افتخا ر مغل کی یاد میں

آزاد کشمیر کا ایک شاعر،قلمکار افتخار مغل انتقال کر گیا۔افتخار مغل کی وفات اچانک ہوئی ۔ آزاد کشمیر کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ان کے چاہنے والوں کے علاوہ سیاسی و حکومتی شخصیات نے ان کی وفات پر اخبارات کو بیانات جاری کئے،ان کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ پڑھتے ہوئے تصویریں بنوائیں اور شائع کروائیں لیکن اس سفید پوش کے ورثاء کی مالی معاونت کو کسی نے ضروری نہیں سمجھا۔افتخار مغل کی وفات کی خبر ملی تو اس کی باتیں اور یادیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔گزشتہ چند سالوں میں مظفر آباد میں مختلف تقریباًت میں اس سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ایسی ہی ایک تقریب میں افتخار مغل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے خصوصاً اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹیوں سے میری ملاقات کراتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ نے مجھ پر جو کالم لکھا وہ میرے علاوہ میری اہلیہ کو بھی بہت پسند آیا تھا‘‘۔افتخار مغل نے 1994ء میں ہفت روزہ ’’ کشیر‘‘ میں کالم لکھنا شروع کیا۔دسمبر1995ء میں میں نے افتخار مغل پر ایک کالم لکھا۔اس کالم کو افتخار مغل نے نہایت پسند کرتے ہوئے شاندار قرار دیا ۔آج پیارے افتخار مغل کی یاد میں قارئین کے لئے وہی کالم پیش ہے۔ افتخار مغل نے تو میرے اس کالم کو مزاح کا اک شاہکار قرار دیا تھا لیکن اس کی وفات کے بعد یہ کالم پڑھتے ہوئے میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔

میرا یہ کالم نہ تو سیاسی ہے نہ فرمائشی ، اور شاید اس کا موضوع میرے کالموں کے انداز سے ہٹ کر ہو ۔افتخار مغل پر کالم اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ مختلف شخصیات پر کالم لکھتے رہتے ہیں بلکہ ان کے زیادہ کالم ’شخصیات‘ پر ہی مبنی ہیں ۔میں نے سوچا کہ دیکھا جائے کہ شکاری خود کو شکار ہوتے دیکھ کر کیسا محسوس کرتا ہے ۔اب میری یہ باتیں افتخار مغل کو اچھی لگیں تو بہت اچھے ،اگر بری لگیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ ’باذوق شاعر‘ ہے اپنے تڑپنے کا خود مزا لے گا ۔

افتخار مغل نے آزادکشمیر کی سیاسی شخصیات پر کالم لکھے ،اور ایسی شخصیات پر بھی جنہیں عام زندگی میں ہم عام سی نظروں دیکھتے ہیں لیکن افتخار مغل کسی بھی شخصیت میں چھپی ہوئی اچھائیاں ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔اکثر شخصیات کو افتخار مغل نے نہایت نرم خو ،خوش اخلاق اور محبت کرنے والا تحریر کیا ہے۔اب دو باتیں ہو سکتی ہیں ،یا تو واقعی وہ افراد ویسے ہی ہیں جیسا کہ افتخار مغل نے لکھا ،یا پھر افتخار مغل نے ہر شخصیت کے خول سے ملاقات کی ،شخصیت سے نہیں ۔

میں نے جب شروع میں افتخار مغل کے کالم ’’رانگ نمبر ‘‘کی پروف ریڈنگ کی تو میں نے اس میں کئی غلطیاں نکالیں ۔ایڈیٹر صاحب کو بتایا تو کہنے لگے کہ ’’غلطیاں کالم میں نہیں تم میں ہوں گی‘کالم نویس نا صرف اردو کا پروفیسر ہے بلکہ آزادکشمیر کی معروف ادبی شخصیت بھی ہے ‘‘۔اس تعارف سے میرے ذہن میں کسی عمر رسیدہ انسان کا تصور پیدا ہوا ۔پھر ایک دن میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کلین شیو نوجوان سا آدمی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا یوں میرے سامنے آن کھڑا ہوا جیسے ابھی ابھی بس سٹاپ سے کسی کو چھیڑ کر بھاگا چلا آیا ہو ۔پھر جب اس ’کلین شیو نوجوان ‘ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’’افتخار مغل ‘‘ تو میں حیران رہ گیا اور موصوف یوں سنجیدگی سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ جیسے کوئی شرارتی بچہ شرارت کرنے سے پہلے یا شرارت کرنے کے بعد معصوم چہرہ بنا لیتا ہے ۔گفتگو ہوئی تو اس کی شخصیت کے کئی پہلو سامنے آتے چلے گئے اور شخصیت کے کئی پہلو ان کے کالموں سے بھی نمایاں ہوئے ۔ویسے ہر شے کی طرح انسان کے بھی چھ پہلو ہوتے ہیں اور ہر پہلو سے واقف ہونے تک اس بارے میں اظہار رائے مناسب نہیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ
’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ‘‘

اور ویسے بھی کئی لوگ عمر بھر ساتھ رہ کر بھی ایک دوسرے سے واقف نہیں ہوتے ۔اس لئے اپنی حاضر سٹاک بصیرت سے ہی کام لیتا ہوں اور یہ کہ افتخار مغل خود کو کتنا نمایاں کر سکا یا خود کو کتنا چھپا سکا ۔کہتے ہیں کہ انسان کی جو چار اقسام دشوار ترین زندگی بسر کرتی ہیں ان میں ایک قسم حساس انسانوں کی ہے ۔حساس انسان کا دماغ چاہے ’’کا سمک‘‘نہ ہو لیکن اس کا وجود ’’کا سمک‘‘ہوتا ہے ۔وہ تمام انسانوں میں زندہ رہتا ہے ،وہ خود کو تاریخ کے روپ میں دیکھتا ہے ،ایک ارتقائی عمل میں اپنے مثبت ترین کردار کے بارے میں سوچتا ہے ،۔۔۔سوچتا ہے ،سوچتا ہے اور پھر اپنے خون جگر سے کوئی تخلیق کرتا ہے ،لیکن اس تخلیق کی Perfection شخصیت کی پرفیکشن کی محتاج ہوتی ہے ۔افتخار مغل کبھی زمانے پر حاوی ہوتا ہے اور کبھی زمانہ اس پر حاوی ہوجاتا ہے ۔
نہ ہمت نہ قسمت نہ دل ہے نہ آنکھیں
نہ ڈھونڈا نہ پایا نہ سمجھا نہ دیکھا

افتخار مغل اس نظام کے نفاذ کا داعی بھی نظر آتا ہے جس میں ہر کام منصفانہ طور پر میرٹ کے تحت خود بخود ہو جائے ۔جس نظام میں علم کی عزت ہوتی ہے ،عہدے کی نہیں ۔جس نظام میں معلم انسانیت کا مقام بلند ہوتا ہے قوم کے لٹیروں کا نہیں ۔سوچ کی اس ’’محبوبہ ‘‘کے حصول کا کوئی طریقہ نہ پاتے ہوئے بھی افتخار مغل پر امید نظر آتا ہے ،امید ،نئے پھولوں سے ،نئی کلیوں سے ۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

آج کے دور میں ’’گھر کی مرغی دال برابر ‘‘ والا حساب ہے لیکن افتخار مغل اس کے برعکس’’گھر کی دال مرغی برابر‘‘کے قائل ہیں ۔کسی بھی عام انسان کی شخصیت کا یوں نقشہ کھینچتے ہیں کہ وہ انسان معاشرے کی کار آمد ترین ضرورت کے طور پر سامنے آتا ہے اور آدمی سوچنے لگتا ہے کہ اگر ہم اپنے اردگرد کے افراد کو ایسی ہی نظروں سے دیکھنے لگیں تو انسانوں کے درمیان باہمی اعتماد میں کتنا اضافہ ہو جائے اور اسی اعتماد کے سہارے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن سکتا ہے ۔

افتخار مغل سے میری سیاست کے موضوع پر زیادہ گفتگو تو نہیں ہوئی لیکن اس نے کبھی بھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ انہیں اپنے علاقے کی مٹی سے بے انتہا پیار ہے اور وہ اس مٹی کو ماں سمجھتے ہیں ۔میں اس موضوع پر اپنی طرف سے دلائل تو نہیں دوں گا ،تا ہم انہیں ڈاکٹر عبدالکریم ملک کی کتاب ’’زندگی کی ابتداء ‘‘پڑھنے کا مشورہ ضرور دوں گا بلکہ یہ کتاب تمام بالغ النظر نوجوانوں کو پڑھنی چاہیئے ۔اس سے قوم ،قبیلہ ،علاقہ اور مٹی کی تفصیل سے حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

آج کے دور میں جب لوگ الفاظ کی حرمت سے بے بہرہ ،اور الفاظ اپنے معنی کھوتے جارہے ہیں ،افتخار مغل کا الفاظ سے لطف اندوز ہونے کا انداز پر لطف ہے ۔میں سوچ رہا ہوں کہ جو شخص دوسروں کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں اپنی جدو جہد میں تیزی لانے کا حوصلہ واعتماد دیتا ہے ، اس شخص کی کاوشوں کی طرف کیوں نہیں دیکھا جاتا ،اس کی جدوجہد پر اسے خراج تحسین کیوں نہیں پیش کیا جاتا ۔جو شخص اپنی تمام تر توانائیاں دوسروں کی کامیابی کے لئے صرف کرتا چلا جائے ،ایسے شخص کو بھی اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے ہر دم نئے جذبے اور توانائی سے ہم آہنگ کرے ۔وہ جو دوسروں پر لکھتا رہتا ہے ،خود اس کی اپنی شخصیت کے گوشوں کو کوئی نہیں جانتا ۔افتخار مغل اپنے بھر پور کامیڈی کالم تحریر کرنے کے باوجود اپنی شخصیت میں پنہاں اور محیط اداسی چھپا نہیں سکتے ۔اب یہ اداسی ’’جنوں لگے انوں پتہ لگے‘‘والی بات ہے یا پھر ،
درد میں لذت بہت اشک میں رعنائی بہت
اے غم ہستی تیری دنیا پسند آئی بہت
والا معاملہ ہے ۔اب افتخار مغل کے بارے میں اور کیا لکھوں ،لکھنے کو تو ہر پہلو کے ’’گوشوں‘‘پر تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے لیکن اس آخری بات پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ افتخار مغل کی شخصیت ،اس کی امنگوں ،اس کی حسرتوں اور اس کی اداسیوں کو چھپانے میں ناکام رہی ہے ۔شاید ایسے ہی افراد کی وفات پر حساب کتاب کا فرشتہ آواز لگاتا ہو گا ،
’’ کھایا پیا کچھ نہیں ، گلاس توڑا چار آنہ ‘‘
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ’’آعندلیب کریں مل کے آہ وزاریاں ‘‘تا ہم یہ ضرور ہے کہ
رونے سے کچھ حاصل نہیں اے دل سودائی
آنکھوں کی بربادی اور دامن کی رسوائی
ہم لوگ تو سمندر کے بچھڑے ہوئے ساحل ہیں
اس پار بھی تنہائی اس پار بھی تنہائی
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699466 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More