سعادت حسن منٹو کے فنی امتیازات
(RAHMAT KALIM, NEW DELHI)
رحمت کلیم امواوی(جے این یو ،نئی
دہلی)
اردو افسانے کی دنیا میں واحد سعادت حسن منٹو ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا نام
زبان پر لیتے ہی اردو افسانہ پورے آب وتاب اور شباب کے ساتھ ذہن کے اسکرین
پر جلوہ گر ہوجاتا ہے۔منٹو کا شمار اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں بڑے ہی
ادب و احترام کے ستاھ ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ منٹو کو ایک خاص میلان کا
افسانہ نگار تصور کیا گیا ہے،لیکن دور اندیش اور باریک بیں قارئین کے نزدیک
سعادت حسن منٹو ہمہ جہت افسانوں کے ساتھ بلند و بالا مقام رکھتے ہیں ۔سعادت
حسن منٹو نے اپنے 42سال8ماہ اور9دن کی مختصر سی زندگی میں بے شمار لازوال
افسانوں کو سپرد قرطاس کیا اور اردو ادب کو ایک نئی توانائی بخشی ۔یہ اور
بات ہے کہ منٹو نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تو اس وقت ترقی پسند تحریک کا
شور شرابہ تھا۔لیکن اس تحریک کے ہنگامے،نعرہ بازی او رفرسودہ عقائد و
تصورات کا اثر منٹو کے ذہن پر نہیں پڑا۔مارکسیت ان کے دل ودماغ پر غالب نہ
تھی۔اگر منٹو کی پوری ادبی زندگی کااحاطہ کیا جائے تو یہ بات صاف طورپر نظر
آئے گی کہ منٹو کے خون میں گرمی تھی۔ان کے جسم میں حرارت تھی۔وہ انقلاب
پرور تھے۔وہ سماج کے باغی تھے۔ادب و آرٹ کے باغی تھے۔ان کا مقصد اشرافیہ کو
ننگا کرنا تھا۔ان کے یہاں بغاوت کی چنگاری پوری زندگی اڑتی رہی۔انہوں نے
اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی کی تلخ اور بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا
جامہ پہنایا۔کہاجاتا ہے کہ سعادت حسن منٹو فرانسیسی ادیب موپاساں اور او
ہینری سے بہت متاثرتھے۔موپاساں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب وہ کسی غیر
معمولی گرم اور شہوت انگیز عورت کا ذکر کرتا ہے تو اس کی تحریر کا کاغذ تک
گرم گوشت کی طرح پھڑکنے لگتا ہے۔منٹو نے اپنے ابتدائی دور میں فرانس اور
روس کے مشہور افسانوں کا ترجمہ کیا لیکن پھر بہت جلد اپنی الگ دنیا بسا
لی۔اپنا الگ راستہ بنایا اور اس اندازمیں رشحات قلم کو سپر د قرطاس کیا کہ
افسانو ں کی دنیا میںہلچل مچادی ۔اس کے بعد نام نہاد سماجی اشرافیہ آپ کے
قلم کے دشمن ہوگئے۔اور ایک دو نہیں چھ چھ مقدمات آپ کے خلاف چلے۔
بہر کیف متعدد الزامات اور دفعات کے باوجود آج بھی منٹو اسی طرح جوانی کے
ساتھ افسانوی ادب میں موجود ہیں جتنی جوانی تا دم تحریر تھی۔سعادت حسن منٹو
نے اپنے بارے میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ ’ہو سکتا ہے سعادت حسن مر جائے
اور منٹونہ مرے‘آج مدتوں بعد بھی منٹو کی اس پیشن گوئی کو آپ سچ ہوتا دیکھ
سکتے ہیں۔لیکن ایک سوال یہ ہے کہ آکر کیا وجہ ہے کہ منٹو آج بھی افسانوں کی
دنیا میں دیگر افسانہ نگاروں پر فائق ہیں؟جب آپ اس پر غور کریں گے تو آپ کو
اس کا جواب ملے گا کہ منٹو کے فن کا حسن یا یوں کہیں کہ ان کے افسانوں کے
فنی امتیازات نے انہیں آج بھی سبھوں پر فائق کر رکھا ہے۔ذیل میں مجملاً ہم
منٹو کے فنی امتیازات کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
منٹو کے افسانوں کا سب سے اہم اور ممتاز پہلو اس کا مضبوط و مستحکم پلاٹ ہے
۔منٹو اس انداز میں پلاٹ تیار کرتے ہیں گویا ایک ایسی خوبصورت و حسین شیشہ
پیلائی ہوئی دیوار ہو جس میں کہیں بھی کوئی چیز زائد اور کسی قسم کا نقص نہ
ہو ۔آپ منٹو کے بیشتر افسانوں کے مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچےں گے کہ
منٹو کے کسی بھی افسانے سے اگر ایک جملہ ہٹا دیا جائے تو پھر افسانے کی جان
نکل جائے گی۔اور بے ربط افسانہ معلوم پڑے گا۔یعنی ایک جملہ بھی یا یوں کہیں
کہ ایک لفظ بھی غیر مناسب اور غیر ضروری اپنے افسانوں میں استعمال نہیں کیا
ہے۔سڑک کے کنارے،ٹھنڈا گوشت،دھوا ں ،موذیل،ہتک اس قسم کے جتنے بھی افسانے
ہیں۔آپ سبھوں کا مطالعہ کر جائیے آپ کو کہیں بھی خلا کا احساس یا کسی قسم
کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔چونکہ منٹو نے نہایت ہی جامع پلاٹ پر اپنا
افسانہ تعمیر کیا ہے۔جس کو پڑھنے کے بعد دھوکہ سے بھی زبان پر یہ نہیں
آسکتا ہے کہ یہاں یہ کمی ہے،یہاں کچھ اور ہونا چاہیے یا اس لفظ کی جگہ فلاں
لفظ استعمال ہوتا تو مناسب ہوتا وغیرہ وغیرہ۔منٹو نے قارئین کیلئے ایسا
کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں ہے اور نہایت ہی مضبوط پلاٹ کے ساتھ اپنے افسانوں
کو زیر قلم کیا ہے اور یہی اس کی جان ہے۔
سعادت حسن منٹو کے افسانے کا دوسرا اور سب سے نمایاں پہلو اس کے انوکھے اور
عدیم المثال کردار و موضوعات ہے۔انہوں نے اپنے افسانوی موضوع و کردار کے
حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے
اور رات کو اطمینا ن سے سو جاتی ہے ،میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو
سکتی،میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹھکیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے
اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراﺅناخواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ
بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیا ہے۔اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر
برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں۔میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے
ہیں“۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کرشن چندر کے کردار اور موضوعات ندی کے بہت ہی صاف
شفاف پانی کا احساس بخشتے ہیں۔واقعات کا ارتقاءہو یا کرداروں کا عمل،سب صاف
اور واضح ہیں۔’بالکونی‘”پورے چاند کی رات“”زندگی کے موڑ پر“”ان داتا“”دو
فرلانگ سڑک“”آنگن“”مہالکشمی کاپل“”ٹوٹے ہوئے تارے“یہ سب زندگی کے حسن او
رمعاشرے کی بد صورتی کو بہت صاف طور پر معاشرے کے تئیں بیدار رکھتی
ہیں۔راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے موضوعات ،واقعات اور کردار کبھی
ندی کی گہرائیوں میں لے جاتے ہیں کہ جہاں پانی میلا نظر آتا ہے اور کبھی
ندی کے صاف شفاف پانی کا احساس دلاتے ہیں ۔بیدی کے افسانے ”لاجونتی“”زین
العابدین“”رحمان کے جوتے“”بھولا“”گرہن“اپنے دکھ مجھے دے دو“”ببل“”کوکھ
جلی“”اغوا“اور عصمت چغتائی کے افسانے ”اف یہ بچے“”چوتھی کا جوڑا“”ساس“”ایک
شوہر کی خاطر“”لحاف“ وغیرہ کبھی کچھ گہرائیوں میں لے جاتے ہیں اور کبھی سطح
پر رکھتے ہیں۔سعادت حسن منٹو کے افسانے اور کردار عموماً ندی کی بہت
گہرائیوں میں ہوتے ہیںکہ جہاں اندھیرا ہے ۔اندھیرے یا گہری تریکی سے یہ
کہانیاں باہرآتی ہیں۔اس سطح پر بھی جہاں پانی کا رنگ میلا ہے اور اس سطح پر
بھی جہاں پانی بہت ہی صاف وشفاف ہے ۔کرشن چندر کی کہانیاں زندگی کے جنگل کے
حسن کو لئے ہوئی ہیں،فطرت کے جلوے گرفت میں لے لیتے ہیں ،زبان وبیان کی خوب
صورتی اپنی جانب کھینچتی ہے۔رومانیت جذبوں کی شدت،استعاروں اور تشبیہوں کی
بلاغت،یہ سب ایک تربیت یافتہ مزاج اور رحجان کی دین ہیں۔اس کے کردار اپنی
آرزوؤں اور تمناؤں ،اپنی گھٹن اور اپنی کمزوریوں اور اپنی روحانی اور مادی
آسودگیوں سے صاف طور پر پہچانے جاتے ہیں۔اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے کرداروں
کے جذبات مناظر سے ہم آہنگ ہیں۔المیہ بھی رومانی ذہن متحرک ہے۔بیدی کے
کردار جنگل میں جگنوؤں کے مانند چمکتے نظر آتے ہیں۔بچوں کے جذبے تتلیوں کی
مانند اڑتے رہتے ہیں۔بوڑھوں کی نفسیات اندھیرے میں جگنوؤں کی طرح چمکتی ہے
۔”سیکس“کبھی شہد کی طرح ٹپکتا ہے ۔جنگل میں کٹیا بن جاتی ہے ،اس کٹیا میں
بسنے والوں کے رشتوں کی کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔چھوٹے چھوٹے پریواروں کی
کہانیاں۔عصمت انسانوں کی اس جنگل کی مست ہواؤں اور افراد کی نفسیاتی
پیچیدگیوں سے دلچسپی لیتی ہیں۔اکثر ان کے جذبات پتوں سے عاری ننگے درختوں
سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ایسے خوب صورت جنگی پتنگے بھی اڑتے نظر آتے ہیں کہ
جنھیں چھو لیجیے تو بس لگے انگلیوں پر کسی نے ڈنک مار دی ہے ۔عصمت بھی
کانٹے چبھاتی ہیں اور لطف لیتی ہیں ۔زندگی کے چھوٹے بڑے گھروندوں کی
کہانیاں لکھتی ہیں۔طنز اور تیز فقرے بڑے پر کشش ہوتے ہیں۔چھوٹے بڑے
گھروندوں کی کہانیاں سماجی زندگی اور کرداروں کی نفسیات کی ہم آہنگی کی
لطافت عطا کرتی ہیں۔واقعات آنکھ مچولی کے کھیلوں کی طرح دلچسپ بن جاتے ہیں
اور آنکھ مچولی کے ان ہی کھیلوں میں دبے ہوئے جذبات ابھرتے ہیں۔بعض کرداروں
کا معصوم سا احساس”تجربہ“بن جاتا ہے۔کہانیوں میں چبھن ہے ،تیزی ہے ،تناؤ
ہے۔کبھی صاف شفاف پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں کہ ہم انھیں اچھی طرح پہنچا ن
لیتے ہیں اور کبھی وہ نیچے اتر جاتے ہیں کہ جہاں پانی کا رنگ نیلا ہوتا ہے
۔نیلے رنگ کے پانی کے اندر انھیں پہنچانتے اور ٹٹولتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔اس
لئے کہ اس طرح ان کی نفسیاتی کیفیتوں کا احساس ملنے لگتا ہے ۔منٹو کے کردار
جو تاریکی سے ابھرتے ہیں اور جو واقعات کی تخلیق کے موجب بن جاتے ہیں
۔روشنی کی جانب بڑھتے تو ہیں لیکن ان کی جڑیں تاریکی میں پیوست رہتی ہیں
،جب سامنے آتے ہیں تو کبھی بہت صاف باتیں کرتے ہیں اور کبھی سرگوشیاں کرتے
ہیں،منٹو کے تمام اہم کردار تاریکی اور روشنی کے درمیان ایک پل بن گئے
ہیں۔کیچڑ اور سورج کے درمیان ان کا وجود بڑی شدت سے محسوس ہوتا ہے ۔ان کے
تحرک سے گہرائی ابھرنے لگتی ہے۔در اصل سعادت حسن منٹو کی کہانیاں گہرائی
اور تاریکی کے ابھرنے اور روشنی کی جانب پہنچنے کی اس آرزو کی کہانیاں ہیں
جو سینے میں اس طرح دفن ہے کہ اس کا صرف ہلکا ہلکا احساس ہی ملتا ہے۔یہی
وجہ ہے کہ جلن اور چبھن بڑھتی ہے اور کہانی کار کا یہ بہت بڑا مقصد ہے!چبھن
اور جلن ایسی کہ روح کپکپانے لگتی ہے ۔ایسی کہانیاں کہ جن سے روح کانپ جائے
اردو فکشن میں موجود نہیں ہیں۔منٹوکی کہانیاں اس لحاظ سے بہت اہم ہوجاتی
ہیں کہ کردار اور فن کا ر ایک دوسرے میں جذب ہیں۔اپنے کرداروں کو جاننا اور
گہرائی میں اتر کر ان کی جڑوں کو پانا در اصل خود کردار بن جاتا ہے اور یہ
سب منٹو کے یہاں خوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ واضح کرتا
چلوں کہ منٹونے اپنے افسانوں میں زندگی کے تضاد کو بھی موضوع بنا کرپیش
کیاہے۔انہوں نے سیاسی ،معاشرتی اور اخلاقی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا
ہے۔اس میں انہیں جو حیرت انگیز تضاد نظر آتا ہے وہ ان کے دل و دماغ پر گہرا
تائثر چھوڑتا ہے۔اس ضمن میں ’نعرہ‘ان کا بہت ہی معروف افسانہ ہے۔جس میں
طبقاتی فرق کو منٹو نے بھرپور طریقے سے دکھانے کی کوشش کی ہے۔یہ ہمارے
سماجی استحصال کی کہانی ہے۔’ٹوبہ ٹیک سنگھ،پھندے،سڑک کے کنارے اور بانچھ
وغیرہ منٹو کے کامیاب ترین افسانے ہیں۔جس میں منٹو کا فنی شعور ابھر کر
سامنے آتا ہے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ میں ہندستان کے بٹوارے کا المیہ پیش کیا
ہے جو کہ سیاسی اور سماجی حالات کا آئینہ دار ہے۔جس کا اثر بھولے بھالے
انسانوں کے ساتھ ساتھ پاگلوں کی زندگی پر بھی شدید طور پر پڑا۔یہ کہانی
افسانوی ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے کہ جہاں رک کر ،ٹھٹھک کر کچھ
دیکھنے ،کچھ محسوس کرنے اور کچھ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔تقسیم ہند کے
المیہ پر اردو ادب میں نہ جانے کتنے افسانے لکھے گئے۔لیکن اس بڑی ٹریجڈی کا
سب سے اہم اور ممتاز عنوان سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ہے۔یہ
افسانہ درد کے رشتے کی لازوال کہانی ہے۔
ایک دوسری بات جو بہت حد تک سچائی پر مبنی ہے وہ یہ کہ منٹو کا تخلیقی تصور
اپنے عہد کے ادیبوں سے مختلف تھا۔منٹو حقیقت نگاری کے خالص تصور کور د کرتا
ہے۔ان کا ماننا ہے کہ زبان یافن آلائش سے بنتا ہے۔نیز ادب کی ادبیت اپنی
الگ نوعیت رکھتی ہے۔منٹو نے ادب میں ایسے بے لاگ تخلیقی تصور کو اردو
افسانے میں رائج کیا جو اس سے پہلے اردو افسانے کی تاریخ میں دور دور تک
نظر نہیں آتا۔منٹو کے افسانے اس دور کے سیاسی ،سماجی حالات کے پیداوار
ہیں۔انہوں نے طوائفو ں کی اصل زندگی کی مظلوم تصویر اور مردو عورت کے جنسی
تعلقات کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ہتک،ٹھنڈا گوشت،بو ،کالی
شلوار،پانچ دن،دھواں ،بلاﺅز،خوشیا ،کبوتر اور کبوتری اور وہ لڑکی وغیرہ
جیسے افسانوں میں منٹو نے جنس نگاری کو بہت ہی فکری لطافت اور فنی بصیرت کے
ساتھ پیش کیا ہے۔ان افسانوں کو اگر اردو فکشن کاشاہکار کہا جائے تو شاید
غلط نہ ہوگا۔منٹو کے عہد کے افسانہ نگار بیشتر وقت کی ضرورت اور حالات سے
بے نیاز تھے۔لیکن منٹو نے زمانے اور حالات سے آنکھیں نہیں چرائیں۔بلکہ
انہوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کی ہیں۔اور یہ کسی بھی فنکار کے
لیے سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے اور امتیازی وصف بھی۔
علاوہ ازیں سعادت حسن منٹو کے افسانوں کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ ان
کے یہاں خارجی عوامل کوزیادہ اہمیت نہیں ملتی۔صرف ٹول کے طور پر آپ نے
ظاہری عناصر کااستعمال کیاہے۔جبکہ دوسرے افسانہ نگاروںکے یہاں خارجی عوامل
کا بول بالا ہے۔منٹو ہر طبقہ کے نفسیات کو پڑھتے اور دیکھتے ہیں پھر افسانے
میں اس کردار کے بطون میں آپ داخل ہوجاتے ہیں اور بہت شاطرانہ طور پر منٹو
قاری اور کردار کے درمیان سے نکل جاتے ہیں اور قاری کو پتہ بھی نہیں چلتا
ہے ،وہ مستقل کردار سے جڑا رہتا ہے اور ایک دوسرے سے مکالمہ کرتا رہتاہے۔سب
سے بڑی خاصیت منٹو کے قلم کی یہ ہے کہ انسانوں کو انسان کے طور پر دکھاتا
ہے،شر وخیر دونوں پہلو والے انسان کو دکھاتا ہے۔منٹو حقیقت پرست تھے ،یہ
اور بات ہے کہ منٹو کی نظر سماج میں موجود اچھائیوں پر نہیں پڑی بلکہ خرابی
اور کج روی پر ٹھہری۔منٹو نے اس بات کی دانستہ طور پر کوشش کی ہے کہ معاشرے
کی ایسی غلاظت جو ڈھکی چھپی ہے اس کوواشگاف کیا جائے اور آپ نے کیا بھی۔ جس
کی وجہ سے آپ پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔
منٹو کے افسانوں میں جو جنسیت اورعریانیت خوب نظر آتی ہے۔وہ منٹو کی خود
ساختہ نہیں ہے۔بلکہ وہ سماج کا ہی مخفی اور مضبوط پہلو ہے۔اور جب منٹو نے
اس کی تصویر کشی کی تو ظاہر سی بات ہے عریانی کو کیسے پردے میں رکھا جا
سکتا تھا۔انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ”زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے
ہیںاگرآپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے،اگر آپ ان افسانوں کو
برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔مجھ
میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔میری تحریر میں کوئی نقص
نہیں“۔
سعادت حسن منٹو کے افسانے کاطورتعمیر اس کے فن کی سب سے زریں خصوصیت
ہے۔چونکہ افسانے کی تعمیر میں صرف چند جملوں کو ہی کلیدی حیثیت حاصل ہوتی
ہے،جن سے آفسانے کا آغاز ہوتا ہے ۔منٹو کا افسانہ جب شروع ہوتا ہے تو کب
قاری اس افسانے کے کردار سے مکالمہ کرنے لگتا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا
۔اور پھر آغاز،درمیان ،اختتام تک پورے افسانے میں صرف قاری اور کردار ہی
ہوتے ہیں۔درمیان میں کوئی حائل نہیں ہوتا ۔اور جیسے جیسے منٹو کاا فسانہ
آغاز سے انجام کی طرف بڑھتا ہے۔قاری پر پوری طرح غالب آتا رہتا ہے اور اخیر
میں پوری طرھ جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔اور ایک احساس کے ساتھ ہمیشہ کیلئے
قاری کے ذہن میں وہ افسانہ بیٹھ جاتا ہے۔
منٹو کے فنی امتیازات میں سے سب سے زیادہ اہمیت ووقار کے حامل آپ کا
نفسیاتی شعور ہے۔منٹو کو انسانی نفسیات پر مکمل عبور حاصل ہے۔چونکہ منٹو ہر
طبقہ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے،لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی نفسیات میں اتر کر
مشاہدہ بھی کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے عہد میں آپ کے پائے کا دوسرا
کوئی افسانہ نگار انسانی نفسیات پر اس انداز میں کنٹرول نہیں رکھتا ہے۔آپ
نے باضابطہ انداز میں کچھ افسانے اس مقصد کے ساتھ لکھے کہ کردار کی نفسیاتی
حقیقت کو بے نقاب کر سکیں۔خوشیا،شوشو،بلاﺅز،دھواں،کالی شلوار اس میں نمایاں
مثال ہیں۔جہاں تک آپ کے انداز بیان کا سوا ل ہے تومیں یہ واضح کر دوں منٹو
نے عام فہم اور معمولی باتو ں کو بھی اس انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ غیر
معمولی بن گئی اور لوگوں کی توجہ کا مرکز۔لفظوں کے انتخاب میں وہ ایک خاص
طرح کی جد ت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کہیں طنز کے تیر چلاتے ہیں تو کہیں
ظرافت،تو کہیں سادہ سی بات کو سادہ سے لفظوں میں سمیٹ کر قاری کے دلوں میں
اتار جاتے ہیں۔کردار کے مکالمے کو کردار کی فطرت سے ذرہ برابر بھی اوپر
نہیں اٹھاتے۔بلکہ کردار کے عین مطابق مقالمے کا استعمال کرتے ہیں۔آپ کی
زبان بے باک،لہجہ تیکھا اور طنز کے نشتر لیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے
کامیاب افسانوں کو ایک بار پڑھ کر اسے زندگی بھر بھلانا ممکن نہیں۔اور یہی
ایک چیز کسی بھی فنکار کے فن کے حسن کو دوبالا اور ممتازکر تی ہے۔
کتابیات
٭ سعادت حسن منٹو:حیات اور کارنامے،از برج پریمی
٭منٹو ایک مطالعہ:از ،وارث علوی
٭منٹو شخصیت اور فن:از ،پریم گوپال متل
٭منٹو شناسی:از،شکیل الرحمن
٭سعادت حسن منٹو :اپنی تخلیقات کی روشنی میں:از،محمد محسن
٭منٹو نوری نہ ناری:از،ممتاز شیریں
٭جدیدیت کے بعد:از پروفیسر گوپی چند نارنگ |
|