہم نے تو کام ہی کرنا تھا جی․․․․․ بس میں نے گولی چڑھائی اور کنپٹی پر
پستول رکھ کر بولا کہ چل پھر۔۔۔ پڑھ لے کلمہ اس بے غیرت کی آنکھوں میں ڈر
نہیں تھا۔۔۔ بولا کس کا کلمہ؟ جس سے زندگی مانگی اور دے نہیں سکا؟ کہانیاں
نہ ڈال سیدھی گولی مار اور ختم کر قصے کو۔ لو جی۔۔۔ میں نے گھوڑا دبادیا۔۔۔
اسکا بھیجا نکل کر وہ پار دوسرے بَنے پر گرا۔‘‘ ایس ایچ او نے بات ختم کرتے
ہی ایک قہقہہ لگایا۔۔۔ وکیل صاحب کا بے تاثر چہرہ اٹھا اور اندھیر میں اسکا
منہ تلاش کرنے لگا۔ ڈرائیور دونوں ہاتھوں میں ا سٹئرنگ تھامے نظریں سامنے
گاڑے دھند میں سے راستہ تلاش کر کے گاڑی کو رفتہ رفتہ آگے لیے جا رہا تھا۔‘‘
اسی طرح افسانے میں قانونی محافظوں کی غیر قانونی اور شرمناک حرکات کو
ایکسپوز کیا گیا ہے اور ساتھ ہی سرکاری محافظ کے غیر شعوری طور پر اعتراف
جرم کے باوجود ایوان انصاف کے کارندے کی مصلحت پسند پالسی اور مجرمانہ
خاموشی کو بڑے سلیقے سے اجاگر کیا گیاہے: ’’ایس ایچ اورنے ایک بھرپور قہقہہ
لگایا، وکیل صاحب نے ایک مرتبہ پھر اسکے تاثرات دیکھنے کی کوشش میں اپنی
گردن پیچھے گھمائی۔۔۔۔۔۔۔وکیل صاحب کے منہ سے صرف ’’ہوں‘‘نکلا اور وہ سیدھے
ہو کر بیٹھ گئے۔‘‘
قانون کے محافظوں اور ایوان انصاف کے ذمہ داروں کی سماجی اہمیت اور کردار
سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا ہے لیکن جب یہی لوگ معاشرے کو
سنوارنے کے بجائے بگاڑنے کے موجب بن جائینگے تو انسانی معاشر ے کو
بدانتظامی کی کالی دھند میں انصاف کی روشنی کہاں سے دکھائی دے گی ۔فاضل
افسانہ نگار نے سماج کے ایسے ذمہ دار لوگوں کے غیر ذمہ دار انہ کردارکو
طنزیہ پیرائیے میں ظاہر کرنے کے بعدسماج کے دوہرے معیار کو مشاہداتی تناظر
میں‘ ایک بے بس اور لاچار غریب بچے کی قابل رحم زندگی اور موت کی کہانی
‘ایک عام انسان(عبداﷲ ڈرائیور )کے مکالمے میں بڑے درد ناک لہجے میں بیان کی
ہے۔پولیس اور انصاف کے کالے کرتوت اور مجرمانہ خاموشی پر غیر محسوسانہ
ردعمل ظاہر کرنے کے بعد افسانہ نگار عام انسان(عبداﷲ ڈرائیور)کے علامتی
کردارکو کہانی میں سامنے لاکر افسانے کے پلاٹ کو ایک نیا موڈ دیتا
ہے۔ڈرائیور عبداﷲ گاڑی میں سوار لوگوں کے مکالمے سے متاثر ہوکردلچسپ لہجے
میں وکیل کی توجہ ایک حیرت انگیز پھانسی کی طرف مبذول کراتا ہے اور افسانہ
ڈرائیور اور وکیل کے اس ڈرامائی مکالمے سے شروع ہوکرآگئے بڑھتا ہے: ’’سر جی
․․․․کیا پھانسی ․․․․مجرم کے ساتھ جرم کو بھی ما ر دیتی ہے؟‘‘ اس نے سوال
وکیل صاحب سے پوچھا‘وکیل صاحب نے اس کی بات سنتے ہی ہاتھ بغلوں میں دبائے
اور بولے ۔ ’’کہاں مرتا ہے جرم ․․․․جرم تو باقی رہتا ہے ‘اتنی پھانسیاں
ہوتی ہیں ۔قتل ‘زنا ‘چوریاں تو پھر بھی ہوتے رہتے ہیں۔جرم تو اپنی جگہ پر
رہتا ہے بس مجرم ہی مرجاتا ہے ۔‘‘ ’’سرجی ․․․میں نے اپنی زندگی میں بس ایک
ہی پھانسی دیکھی ہے ․بڑی عجیب ․․․بہت ہی ڈراونی پھانسی ․․․ اور میں جب بھی
اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں تو دن کی روشنی میں بھی ڈرلگنے لگتا ہے۔‘‘
وکیل صاحب ڈرائیور کی بات سن کر اس کی جانب کھسکے ؛’’اچھا‘ایسا کیا تھا اس
پھانسی میں؟‘‘ ’’بہت بھیانک تھی سر جی ۔‘‘ اس مکالمے کے بعد افسانہ
نگارڈرائیور کی زبان سے بچے کے کردار کی روشنی میں کہانی کو پُردرد بناتا
ہے ۔کہانی ‘فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والے ایک غریب بچے سے شروع ہوتی ہے
جو مارکیٹ میں انڈے اور ناریل بیچ کر اپنی ماں اور چھوٹی بہن کا پیٹ پالتا
رہتا تھا۔اس کی ماں بیمار ہوتی تھی اور ایک دن اسی بیماری کی وجہ سے وہ مر
جاتی ہیں۔ماں کے مرنے کے بعد وہ بچہ اپنی چھوٹی بہن کی اچھی دیکھ بھال
کرتارہتا تھا لیکن اس کی بہن ماں کی یاد میں ہمیشہ روتی رہتی تھی۔یہ چھوٹا
بچہ بڑا محنتی بھی تھا اور پھرتیلا بھی‘اگرانہیں کسی چیز کی کمی تھی تو صرف
سر چھپانے کی جگہ کی کمی تھی۔کھبی انہیں وقت پر کرایہ نہ دینے کی وجہ سے
مکان سے نکال دیا جاتا تھا اور کھبی سرکاری کنٹینر سے ان کے سامان کو
مونسپل کمیٹی والے باہر پھینک دیتے تھے ۔اس سب کے باوجود بھی وہ کچھ نہ کچھ
کما کر اپنا اورچھوٹی بہن کا پیٹ پالتا رہتا تھا لیکن ایک دن جب بھوک کی
وجہ سے اس کی بہن بیکسی کے حالت میں مرجاتی ہے کیونکہ معاشرے کے کسی ایک
فردنے اسے بھیک میں بھی کچھ نہ دیا تاکہ اس کی چھوٹی بہن بھوک کی آفت سے بچ
جاتی‘تو سماج کے اس غیر انسانی روئیے نے اس کی نفسیات پر ایسا سنگین اثر
ڈالا کہ وہ خود غیر انسانی کام کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ افسانہ نگا ر سماج کے
خوشحال افراد کے دوہرے معیار اورایک غریب اور لاچار مفلس انسان کے تیئں ان
کے غیر انسانی رویے اور سلوک پر طنزیہ انداز کی عکاسی کرتے ہوئے یہ اشارہ
بھی دیتا ہے کہ ایک معصوم بچے کو مجرم بنانے میں خود سما ج بھی کتنا ذمہ
دار ہوتا ہے۔ ایک ایسا بچہ جس کو سماج نے اس کی غریبی کی وجہ سے ٹھکرایا
تھا جب وہ فوٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے بچوں کو ان کی کرب ریز اور قابل
رحم زندگی سے زہریلا انجیکشن لگا کر چھٹکارہ دلاتا رہتا ہے تو پکڑے جانے پر
سماج کے ٹھیکیداروں کے اندر سے اچانک نسانیت کا جذبہ جاگ اٹھتاہے اورانہیں
اس مجرمانہ عمل کی سزا موت کے سوا کچھ نظر نہیں آتی ہے‘اتنا ہی نہیں بلکہ
اس کے مردہ جسم کو پھانسی پر لٹکا کرہی ان کی انتقامی پیاس بجھ جاتی ہے ‘جس
کو افسانہ نگار بھیانک پھانسی قرار دیتا ہے۔یہاں پر سوال ابھرتاہے کہ کیا
سماج خود بھی اس قسم کے جرم میں اس وقت شریک نہیں ہوا تھا جس وقت اس بچے کی
بھوکی بہن کو انہوں نے دودھ کا ایک قطرہ بھیک میں بھی نہیں دیا تھا اور وہ
روتے بلکتے مر گئی تھی ۔ افسانہ نگارسماجی دہرے پن کے اس معیار کا نقشہ بڑے
ہی حیرت زا استفہامیہ انداز میں کھینچتا ہے اور قاری کویہ سوچنے پر اکساتا
ہے کہ:
’’عجیب پھانسی تھی سر جی۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سامنے اداسی کی
شکل والی لاش۔۔۔ جو رسے پر جھول رہی تھی۔۔۔ کس کی تھی؟
مجرم کی۔۔۔؟
جرم کی۔۔۔؟
بھوک کی۔۔۔؟
نیند کی۔۔۔۔؟
یا۔۔۔۔ یا۔۔۔ انصاف کی۔۔۔۔؟‘‘ بہرحال ' قرب عباس صاحب کا افسانہ "پھانسی "
ایک ایسا سماجی افسانہ ہے جو اپنی فنی اورمعنوی خوبیوں کے لحاظ سے ہر قاری
کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نظرآرہا ہے۔ معروف ادیب جناب ابرار
مجیب(انڈیا)اس افسانے پراظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’․․․پورے افسانے کا مجموعی تاثر ایک آئرنی کی شکل میں ابھرتا ہے‘یہ ایک
کامیاب فن پارے کی نشانی ہوتی ہے۔‘‘
|