قومی اسمبلی کے اس حلقے میں 23
اپریل کو ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے، ایک عام سا ضمنی انتخاب دیکھتے ہی
دیکھتے ’’ہاٹ ایشو‘‘ کا روپ دھار گیا ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یمن
بحران پر ہورہا ہے لیکن وہاں بھی اس ضمنی انتخاب کی باز گشت سنی گئی۔ پرنٹ
اور الیکٹرانک میڈیا پر یہی معاملہ چھایا ہوا ہے، آخر اس حلقے میں ایسا کیا
ہے، جو پوری قوم اس پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کراچی اور دیگر شہروں میں متحدہ قومی موومنٹ کے چاہنے
والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اسی طرح اس کے مخالفین کی تعداد بھی کوئی
کم نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کا مرکز کراچی اور سندھ کے دیگر شہری
علاقے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ جارحانہ سیاست کرتی رہی ہے، جبکہ مخالف جماعتوں
کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑتی تھی۔ ہم ایک عرصے سے یہاں انتخابات کے
دوران جارحانہ اور دفاعی سیاست کے مناظر دیکھتے آئے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کبھی بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں
پر سمجھوتا نہیں کرتی، وہ انتخابات کا بائیکاٹ تو کرلیتی ہے مگر جہاں سے وہ
جیت سکتی ہو، اس سیٹ پر کسی دوسری جماعت سے سمجھوتا کرکے کبھی اپنے امیدوار
کو دستبردار نہیں کراتی۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں جماعت اسلامی اور ایم کیو
ایم دونوں موجود تھیں۔ ایم کیو ایم نے نشتر پارک میں بڑا عوامی جلسہ کیا
تھا، جس سے نواز شریف اور الطاف حسین سمیت بہت سی جماعتوں کے قائدین نے
خطاب کیا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی خواہش تھی کہ ایم کیو ایم کراچی اور
حیدر آباد میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے مگر وہ نہ مانی، یہاں تک کہ اسلامی جمہوری
اتحاد کے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور احمد کے مقابلے میں بھی امیدوار کھڑا
کیا اور تمام تر مذاکرات کے باوجود اپنے امیدوار کو دستبردار نہیں کرایا،
جس کی وجہ سے پروفیسر صاحب کو شکست بھی کھانا پڑی۔
تیسری بات، ایم کیو ایم علاقوں پر سیاسی کنٹرول کو بہت اہمیت دیتی ہے، یہی
وجہ ہے کہ کراچی میں مختلف علاقوں میں ’’انٹری‘‘ ڈالنے کے لیے سیاسی
جماعتوں میں باقاعدہ مورچہ بند جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ کسی جماعت کے کارکنوں
کے لیے دوسری جماعت کے علاقے میں جاکر جھنڈے لگانا یا چاکنگ کرنا کسی جنگی
مہم سے کم نہیں ہوتا۔ جنگوں کے متعلق آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں فوج نے اس
علاقے پر قبضہ کرلیا، فلاں فوج اس علاقے سے پسپا ہوگئی، یہی صورت حال کراچی
کی ہے، یہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان علاقے تقسیم ہیں۔ لیاری، ملیر کے
مضافات، گڈاپ اور شہر میں جہاں جہاں سندھی بولنے والے ہیں، وہاں پیپلز
پارٹی کسی کو پھڑکنے نہیں دیتی۔ بنارس، شیر پاؤ کالونی وغیرہ پر اے این پی
اپنا حق جتاتی ہے، کیماڑی اور محمود آباد پر ن لیگ کے بااثر افراد کی گرفت
ہے، ائیرپورٹ کے سامنے علاقوں گرین ٹاؤن، گولڈن ٹاؤن، عظیم پورہ وغیرہ
پنجابی قوم پرستوں کے پاس ہیں، گلشن حدید میں سندھی قوم پرستوں نے پنجے
گاڑھ رکھے ہیں۔ مرکز شہر اور وہ علاقے جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے،
وہاں ایم کیو ایم کی مرضی کے بغیر چاکنگ ہوسکتی ہے اور نہ کوئی جھنڈا لگ
سکتا ہے۔
این اے 246 کو سمجھنے کے لیے یہ تینوں باتیں آپ کے سامنے رہنی چاہئیں۔
جارحانہ سیاست، نشستوں پر کوئی سمجھوتا نہ کرنا اور اپنے علاقوں میں
مخالفین کے لیے نو انٹری کا فارمولا۔ اب ہوا یہ کہ ہر جماعت اپنے اپنے
علاقے پر قبضہ جمائے بیٹھی تھی، ہر جماعت کا علاقہ دوسری جماعت کے لیے نوگو
ایریا تھا، جو بھی مخالف جماعت کے علاقے میں انٹری ڈالنے کی کوشش کرتا تو
اس پر لڑائی چھڑ جاتی۔ ابھی یہ چکر چل ہی رہا تھا کہ گزشتہ عام انتخابات
میں تحریک انصاف نے خاموشی کے ساتھ کراچی میں انٹری ڈال دی۔ اس انٹری نے
برسوں سے قائم سیاسی گرفتوں کو ہلاکر رکھ دیا، اس انٹری سے ہر جماعت متاثر
ہوئی اور اس سونامی کے سامنے ایم کیو ایم کے علاوہ باقی تقریباً تمام
جماعتوں نے پسپائی اختیار کی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے کراچی کی
انتخابی سیاست بالکل بدل گئی ہے، پی ٹی آئی نے ساڑھے 8 لاکھ ووٹ لے کر شہر
کی سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا ہے، چوں کہ سیاسی طورپر ایم کیو ایم شہر پر
چھائی ہوئی تھی، اس لیے پی ٹی آئی کی اس انٹری نے سب سے زیادہ ایم کیو ایم
کو پریشان کیا ہے۔
پہلے لکھ چکا ہوں کہ ایم کیو ایم ہمیشہ جارحانہ سیاست کرتی ہے، وہ تند وتیز
بیانات سے ایسا ماحول بنادیتی ہے جس کی وجہ سے مخالفین خوف کے مارے دبک
جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور مرحوم نورانی میاں ایم کیو ایم کو ہمیشہ برابر
کا جواب دیتے رہے مگر کچھ وجوہ کی بنا پر ان دونوں کا کردار محدود ہوتا گیا،
جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو کوئی اسی کے انداز میں جواب دینے والا نہیں
تھا، یہ کمی پی ٹی آئی نے پوری کردی، عمران خان نے ایم کیو ایم کے مقابلے
میں دفاع کی بجائے جارحانہ طرز عمل اختیار کیا، جس سے ایم کیو ایم کے
مخالفین کے حوصلے بلند ہوئے اور شہر میں سیاسی طورپر ایک طرح کا توازن قائم
ہوگیا۔
اب ضمنی انتخاب کی طرف آئیں، این اے 246 کراچی کا مرکزی حلقہ ہے اور سب سے
بڑی بات یہ کہ ایم کیو ایم کا مرکز نائن زیرو اسی حلقے میں قائم ہے۔ ایم
کیو ایم یہاں سے ہمیشہ ’’بھاری‘‘ مارجن سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس حلقے سے
الطاف حسین نے اگر کسی کھمبے کو بھی ٹکٹ دیا ہے تو اسے بھر پور ووٹ پڑے ہیں۔
خالص مہاجر آبادیوں پر مشتمل اس حلقے سے ایم کیو ایم نے کئی بار سندھی
امیدوار کھڑے کیے اور وہ کامیاب رہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے ایم
کیو ایم کے ٹکٹ پر نبیل گبول کامیاب ہوئے، انہیں ایک لاکھ 31 ہزار کے قریب
ووٹ ملے، ایم کیو ایم کے لیے یہ کوئی اہم بات نہیں تھی، اصل چیز جس نے ان
کے کان کھڑے کیے وہ پی ٹی آئی کی کارکردگی تھی، یہاں سے تحریک انصاف کے ایک
غیر معروف امیدوار نے کوئی مہم چلائے بغیر 31 ہزار ووٹ لیے، ایم کیو ایم کے
لیے یہ واضح طورپر خطرے کی گھنٹی تھی۔
ضمنی انتخاب میں اگر تحریک انصاف صرف اپنا امیدوار کھڑا کردیتی تب بھی ایم
کیو ایم کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اصل مسئلہ یہ ہے پی ٹی آئی نے ناصرف
یہ کہ اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے بلکہ وہ ایم کیو ایم کے ’’زیر کنٹرول‘‘
علاقے میں مہم بھی چلا رہی ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان نے پوری کردی، جو سخت
دھوپ اور خوف کے عالم میں بھی ہزاروں افراد کی ریلی لے کر عین نائن زیرو کے
سامنے جا دھمکے۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی، پی ٹی آئی ایم کیو ایم کے خلاف
انتہائی جارحانہ مہم چلا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے پہلی بار ایسا محسوس ہورہا
ہے کہ ایم کیو ایم دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز پر ایم
کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے پریس کانفرنس کرکے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ
پی ٹی آئی کو جناح گراؤنڈ نہ آنے دیا جائے اور پھر سب نے دیکھا عمران خان
جناح گراؤنڈ بھی گئے اور ان ہی لوگوں نے ان کا استقبال کیا جو انہیں روکنے
کا مطالبہ کررہے تھے۔
اس ضمنی انتخاب کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے، کیوں کہ یہ رینجرز
آپریشن کے بعد ہورہا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے اس آپریشن کے نتیجے میں
ایم کیو ایم کا گراف گرا ہے، ایم کیو ایم یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ نائن
زیرو پر چھاپوں کے باوجود عوام آج بھی اس کے ساتھ ہے، اس لیے وہ اس انتخاب
میں جان لڑارہی ہے۔
ضمنی انتخاب کا نتیجہ تو واضح ہے، ایم کیو ایم کی اس حلقے میں جڑیں گہری
ہیں، صرف دیکھنا یہ ہے کہ کس پارٹی کے ووٹ کم اور کس کے زیادہ ہوتے ہیں،
البتہ اس الیکشن نے نوگو ایریا اور صرف ایک جماعت کی بالادستی کی سیاست کو
بہت کھل کر چیلنج کیا ہے، دیکھتے ہیں پی ٹی آئی کی جارحانہ انٹری اور ایم
کیو ایم کی جان توڑ مزاحمت کیا رنگ لاتی ہے۔ |