کباڑیا
(Ghulam Ibn-e-Sultan, Jhang)
م دن بھر شہر کے ہر کُوڑے کے
ڈھیر سے اپنے مفادات کے استخواں تلاش کر کے اُنھیں نو چنے اور بھنبھوڑنے کے
بعد جب پھتو کباڑیا اپنی بوسیدہ کُٹیا میں لوٹا تو اس کا جسم ٹُوٹ رہا تھا
۔ گزشتہ چند برسوں میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ پہلے اس کے ارادے
ٹوٹے ، دوست اسے چھوڑ گئے تو اس کی کمر ٹوٹ گئی، اس کے ساتھ ہی ان سے
وابستہ اُمیدیں بھی ٹوٹ گئیں،موقع پرستوں کی بے وفائی سے پیمانِ وفا کیا
ٹوٹا کہ ساتھ ہی اس کا دل بھی ٹوٹ گیا ۔ٹوٹ پُھوٹ کا یہ عمل جس سرعت سے
جاری تھا اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آج نہیں تو کل اس کی گردن بھی ٹُوٹ
جائے گی ۔وہ گزشتہ دس سال سے تنہا اس کٹیا میں زندگی کے دن کاٹ رہا تھا ۔
اس نے جو فصل بوئی تھی وہ اب کاٹ چکاتھا،اس کی زندگی کی ہر شام اس کے لیے
شامِ الم بن چُکی تھی ۔درد اور کرب کی ہوا رات بھر چلتی رہی اورجان لیوا
تنہائی اس کی چھاتی پر مونگ دلتی رہی۔عہدِ جوانی میں اس نے جن لوگوں کو
ٹُوٹ کے چاہا تھا وہ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔وہ کھری
چارپائی پر آنکھیں بند کر کے لیٹاسونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن نیند نہ
جانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔بھیانک تاریک رات اس کے مقد ر کی سیاہی کے مانند
لمبی ہوگئی تھی۔ وہ کر وٹیں بدلتا رہا مگر اس کی راتوں کی نیند تو اُڑ گئی
تھی۔ آدھی رات کے بعد اس کی آنکھ لگی تو اس نے ایک انتہائی ڈراؤنا خواب
دیکھا اور وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا ۔ سامنے دیوار پر لگے بڑے آئینے کے
سامنے وہ کھڑاتھا اس نے اپنا سراپا دیکھا۔ اس کی گدھ جیسی آنکھیں پھٹی پھٹی
تھیں۔ اس کے جسم ،بستر اور انگلیوں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے
تھے۔ اس کے سر کے لمبے اور اُلجھے ہوئے بال اس قدر غلیظ تھے کہ اس کے لیے
وبال بن گئے تھے ۔ اگرچہ اُس کے ہو نٹوں پر مکر و فریب کی مسموم شیطانی
مسکرا ہٹ پھیلی ہوئی تھی لیکن مُدتیں ہوئیں اس کی زندگی سے حقیقی مسکراہٹیں
کُوچ کر گئی تھیں۔ اُس کے بے ہنگم اور بد وضع جسم کے تما م اعضاپر گندگی کی
تہہ جم چکی تھی۔ اس نے جو بو سیدہ لبا س پہن رکھا تھا وہ میل سے چیکٹ ہو
چکا تھا ۔ اس نے یاد کیا اس کو نہا ئے ہو ئے ایک برس بیت گیا تھا ۔اس نے
چارپائی پر رکھے ایک اُجلے لباس کو دیکھاجو اس نے چھے ماہ قبل اپنے لیے
لنڈا بازار سے خریدا تھا۔ ساتھ ہی کرگس سوپ کی ایک ٹکیہ بھی رکھی تھی جو اس
نے اپنے جسم سے میل اُتارنے اور نہا نے کے لیے خریدی تھی مگر صبح صادق سے
لے کر رات گئے تک شہر میں کُوڑے کے انباروں کو پھرولنے اور اپنی ضرورت کی
اشیا کو ٹٹولنے میں اتنا وقت لگ جاتا کہ سر میں خون چُو سنے والی جُوؤں کی
بھرمار اور ان کی مسلسل ایذا رسانی کے باوجود اسے سر کھجانے کر فرصت نہ
ملتی۔یہی وجہ ہے کہ نہانے اور کرگس سوپ کے استعمال کی کبھی نو بت نہ آئی
۔اس نے پنی قوت کو مجتمع کیا اور پھر سے قسمت آزمائی اور مہم جوئی کا فیصلہ
کر لیا۔ایک بد نام پُرانے شکاری نے نیا جال تیار کرنے کا تہیہ کر لیا۔
آئینہ دیکھ کر وہ اپنے منہہ میاں مٹھو بننے لگا اور اپنی وجاہت کی تعریف
کرنے لگا ۔آج صبح اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دو پہر کے وقت دریائے جمنا کے کنا
رے جا کر غسل کرے گا اور اس کے جسم پر جو میل جم گیا ہے وہ اسے جھانویں سے
کھرچ کھرچ کر اُتار ے گا ۔ شہر کی گنجا ن آبا دی کے باہر کوڑے کے تمام ڈھیر
اس کی زندگی کی عفونت زدہ یا دوں کے امین تھے ۔ یہیں سے نصف صدی قبل اس نے
اروڑی پھرول کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کو ڑے کے یہ
ڈھیرہی زندگی بھر اس کے رزق کا ذریعہ بن گئے تھے ۔ایسے متعفن مقامات پر جو
ننگِ انسانیت درندے اس کے ہم پیشہ ،ہم مشرب اور ہم راز تھے ان میں مجمع باز
،شعبدہ باز، بگلا بھگت پینترے باز،ٹھگ، سانڈے کا تیل اور اُلّو کی آنکھ کا
سرمہ بیچنے والے عطائی ،رمال ، طوطے والے نجو می ، گیدڑ سنگھی بیچنے والے
سنیاسی ،جو تشی، منشیا ت فروش ، چو ر، اُچکے ، بھکاری ، ڈوم ، ڈھاری ،
بھانڈ، بھڑوے ، مسخرے ، لچے ، شہدے ، رجلے ، خجلے ، اُجرتی بدمعاش ،
بہروپیے ،سپیرے ، مسخرے ،بھگتے ،تلنگے اورپیشہ ور قاتل شامل تھے۔ اس دنیا
کے آئینہ خانے میں ان سب کے ساتھ اس کا قر بت کا رشتہ جوانی میں تو برقرار
رہا لیکن ضعفِ پیری کے باعث جب اس کے اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میں
اعتدال عنقا ہو گیا تو اس کے ہاتھوں چُوری کھانے والے یہ سب طوطے لمبی
اُڑان بھر گئے۔ جوانی میں وہ آدھی رات کے بعد اپنے کام کا آغاز کرتا او ر
صبح ہونے سے پہلے کوڑے کے تمام ڈھیر کھدیڑ کر وہاں سے کارآمد اشیا ٹٹول کر
نکال لیتااور ان سے اپنا بورابھر لیتا اور کُوڑے سے ملنے والی ا شیا کو
کباڑخانے میں فروخت کر کے معقول رقم کمالیتاتھا۔ ایک پرانے اروڑی پھرول
کباڑیے کی حیثیت سے شہر کے اکثر لوگ اسے جا نتے اور پہچانتے تھے لیکن اس کے
حقیر پیشے کے باعث سدا اس سے دُور ر ہتے او ر اس کو دیکھتے ہی ناک بھوں
چڑھاتے تھے۔
مسلسل شکست دل کے با عث وہ یا سیت اور قنو طیت کا شکار ہو چکاتھا اور اس کی
بے چارگی اور بے بسی اس قدر بڑھ گئی کہ اب وہ بے حسی میں بدل گئی تھی ۔ اس
کے باوجودوہ آخری بارقسمت آزمائی کرنے کا مصمم ارادہ کر چُکا تھا ۔کبھی
کبھی وہ بے ربط سی گفتگو کرتا تو لوگ اسے خبطی سمجھ کر اپنی راہ لیتے ۔ وہ
اکثر کہا کرتا تھا۔
’’اس دنیا میں ہر شخص اروڑی پھرول ہی تو ہے ۔ کون ہے جو اس دنیا میں کوڑے
کے ڈھیر سے جاہ و منصب ، منفعت اورمفادات کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے
میں مصروف نہیں ۔اب تو یہ حال ہے کہ جس طرف نظر دوڑائیں ایک جھمکا دکھائی
دیتا ہے جہاں چور، ٹھگ اور اُچکے اروڑیاں پھرول رہے ہیں اور اپنے مفادات کے
استواں ٹٹول رہے ہیں۔‘‘
مسلسل جُھک کر کوڑے کے ڈھیر سے اشیا چنتے چنتے اسے کمر میں شدید درد کا
عارضہ لاحق ہوگیا تھا ۔ گزشتہ چھے ماہ سے وہ کمر کی تکلیف کے باعث چارپائی
سے لگ گیا تھا لیکن اب اس نے کمر ہمت باندھ کر زندگی کے سفر کو نئے انداز
سے شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ وہ کئی دنوں سے کوڑے کے کسی ڈھیر کو
پھرول نہ سکا تھا لیکن وہ مہم جوئی ترک نہیں کر سکتا تھا ۔ایام گزشتہ کی
عفونت زدہ رف کاپی کے غلیظ اوراق کو پلٹتے ہوئے وہ جب بھی ناخواندہ اور اق
پر نگاہ ڈالتا تو وہ سوچنے اور بُڑبُڑانے لگتا۔وہ زیر لب کچھ کہتا مگر اکثر
لوگ یہی کہتے کہ نا معلوم یہ مخبوط الحواس اور فاتر العقل خبطی کیا جھک مار
رہا ہے۔ جان لیوا بیماریوں میں پھنسا اور ضعف ِ پیری سے نڈھال ، وہ اجل کا
پیغام سُن چُکا تھا۔اب وہ پُر نم آنکھوں سے سب لوگوں کو اپنا یہ پیغام
پہنچانا چاہتا تھا:
’’کوڑے کے ڈھیر پھرولتے پھرولتے اور مفادات کی ہڈیاں ٹٹولتے ٹٹولتے اُس کی
اُنگلیاں فگار ہو گئی ہیں ۔ سرابوں کے صحراؤں میں در بہ در اور خاک بہ سر
پھرتے پھرتے اس کے پاؤ ں میں چھالے پڑگئے ہیں ۔ اُس کے دماغ اور سینہ و دِل
پر حسرت ویاس کے کالے بادل اس طر ح چھا گئے کہ ہجوم ِ یاس و ہراس میں اُس
کی جان پہ بن آئی۔ ایڈز، کوڑھ ، جذام اور برص نے اس کے جسم و جاں پر جو
نقوش ثبت کیے ہیں وہ اس کی محرومیوں کی عبرت ناک داستان ہیں۔ اب تو رائیگاں
سفر کی دُھول ہی اس کا پیر ہن بن گیا ہے ،کاش کوئی اُس کی ناکام زندگی سے
عبرت حاصل کرے۔‘‘
اس نے کوڑے کے ڈھیر پر امید کی روشنی کو سسکتے او ردم توڑتے دیکھا اور بے
بس انسانیت کو جان کنی کے عالم میں دیکھ کر لذت ایذا حاصل کرنے والے سادیت
پسندی کے عارضے میں مبتلا درند وں کو رقص ابلیس میں مصروف دیکھا ۔ اس نے
اپنی زندگی کے یادگار دن قحبہ خانوں اور چنڈوخانوں میں گزاردیئے جہاں چشم و
لب کی جنبش سے قلب وروح اور جسم و جاں کا عقدہء دشوار حل ہونے میں دیر نہ
لگتی تھی ۔زندگی کی معمولی خوشیاں بھی اس کی کٹیا سے منہہ موڑ چُکی تھیں
اور اس کی زندگی میں وصل کی سب رعنائیاں اجل کی آہٹ سن کر دم توڑ چکی تھیں
۔
اس نے کوڑے کے ڈھیر سے محض استخواں ہی نہیں چنے بل کہ ہر ماہ کوڑے سے اسے
کئی گل نو دمیدہ ، نرم و نازک شگوفے اور مہکتی کلیاں بھی مل جا تیں ۔وہ ان
نورس پھولوں کو بڑی احتیا ط سے اٹھاتا اور ان لوگوں کے حوالے کر تا جہاں
زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئی تھیں اورجن کے آنگن ان پھولوں کی عطر
بیزی کو ترس گئے تھے ۔ اس نے خوابوں اور ان کی تعبیر وں سے آنکھ مچولی
کھیلنے کاسلسلہ جاری رکھا ۔اس نے آوازِ سگان سے کبھی گھبراہٹ محسوس نہ کی
۔وہ جانتا تھا کہ یہ خارش زدہ سگانِ راہ اس کوکوڑے کے ڈھیر پھرول کر اپنے
پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے استخواں تلاش کرنے سے نہیں روک سکتے ۔ ایسا کئی
بار ہوا کہ کالی بھیڑ یں رات کی تا ریکی میں اپنی خفت اور خجا لت چھپانے کے
لیے کوڑے کے ڈھیروں پر اپنے میمنوں کو پھینک کر رفوچکر ہو جاتیں ۔وہ ان
نوخیز میمنوں کو چراگاہ میں موجود ریوڑشامل کرنے کی کوشش کرتا ۔ کئی سفید
کوے،بگلا بھگت اور گندی مچھلیاں بھی اس دھندے میں مصروف رہتی تھیں۔ اس کے
دہشت زدہ دماغ میں دِل دہلانے والی تمنائیں سر اٹھاتیں لیکن دستکیں دیتی
ہوئی بے چہرگی ہمیشہ سد راہ بن جا تی ۔ وہ سدا اس خوف میں مبتلا رہتا تھا
کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ میمنے چراگاہوں میں پہنچنے سے پہلے دم توڑیں اور
زندگی بھر کا پچھتاوا اس کا مقدر بن جائے۔ آنے والا وقت ثابت کرتا ہے کہ
اپنی عملی زند گی کی طویل اور صبر آزما مسا فت ہی کو یہ میمنے اور کالی
بھیڑیں اپنا مستقر سمجھتے ہیں ۔ سما عت اور بصارت کے قحط کے مو جودہ زمانے
میں جب کوئی سننے اور دیکھنے والا نہ ہو تو قبر میں شور بپا کر نے کا کو ئی
فا ئد ہ نہیں۔اس کی کتا ب زیست کو سمے کی دیمک چپکے چپکے کھا تی رہی اور اس
کی زیست کا افسانہ کئی مقامات سے پڑ ھا ہی نہیں جا تااوریوں سمے کے سم کے
ثمر نے اس کی زندگی کے حالات کو غبا ر راہ بنا دیا ہے۔ اب تو اس کی زندگی
ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے مانند تھی جسے سیلِ زماں کے
تھپیڑے کسی بھی وقت ہمیشہ کے لیے مٹا سکتے تھے۔
پھتو کباڑئیے کی بیوی کا نام تمنا تھا اور وہ نینی تال کی مشہور مغنیہ
،رقاصہ اور نائکہ تھی۔ سُر اور تال سے اس کا گہرا تعلق تھا زندگی بھر پھتو
کباڑئیے کے ساتھ اس کا برائے نام سا ربط رہا ۔دو برس قبل ایک رقص اور مو
سیقی کی محفل میں ایک تماشائی اس کا عریاں رقص دیکھ کراس سے لپٹ گیا اور اس
کی شہ ر گ کا خون پی کر فرار ہو گیا ۔ سب لوگوں نے اسے ایک آدم خور بھوت کی
کا رستانی سے تعبیر کیا۔ اس حادثے کے بعد پھتو کباڑیا دل برداشتہ ہو گیا
،وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی ایک حاسد داشتہ کا کیا دھر ا ہے
جو رقابت کی آگ میں ہر وقت جلتی رہتی تھی ۔ اپنی بیوی تمنا کی راکھ کو پھتو
کباڑیے نے مٹی کے ایک بڑے مر تبان میں بند کیا اور روزانہ اس پر گلاب کے
پُھولو ں کی پتیاں نچھاور کرتا۔ ناتوانی اور جان لیوا بیماریاں معمر کباڑیے
پھتو کو مرگ ناگہانی کی جانب دھکیل رہی تھیں ۔کچھ عرصے سے پھتو کباڑیا
خدشات میں گھرا گُم سُم رہنے لگا۔ اُسے یہ خدشہ تھا کہ کہیں کُوڑے کے ڈھیر
اُسے ڈھیر نہ کر دیں۔ موقع پرستوں کی کٹ حُجتیاں سُن کراُس کی زندگی جبر
مسلسل کی طر ح کٹ رہی تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ پھتو کباڑئیے جیسے موری کے
کیڑے کے لیے عشرت کدہ ایک سقر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس نے مٹی کے غلیظ مر
تبان میں جو راکھ بھر رکھی تھی اُسے وہ ہمیشہ اپنے سرہانے کے قریب رکھتا
اور اسے دیکھ کر سکون محسوس کرتا۔ وہ اس نتیجے پرپہنچا تھا کہ اُس کی فرقت
اور غربت کے درد کا درماں صرف موت ہی کر سکتی ہے۔اپنے افیونی ساتھیوں کو وہ
یہ بات بڑے اعتماد سے بتاتا:
’’کُوڑے کے ڈھیر کی عفونت ، سڑانداورغلاظت اپنی جگہ لیکن ظالم وسفاک اور
مُوذی و مکاردرندے جوزمین کا بوجھ بنے ہوئے ہیں وہ کُوڑے سے کہیں بڑھ کر
متعفن ہوتے ہیں۔‘‘
شہر سے دُور ایک کچی آبادی سے کچھ فاصلے پر بلدیہ نے موہنی روڈ پر ایک مر
گھٹ کے لیے دو ایکڑ زمین مختص کر رکھی تھی۔پھتو کباڑیے نے مر گھٹ سے کچھ
فاصلے پر سڑک کے کنارے سر چُھپانے کے لیے ایک جُھگی بنائی اور اس میں ڈیرے
ڈال دئیے۔وہ کُوڑے سے جو اشیا چُن کر لاتا اسی جھگی میں لا کر ان کا ڈھیر
لگا دیتا۔یہ اشیا اس قدر متعفن ہوتی تھیں کہ اُن کی بد بُو کی وجہ سے وہاں
سے گُزرنا محال تھا۔ اس کے باوجود پھتو کباڑئیے کی جُھگی اور اس کے گر د
تعمیر کی گئی چاردیواری میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو جاتی ۔یہ سب لوگ
انڈر ورلڈ اور جرائم کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔شہر کے تمام عیاشوں نے پھتو
کباڑئیے کی انتہائی پُر اسرار جُھگی کو قحبہ خانے ، قمارخانے ،چنڈو خانے
اورعقوبت خانے میں بدل دیا۔ شروعات میں تو وہ مدارات میں ہر آنے والے کا
دھیان رکھتالیکن اس کے بعد وہ اپنے منہہ زور جذبات اور پاگل دِل کو اوقات
میں نہ رکھ سکا۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس کی آنکھوں کے خرابات میں بے وفا
حسینوں کی یادوں کے سائے بڑھنے لگے۔ وقت تیزی سے گُزرتا رہا انڈر ورلڈ نے
پھتو کو اپنا آلہء کار بنا لیا ۔دولت کی فراوانی اقدار کی ارزانی کی صورت
میں سامنے آئی۔ پھتوکباڑیا فتح خان بن گیا اور جھگی کی جگہ ایک محل تعمیر
ہو گیا اوراس محل میں ہر وقت رقص و سرود اور جنس و جنوں کے افسانے لکھے
جاتے ۔ مر گھٹ کے اِرد گرد ہر وقت سکوتِ مرگ طاری رہتا ۔اکثر لوگو ں کویہ
کہتے ہوئے سُنا گیا کہ مرگھٹ اور اس کے گردو نواح کے علاقے میں دیو ،بھوت
،چڑیلیں، آدم خور اورآسیب کثرت سے موجود ہیں ۔ حسیناؤں کے شباب اور ساغر و
مے سے نشا ط حاصل کرنے والوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ جگہ پر رومن
خُمریاتی دیوتا’’باخوس‘‘ کی اقلیم ہے۔ مہ جبیں حسیناؤں کی متفقہ رائے تھی
کی حُسن کی یونانی دیوی ’’ہیرا‘‘ نے بھی اسی مر گھٹ کو اپنے طلسمات اور کر
شمات کے لیے منتخب کیا ہے ۔ چندے آفتاب چندے ما ہتاب حسینائیں اور شراب و
شباب کے دلدادہ یہاں بڑی تعداد میں اکٹھے ہوتے اور شرم و حیا کو بالائے طاق
رکھ کر رنگ رلیوں میں مصروف ہو جاتے۔ تقدیر نے پھتو کباڑئیے کی زندگی میں
جو گُتھیاں ڈالیں وہ ان کا سر انکالنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔اس مر گھٹ کے
نواح میں واقع اپنے عشرت کدے میں پھتو کباڑئیے نے دیسی شراب کشید کرنے کی
بھٹی بھی لگا لی تھی ۔ ساغرو مے کے دلدادہ یہاں بے روک ٹوک آتے اورسب رند
مستی اور وجد کے عالم میں بندِ قبا سے بے نیازدنیا و مافیہا سے بے خبر وادی
ء جنوں میں مستانہ وار ناچتے اور گاتے رہتے اور رنگ رلیوں میں مصروف رہتے۔
پھتو کباڑئیے کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کی یہ شخص مافوق الفطرت عناصر کو
اپنا تابع بنا چُکا ہے۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ پھتو کباڑئیے نے باخوس
دیوتا اور ہیرا دیوی سے گیان حاصل کیا ہے۔ پھتو کباڑیے نے عجیب سوانگ رچا
رکھا تھا ،وہ اپنے لمبے ،غلیظ اور بُری طرح اُلجھے ہوئے بالوں کوانگور
اوروائین کے تازہ پتوں سے ڈھانپے رکھتا تھا ۔اُس کے سامنے سُرخ آتش سیّال
سے بھری صراحی ایک سنگِ مر مر کے تختے پر دھری ہوتی ۔نشے میں دھت یہ متفنی
اپنے دائیں ہاتھ میں آئینہ تھام لیتا اور اپنے بائیں ہاتھ میں خالی ساغر لے
کر اپنے ملاقاتیوں کو مے سے نشاط حاصل کرنے کی دعوت دیتا۔ آئینہ دیکھ کر سب
اپنا سا منہہ لے کر رہ جاتے مگر ان کی کور چشمی ،بے بصری ،ہوس اور شکم کی
بھوک انھیں اس دعوت مے میں شامل ہونے پر مجبور کر دیتی۔سب اپنی اپنی جیبیں
خالی کر کے مے ارغوانی سے اپنے پیٹ کادوزخ بھرنے کے لیے بے قراررہتے ۔ اُس
کے پہلو میں ہر روز ایک نئی حسین و جمیل دوشیزہ اپنے دائیں ہاتھ میں انگور
کا بڑا گُچھا تھام کراس میں سے انگور نوچ کر کھاتی اور دیکھنے والوں کی
جنسی اشتہا میں اضافہ کرتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ گرد و نواح سے آنے والی
حسینائیں اپنے سونے، چاندی کے زیورات اس کی نذر کرتیں اوراس کے گیان سے فیض
پانے کی تمنا اپنے دل میں لیے اس کے سامنے دل و جگر میں بھڑکنے والی عشق کی
آگ کو ٹھنڈا کرنے کی التجا کرتیں۔ حسیناؤں کی بڑھتی ہوئی توہم پرستی کی وجہ
سے پھتو کباڑئیے کی پانچوں گھی میں تھیں۔وہ نہ صرف بے تحاشا زرو مال سمیٹ
رہا تھا بل کہ حسنِ بے پروا کی بے حجابی سے بھی پنے دل اور جذبات کی تسکین
کی صورت تلاش کر لیتا تھا۔ حسن و رومان کی کیف پروروادی میں دیوانہ وار
گھومتے اور مخمور ہو کر جُھومتے رند،طوائفیں اور بھڑوے سٹھیائے ہوئیپھتو
کباڑئیے کواپنا محسن سمجھتے اور اس نا م نہاد گیانی کے لیے دیدہ و دِل فرشِ
راہ کر دیتے۔ شہر اور گرد و نواح کے وہ رسوائے زمانہ عیاش جنھیں مے و
انگبیں کی لاگ ہوتی وہ باخوس دیوتاسے نشاط اورگیان حاصل کرنے والے پھتو
کباڑئیے کے سامنے اپنے دِل کے افسانے بیان کرتے اور ہجرو فراق کی بھٹی میں
جلنے والے اپنے جگر کی آگ بجھانے کی خاطر برف میں لگی صراحی ء مے اپنے حلق
میں اُنڈیل دیتے۔ جنس و جنوں کا یہ طوفان اس قدر بڑھنے لگا کہ اس کے بگولوں
میں تما م اخلاقی اقدار خس و خاشاک کے مانند بہہ گئیں ۔ ہر حسینہ پھتو
کباڑئیے کا نام بہت عقیدت سے لیتی اور ہر مے خوار پھتو کباڑئیے کا شیدا
دکھائی دیتا۔ہر سال مارچ کی سولہ اور سترہ تاریخ کو اس مر گھٹ میں باخوس
دیوتا اور ہیرا دیوی کا میلہ لگتا جس میں گوا لیار اور راجھستان سے راجے
مہاراجے اور گھٹیا عیاش بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے۔اس میلے میں شامل ہونے
والے چڑھاوے اور نذر کی صورت میں سونا ،چاندی اور روپے پیسے پھتو کباڑئیے
کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے۔اپنی بیوی تمنا کی راکھ والے مر تبان پر ایک گل
دان سجا کر پھتو کباڑیا اتنا خوش ہوتا جیسے ہنومان نے سنجیونی بوٹی والا
پہاڑ اُٹھا کر اظہار مسرت کیا تھا۔اپنے پہلو میں اپنی مرحومہ اہلیہ تمنا کی
راکھ کے مرتبان رکھے اور اس مر تبان پرتازہ گلابوں کا گلدان سجا کروہ ماضی
کی یادوں میں کھو جاتا ۔ زندگی میں اچھے دنوں کی اس جھلک نے اس کی جسمانی
صحت بھی بحال کر دی تھی ۔ عہد پیری میں بھی وہ شباب کی باتیں دہراتا اور
حسین خوابوں کی دنیا میں کھو جاتا۔جس جگہ وہ کُوڑے کے ڈھیر دیکھتا تو اس کے
قدم بے تابانہ اس کُوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھتے مگر جلد ہی وہ اُلٹے پاؤں پلٹ
آتا۔اب اس کا شمار علاقے کے متمول لوگو ں میں ہونے لگا تھا۔ دوا علاج کے
بعد وہ جی بھر کے جنس و جنوں کے دھندے میں شامل ہو جاتا ۔
شہر اور اس کے گرد و نواح سے ناجائز تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے حکامِ بالا
کی سخت ہدایت پر بلدیہ کے عملے نے جو مہم چلائی اس سے کوئی بھی بچ نہ پایا۔
بلدیہ کے عملہ صفائی نے بلڈوزر ،کرینیں اور ٹریکٹر لے کر مر گھٹ میں واقع
پھتو کباڑئیے کے عشرت کدے اور مقبوضہ رہا ئشی پلا ٹ پر دھاوا بو ل دیا
اوربلدیہ کے خاکروبوں کو بُلا کر اس کا سامان سیم نالے میں پھینکوا دیا اور
طوائفوں کے قیمتی ملبوسات ، طبلوں اور سارنگیوں کو آگ لگا دی۔ شراب کی بھٹی
کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اس کے ساتھ ہی باخوس دیوتا اور ہیرا دیوی کی
نشانیوں کو بھی تہس نہس کر دیا۔اس عشرت کدے اور قحبہ خانے میں رندوں کی
آسائش کے سامان اور مے ارغوانی کے ذخیرے کو نیست ونابُود کر دیا۔بلدیہ کے
عملہ صفائی میں شامل کچھ لوگوں نے پھتو کباڑئیے کے عشرت کدے میں موجود
قیمتی اشیا اور نقدی کا بھی صفایا کر دیا۔یہ تاثر عام تھا کہ پھتو کباڑئیے
کے پاس بڑی مقدار میں سونابھی موجود ہے لیکن تلاشِ بسیارکے باوجودکسی کو
سونے کی ایک رتی بھی نہ ملی۔ بعض واقفانِ حال کا خیا ل تھا کہ پھتو
کباڑیاگیانی کاسوانگ رچا کر جو رقم سادہ لوح لوگوں سے اینٹھ لیتا ہے اس رقم
سے وہ ممبئی کے صرافہ بازار سے خالص سونا خریدتا ہے اور ایک مقامی بنک کے
لاکر میں محفوظ کر لیتا ہے۔ سونا تلاش کرنے والوں نے پھتو کباڑئیے کے عشرت
کدے کا کونا کونا چھان مارا لیکن کہیں سے بھی سونے کا سراغ نہ ملا تو اس شک
کو تقویت ملی کہ یقناً سونے کی بہت بڑی مقدار کسی بنک کے لاکر میں محفوظ کر
دی گئی ہے۔سب طالع آزما مہم جُو پھتو کباڑئیے کے بنک کھاتوں کے بارے میں
ٹوہ لگانے میں مصرو ف تھے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے تمام عیاش
،رقاصائیں،طوائفیں اور ڈُوم ڈھاری پہلے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہو چُکے
تھے۔ شہر اور نواحی آبادی کا کوئی بھی مکین اور اس پر اسرارمر گھٹ میں مقیم
کوئی بھی سادھومصیبت زدہ پھتو کبا ڑیے کی مدد کو نہ پہنچا۔ شہر کے سب لوگ
یہی چا ہتے تھے کہ پھتو کبا ڑیا یہاں سے نکل جا ئے اور مر گھٹ کے نواحی
علاقے کے غریب مکینوں کو اس عفونت سے نجات دلائی جائے۔ اگرچہ پھتو کباڑئیے
کی آنکھوں میں لُٹی محفلوں کی دُھول اُڑ رہی تھی اس کے باوجو داس نے اپنی
اہلیہ تمنا کی راکھ کے بہت بڑے مر تبان کو چپکے سے اُٹھایا اور ایک بوسیدہ
قبر کے سائے میں پناہ لی ۔ اپنی بیوی تمنا کی راکھ کے بڑے مر تبان کے سوا
وہ اپنے عشرت کدے سے کچھ بھی باہر نہ نکال سکا اور اس کی زندگی بھر کی جمع
پُونجی جل کر خاکستر ہو گئی۔ اس کے دِل کے سب ارمان آنسوؤں کے سیلِ رواں
میں بہہ گئے۔ اس یاس وہراس اور جان لیواتنہائی کے عالم میں وہ اپنے آپ سے
مخاطب ہو کر بولا’’ آہ!صرف پھتو کباڑیا ہی موردِ الزام کیوں؟کون ہے جو
گندگی نہیں پھیلاتا ؟ کس کا دامن غلاظت سے آلودہ نہیں اور کون قبضہ گروپ کا
آلہء کار نہیں؟گندگی تو کوڑے کے ڈھیر پر پہلے سے بکھری ہوتی ہے۔ میں تو
اپنی اُنگلیوں سے گند گی ہٹا تا ہوں اور غلاظت کے انبا ر سے کا ر آمد اشیا
تلا ش کر تا ہوں۔ مجھے مر گھٹ سے بے دخل کر دیا گیا ہے لیکن آبادیوں کو مر
گھٹ میں بدل دینے والوں کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ حیف صد حیف!
تمنا کیا گئی کہ میری جانِ ناتواں تمناؤں میں اُلجھ کر رہ گئی۔تمنا تمھیں
کیا معلوم میں تمھاری راکھ اس مر تبان میں لیے اس میں کن حسرتوں کو چُھپائے
اور اُمنگوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہوں؟میں تیری راکھ کو سونے میں تول
سکتا ہوں ۔‘‘
ابھی وہ پُردرد آواز میں بُڑ بڑا رہا تھا کہ ایک نزدیکی گہرے گڑھے سے ایک
نسوانی آوا ز آئی’’میں تو کب سے ترکِ اُلفت کا صلہ پا چُکی ہوں۔میرے فتح
خان! میرے پاس لوٹ آؤ،میں نے تو تمھارے لیے اپنے دل کا دروازہ اور بے خواب
کواڑوں کو کُھلا چھوڑ رکھا ہے۔فتح و شکست کا تعلق تو نصیبوں سے ہے لیکن تم
نے حالات کا مقابلہ خوب کیا ہے۔تم نے اُٹھائی گیروں، لوٹوں اور لُٹیروں کو
جس عیاری سے لُوٹا ہے وہ حیران کُن ہے۔تم نے تو جیب کُتروں کی بھی جیب کاٹ
لی ہے ۔سب کچھ لُٹا کر اب تو ہوش میں آ جاؤ میں اب بھی تمھاری یادوں میں مد
ہوش ہوں ۔‘‘
پھتو کباڑئیے نے یہ آواز سُنی تو وہ چونک اُٹھا۔عجیب مانوس اجنبی سی آواز
تو اُسی نزدیکی گڑھے میں سے آ رہی تھی جو اس نے د وروز پہلے اپنے مخالفوں
کو زندہ دفن کرنے کے لیے کھودا تھا۔شدید غصے اور حیرت کے جذبات سے مغلوب وہ
گڑھے کی طرف بڑھا تو یہ دیکھ کر اُس کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں ۔ایک
مہ جبیں حسینہ نیم عریاں لباس پہنے گڑھے میں فرشِ خاک پر لیٹی تھی۔وہ مضطرب
ہو کر بولا:
’’کون ہو تم ؟اس ویرانے میں تم کیوں اپنے جی کا زیاں کر رہی ہو؟اس زیاں میں
تمھارا کیا فائدہ ہے؟میں تو اپنے داغوں کی پرورش کرتا رہا ہوں تمھاری کیا
مصروفیت ہے؟‘‘
’’تمھاری یہ سادہ دلی تو مجھے مار ڈالے گی۔‘‘حسینہ نے نازو ادا سے کہا ’’
میں تمھاری بیوی تمنا ہوں،یہ تمھاری تمنا کا دوسر ا جنم ہے ۔اب کوئی دُوری
نہیں رہنی چاہیے۔تمنا کا دوسرا قدم اور دوسرا جنم دیکھو!‘‘
وہ تیزی سے قبر کی جانب گیا اور وہاں سے مر تبان اُٹھایا اور اس مرتبان کو
گڑھے میں لیے حسینہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔دِ ل کے افسانے نگاہوں کی زباں
تک پہنچنے لگے اچانک پھتو کباڑیا بولا :
’’ تمنا!تمھیں بُھوک اور پیاس لگ رہی ہوگی،میں تمھارے لیے آم کے جُوس کا
ڈبہ اور تازہ برگر لاتا ہوں۔تمھیں یاد ہے پچھلے جنم میں تمھیں یہ بہت پسند
تھے۔‘‘
’’ہاں !بالکل یاد ہے ۔‘‘تمنا نے مسکراتے ہوئے کہا’’اپنے لیے بھی بِیڑی اور
کھانے کے لیے نان اور حلیم لیتے آنا۔‘‘
پھتو کباڑیا باہر جاتے ہوئے بولا’’ٹھیک ہے ،اب میں جاتا ہوں ۔اس مر تبان کا
خیا ل رکھنا اس میں جو راکھ اور خاک ہے وہ میری یادوں کی امین ہے۔میرے دِل
کی تاریک انجمن میں اب تک ان حسین یادوں ہی سے اُجالا رہا ہے۔ اس مرتبان کی
راکھ میں میری جان ہے جو تمھارے پچھلے جنم کی داستان ہے۔‘‘
پھتو کباڑیا چلا گیا تو تمنا نے مر تبان کو ایک پتھر سے توڑ دیا ، یہ دیکھ
کر اس کی اُمید بر آئی ،اس راکھ میں تو پلاسٹک کے بڑے لفافے میں پانچ کلو
کے قریب سونا چُھپایاگیا تھا۔اس نے نئے سونے کی چمکتی ڈلیوں سے بھرا لفافہ
اپنی چادر میں چھپایا ۔گڑھے سے باہر نکلی اور تیز قدم اُٹھاتے ہوئے ایک
ٹیکسی میں بیٹھ کر ان جانی مسافت پر روانہ ہو گئی۔
کھانے پینے کی اشیا لے کر جب پھتو کباڑیا گڑھے کے کنارے پہنچاتو پُورا
ماحول ہی بدلا ہوا تھا، تمنا کا کہیں اتا پتا نہ مِلا،مرتبان کی کرچیاں
اوربکھری ہوئی راکھ دیکھ کر وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا ۔اُس کی موہوم
تمنا کا دوسرا قدم کہاں پڑا اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ دشتِ امکاں میں تمنا کا
نقش ِقدم بھی نہ پا کر اس کا سرچکرایا اور وہ منہہ کے بل دھڑام سے گڑھے میں
گر پڑااور بے ہوش ہو گیا۔
شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور ہر سُو اندھیر چھا گیا تھا لیکن مر گھٹ کی
صفائی مسلسل جاری تھی ،گڑھے بھرنے والی کرین نے اس گڑھے کو بھی بھردیاجہاں
پھتو کباڑیاسسک رہا تھا۔جو گڑھا اُس نے دوسروں کے لیے کھودا تھا خود ہی اس
میں زندہ دفن ہو گیا۔ |
|