٦۔ نماز جنازۃ کا باب اور اسکے مسائل

نماز جنازۃ کا باب اور اسکے مسائل


نماز جنازہ پڑھنے کی فضیلت

سیدہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"‏ مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ عَلَيْهَا فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ ‏"‏‏.‏ قِيلَ وَمَا الْقِيرَاطَانِ قَالَ ‏"‏ مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ ‏"‏‏.‏

ترجمہ و مفہوم:
جو شخص جنازے میں شامل ہو اور نماز جنازۃ پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت دفن کرنے تک موجود رہے تو دو قیراط ثواب ملتا ہے.صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیراطان کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: دو فیراط ثواب دو پہاڑوں کے برابر ہے

(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1325)


غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا‏.‏

ترجمہ و مفہوم: کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نجاشی کی موت کی خبر اسی دن پہنچا دی جس روز وہ فوت ہوا. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ جنازہ گاہ تشریف لاۓ انکی صف بنائ اور چار تکبیریں کہ کر نماز جنازہ پڑھائ.

(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1245 صحیح مسلم، رقم الحدیث: 951)

یہ روایت تھوڑے سے مختلف الفاظ کے ساتھ بخاری اور مسلم میں ہیں، مگر فہم ایک ہی ہے.

نماز جنازہ میں صرف قیام ہے جس میں چار یا پانچ تکبیریں ہیں، نہ رکوع ہے، نہ سجدہ

پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھنا:

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ‏.‏


ترجمہ و مفہوم: طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انہوں نے اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے

(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1335)

دوسری روایت میں ہے، طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں:

قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ سُنَّةٌ وَحَقٌّ

ترجمہ و مفہوم: میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی. انہوں نے سورۃ فاتحہ کے بعد ایک دوسری سورۃ اونچی آواز میں پڑھی جو ہم نے سنی. جب عبد اللہ ابن عباس فارغ ہوۓ تو میں نے انہیں ہاتھ سے پکڑا اور (قرآءت کے بارے میں) سوال کیا؟ انہوں نے جواب دیا:میں نے جہری قرآءت اسلیے کی تاکہ معلوم ہوجاۓ کہ یہ سنت اور حق ہے

(حوالہ: سنن نسائ، رقم الحدیث: 1987 وسندہ صحیح)

دوسری تکبیر: ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

ترجمہ و مفہوم: کہ نماز جنازہ میں امام کا پہلی تکبیر کے بعد خاموشی سے سورۃ فاتحہ پڑھنا پھر (دوسری تکبیر کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا پھر خلوص دل سے میت کے لیے دعا اور اونچی آواز سے قرآءت نہ کرنا..."

(مسند شافعی، الجز الاول، صفحہ: 581)

اگر چہ اس روایت میں قرآءت کو اونچا نہ کرنے کا کہا گیا مگر ابن عباس سے اونچی قرآءت ثابت ہے

تیسری تکبیر کے بعد مرد یا عورت میت کے لیے یہ دعا پڑھیں:

"‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإِسْلاَمِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الإِيمَانِ اللَّهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَهُ ‏"‏ ‏

(حوالہ: سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 1498، و سندہ حسن)

‘Allahummaghfir lihayyina wa mayyitina, wa shahidina wa gha’ibina, wa saghirina wa kabirina, wa dhakarina wa unthana. Allahumma man ahyaitahu minna faahyihi ‘alal-Islam, wa man tawaffaytahu minna fa tawaffahu ‘alal- iman. Allahumma la tahrimna ajrahu wa la tudillana ba’dah.

اسکا مفہوم: اے اللہ ہمارے زندہ، مردہ موجود، غائب، چھوٹے بڑوں، مرد یا عورتوں کی مغفرت فرما.."

جنازے کی ایک اور دعا:

"‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلاً خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ‏"‏

(صحيح مسلم، رقم الحدیث: 963)

اسکا مفہوم: اے اللہ،اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، اسے عافیت دے اس سے درگزر فرما، اور اسکی باعزت مہمانی فرما اور اسکے داخل ہونے کی جگہ (قبر) کھلی فرما، اسے پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو دے (اس کے گناہوں کو) اور اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کردیا. اور اسکو اسکے گھر سے بہتر گھر اور اسکے اھل سے بہتر اھل اور اسکی بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما اس کو جنت میں داخل کر دے اور اسکو عذاب قبر سے بچا اور آگ کے عذاب سے بچا.

allahumma aghfir lahu warhamhu wa a'aafihi wa'fu anhu wa akrim nuzulahu wawwass-e- mudakhalahu waghsilhu bil-maa'i wathalji wal baradi wa naqqihe minal khataaya kama naqqayt-thaw-bal abayadha minad-danasi wa-abdilhu darann khayramm min daarihi wa ahlann khayramm min ahlihe wa zawjann khayramm minn zawjihe wa adakhilhul jannata wa ai'zhu minn azaabil qabari aw minn azaabin naar


اسی طرح ایک اور دعا ہے:

‏ "‏ اللَّهُمَّ إِنَّ فُلاَنَ بْنَ فُلاَنٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ‏"‏

(حوالہ: سن ابن ماجه، رقم الحدیث: 1499، سنن ابی داود، رقم الحدیث: 3202 وسندہ صحیح، یعنی یہ روایت صحیح سند کے ساتھ ہے)

allaahuma inna fulana ibn fulaanin fi thimmatika, wa hablil jawaarika. fiqihi minn fitnatil qabri wa azaabin-naar, wa anta ahlul wafaai wal-haqqa, faghfir lahu warhamhu innaka antal ghafaarur raheem.

اسکا ترجمہ ومفہوم ہے:

یا اللہ فلاں بن فلاں تیرے سپرد اور تیری امان میں ہے،تو اسے قبر کی آزمائش اور عذاب سے محفوظ فرما،تو اپنے کیے ہوۓ وعدے پورے کرنے والا اور حق والا ہے، پس اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما.

نماز جنازہ میں بچوں کے لیے دعا:

سعید بن مسیب فرماتے ہیں میں نے سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک بچے کی نماز جنازہ پڑھی جس سے ابھی کوئ گناہ سرزد نہیں ہوا تھا، میں نے انکو سنا:

"اللھم اعذہ من عذاب القبر"
allahuma a'aizhu min azaabil qabr.

(حوالہ: مؤطا امام مالک: 288/1، مصنف ابن ابی شیبہ: 217/3 وغیرہ، اسکی سند کو شعیب ارناؤوط نے اپنی تحقیق میں صحیح کہا، والله اعلم.

اس دعا کا مفہوم: اے اللہ اسکو عذاب قبر سے بچا.

بچہ کے جنازہ کی ایک اور دعا:

امام حسن بصری رحمہ اللہ بچے کے جنازہ میں فاتحہ پڑھتے اور کہتے:

اللهم اجعله لنا فرطا و سلفا وأجرا

allaahuma aj'alhu lana fartan-wa salafann-wa ajara.

حوالہ: بخاری تعلیقا

113/2، شرح السنۃ للبغوی: 357/5، عبد الرزاق:6588 اس دعا کا

مفہوم: اے اللہ، اسکو ھمارے لیے میزبان، پیش رو اور اجر بنا دے

نماز جنازہ کی ان دعاؤں کو عربی، رومن رسم الخط اور ترجمہ کے ساتھ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم ان دعاؤں کو یاد کرنے پر توجہ دیں، خاص کر اپنے بچوں کو یاد کرایں. جس طرح ہم بچوں کو نظمیں بار بار پڑھاتے ہیں، حساب کی مشقیں بار بار کرواتے ہیں، سائینس، انگریزی، اردو کے سوال جواب بار بار کرواتے ہیں، حساب کے پہاڑے بار بار سنتے ہیں، ان کے کلاس ورک یا ہوم ورک پر خاص توجہ دیتے ہیں، کیونکہ ہمیں ان کا سنہری مستقبل عزیز ہوتا ہے جس کا تعلق صرف دنیا سے ہے. اسی طرح ہمیں چاہیے کے ان دعاؤں کو اپنے بچوں کو بار بار اور بچپن میں ترجمہ کے ساتھ یاد کروائیں کیونکہ چاہے کوئ غریب ہو یا مسکین، مالدار ہو یا معزز، حاجی صاحب ہو یا بس کا ڈراؤر، لینڈکروز کا مالک ہو یا سائیکل کا، دو ہزار کا مؤبایل رکھنے والا ہو یا ڈیڈہ لاکھ کا، جھومپڑی میں رہتا ہو یا دو کروڑ کے بنگلے میں، مہینے میں دس ہزار کماتا ہو یا دس لاکھ، اپنی محنت سے آگے آیا ہو یا سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ مسلمان ہے تو آج نہیں تو کل ہم پر اور اس پر یہ وقت ضرور آۓ گا، جب یا تو ہم نے اور اس نے کسی کی نماز جنازۃ پڑھنی ہوگی یا انکی اور ہماری نماز جنازۃ پڑھی جانی ہوگی، تو اگر آج ہم نے اپنے بچوں کی دینی تربیت پر زور نہ دیا تو اللہ کے دربار میں ایک دن ہماری پکڑ ضرور ہوگی، اسلیے ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہیے.

نماز جنازۃ پڑھاتے وقت امام کہاں کھڑا ہو؟

عَنْ أَبِي غَالِبٍ، قَالَ رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ صَلَّى عَلَى جِنَازَةِ رَجُلٍ فَقَامَ حِيَالَ رَأْسِهِ فَجِيءَ بِجِنَازَةٍ أُخْرَى بِامْرَأَةٍ فَقَالُوا يَا أَبَا حَمْزَةَ صَلِّ عَلَيْهَا ‏.‏ فَقَامَ حِيَالَ وَسَطِ السَّرِيرِ فَقَالَ لَهُ الْعَلاَءُ بْنُ زِيَادٍ يَا أَبَا حَمْزَةَ هَكَذَا رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَامَ مِنَ الْجِنَازَةِ مُقَامَكَ مِنَ الرَّجُلِ وَقَامَ مِنَ الْمَرْأَةِ مُقَامَكَ مِنَ الْمَرْأَةِ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ احْفَظُوا

ابو غالب رحمہ اللہ کا بیان ہے میں نے دیکھا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک مرد کی نماز جنازۃ پڑھائ تو وہ اسکے سر کے بالمقابل کھڑے ہوۓ. پھر ایک عورت کا جنازۃ لایا گیا. لوگوں نے کہا:اے ابو حمزۃ! آپ اسکی نماز جنازۃ پڑھائیں تو وہ اسکی چارپائ کے وسط کے بالمقابل کھڑے ہوۓ.. پوچھا گیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں.."

حوالہ: ابن ماجہ:1494، سنن ترمذی، رقم الحدیث: 1034، وسندہ حسن)

نماز جنازہ کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا:

عن ابن عمر رض الله عنهما أنه كان يرفع يديه في جميع تكبيرات الجنازة.

اس كا مفہوم: مشہور تابعی نافع رحمہ اللہ فرماتے ھیں کہ ،وہ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ) جنازے کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے

(حوالہ: مصنف ابن ابی شیبہ جلد: 3 صفحہ: 296 حدیث 11380، وسندہ صحیح)

اس سے ملتی جلتی روایات الاوسط لابن المنذر، السنن الکبری للبیہقی، جز رفع الیدین للبخاری میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں.

نماز میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھنا مسنون ہے

سیدنا طاؤوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ. ‏

ترجمہ و مفہوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے کے مقام پر باندھتے تھے

(حوالہ: سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 759 وسندہ صحیح)

یہ مسئلہ عام ہے یعنی دونوں مرد و زن کو نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہیں، اسی طرح نماز جنازۃ میں بھی ہاتھ کو سینے پر باندھنا چاہیے

نماز جنازہ میں دو طرف سلام پھیرنا

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا:

ثلاث خلال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يفعلهن، تركهن الناس، احداهن التسليم علي الجنازة مثل التسليم في الصلاة

ترجمہ و مفہوم: تین چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے جسکو لوگوں نے طرق کردیا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ نماز جنازۃ میں نماز کی طرح سلام پھیرنا

السنن الکبری للبیہقی 43/4

يہ روایت ضعیف ہے، اسکی سند مین ابراھیم نخعی راوی مدلس ہیں. جو کہ عن سے روایت کر رہے ہیں. اصول حدیث کا مسلم اصول ہے کہ جب ثقہ مدلس بخاری ومسلم کے علاوہ عن سے روایت کرے تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے، تا وقتیکہ وہ سماع کی صراحت کر دے.

ابراھم الہجری کہتے کہ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر دائیں بائیں سلام پھیرا اور فرمایا، مفہوم: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے (السنن الکبری للبیہقی 43/4

حوالہ: بیہقی 43/4، لیکن اسکے راوی ابراھیم بن مسلم العبدی الھجری پر یحیی بن معین، نسائ اور ابوحاتم، اور امام بخاری وغیرہ نے جرح کی اور ضعیف کہا،

دیکھیں تھذیب التھذیب لابن حجر: جلد: 1 صفحہ: 143-144

حافظ ابن حجر نے اس کو لین الحدیث، رفع موقوفات کہا: تقریب: 252

حافظ ذہبی نے اسے ضعیف کہا دیکھیں: تلخیص المستدرک للذھبی جلد 1 صفحہ: 555

گویا اس روایت میں ضعف موجود ہے، اور وہ استدلال کے قابل نہیں، واللہ اعلم.

اسی طرح نماز جنازہ میں دو طرف سلام سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنھ سے بھی روایت ہیں مگر ان روایات میں بھی ضعف موجود ہے، تابعی ابراھیم نخعی سے حسن درجہ کی روایت ہے جس میں دو طرف سلام پھیرنے کا ذکر ہے مگر وہ جمہور ائمہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقبل عمل ہے، اور استدلال کے قابل نہیں. تابعی ابراھیم نخعی سے ایک دوسری صحیح روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ سہو اور جنازۃ میں سلام ایک ہی ہے.

نماز جنازۃ میں ایک طرف سلام پھیرنا

سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

ان رسول الله صلي الله عليه وسلم صلي علي جنازة، فكبر عليها أربعا، فسلم تسليمة واحدة

ترجمہ و مفہوم: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت پر نماز جنازۃ پڑھائ، اس پر چار تکبیریں کہیں اور پھر ایک ہی سلام پھیرا

(حوالہ: سنن الدارقطنی: 171/2 حدیث نمبر: 1799، المستدرک للحاکم: 360/1، السنن الکبری للبیہقی: 43/4، و سندہ حسن، یعنی یہ روایت اچھی سند کے ساتھ ہے.

نماز جنازۃ میں ایک طرف سلام پھیرنا سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا واثلہ بن اثقع رضی اللہ عنھما سے مصنف ابن شیبہ میں صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے، اس کے علاوہ بھی کئ صحابہ سے ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے. سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، حسن بصری، امام مکحول تابعی، عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ سے صحیح اسناد سے ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے، امام احمد سے بھی ایک طرف سلام کی روایت موجود ہے

حاصل کلام: نماز جنازۃ میں دونوں طرف سلام پھیرنے اور ایک طرف سلام پھیرنے کی روایات کی علمی بحث کو سامنے رکھیں تو ھمیں یہ پتا لگتا ہے کہ ایک طرف سلام پھیرنے کی روایت اسنادی حیثیت میں صحیح یا حسن ہیں جبکہ دو طرف سلام پھیرنے کی روایات ضعیف ہیں اور تابعی کا جو قول حسن ہے وہ جمہور صحابہ و ائمہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے استدلال کے قابل نہیں اسلیے ھمیں نماز جنازۃ کا اختتام ایک سلام پر کرنا چاہیے، واللہ اعلم.

اس مسئلہ پر مختلف روایت اور انکی محدود تحقیق یہاں پر ملحذہ فرمائیں:

https://www.ircpk.com/tehqeeqi-wa-ilmi-mazameen/5024-janaza-ma-salam.html

جنازۃ میں صفوں کا تعین سنت سے ثابت نہیں، بلکہ صفیں کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنَ الْحَبَشِ فَهَلُمَّ فَصَلُّوا عَلَيْهِ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَصَفَفْنَا فَصَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَيْهِ وَنَحْنُ صُفُوفٌ‏.‏

ترجمہ و مفہوم: کہ آج حبش کے ایک مرد صالح (نجاشی حبش کے بادشاہ) کا انتقال ہو گیا ہے ۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کر لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ نماز میں ہماری کئ صفیں تھیں.."

(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث:1320

جس موحد کے جنازۃ میں 40 موحدین شریک ہوں، اللہ اسکی بخشش فرماتا ہے

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا ہے:

قَالَ أَخْرِجُوهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلاً لاَ يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلاَّ شَفَّعَهُمُ اللَّهُ فِيهِ ‏"‏ ‏

ترجمہ و مفہوم: کہ جب کوئ مسلمان مرد فوت ہوتا ہے اور اسکی نماز جنازۃ میں ایسے چالیس لوگ شریک ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا تو اللہ اس میت کے حق میں ان چالیس آدمیوں کی سفارش (یعنی دعا مغفرت) قبول فرماتا ہے

(حوالہ: صحیح مسلم، رقم الحدیث :948)

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، عورت مسجد میں نماز جنازۃ ادا کر سکتی ہے

جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ، مفہوم: سیدنا سعد کا جنازۃ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی ادا کر سکوں، لوگوں نے مسجد میں جنازۃ کو ناپسند کیا تو آپ نے فرمایا:

فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ وَاللَّهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى ابْنَىْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ سُهَيْلٍ وَأَخِيهِ. ‏

ترجمہ و مفہوم: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازۃ مسجد میں ادا کی.

(حوالہ: مسلم، رقم الحدیث: 973)

قبرستان میں نماز جنازۃ پڑھنا منع ہے

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا.

اسے طبرانی نے روایت کیا ہے، احکام الجنائز، للالبانی، رقم الصفحہ: 108، مگر اس روایت کی اسنادی کیفیت کے بارے میں معلوم نہیں، واللہ اعلم)

قبرستان سے الگ تنہا قبر پر نماز جنازۃ پڑھنا جائز ہے.میت دفنانے کے بعد نماز جنازۃ پڑھنا بھی جائز ہے

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ حَسَنٍ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ قَالَ انْتَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى قَبْرٍ رَطْبٍ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَصَفُّوا خَلْفَهُ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا ‏.‏ قُلْتُ لِعَامِرٍ مَنْ حَدَّثَكَ قَالَ الثِّقَةُ مَنْ شَهِدَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏.‏

ترجمہ و مفہوم: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تازہ قبر پر گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز (جنازۃ) پڑھی. صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ کر نماز (جنازۃ) پڑھی.. "

(حوالہ:صحیح مسلم، رقم الحدیث:954

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازۃ کا حکم

سیدنا جابر بن سمرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ ‏.‏

ترجمہ و مفہوم: "رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص لايا گيا جس نے اپنے آپ كو تير كے ساتھ قتل كر ليا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى"

(حوالہ: صحيح مسلم حديث نمبر: 978)

تفصیل کچھ یوں ہے:

قال النووي:

" المَشاقص: سهام عراض

وفي هذا الحديث دليل لمن يقول : لا يصلى على قاتل نفسه لعصيانه , وهذا مذهب عمر بن عبد العزيز والأوزاعي , وقال الحسن والنخعي وقتادة ومالك وأبو حنيفة والشافعي وجماهير العلماء : يصلى عليه , وأجابوا عن هذا الحديث بأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصل عليه بنفسه زجرا للناس عن مثل فعله , وصلت عليه الصحابة " انتهى.

شرح مسلم: 7 / 47

ترجمہ ومفہوم: اس حدیث میں لفظ بمشاقص استعمال ہوا.المشاقص عربی میں چوڑے تیر کو کہتے ہیں جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا.

اس حديث ميں بتایا گیا کہ خودكشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ نہيں ادا كى جائيگى. عمر بن عبد العزيز، اوزاعى رحمہما اللہ تعالى كا يہى مذہب ہے اور حسن، ابراہیم نخعى، قتادہ، مالك، ابو حنيفہ، شافعى اور جمہور علماء كرام رحمہم اللہ تعالى كا مسلك ہے كہ اس كی نماز جنازہ ادا كى جائيگى. کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور سزا اور عبرت ایسا نہ کیا مگر صحابہ کو نماز جنازۃ ادا کرنے کا حکم دیا

(تفصیل کے لیے دیکھیں شرح المسلم للنوی جلد:7 صفحہ:47)

اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل علم اور فضل و مرتبہ والے لوگوں كے ليے مسنون يہ ہے كہ بطور سزا اور عبرت نبى كريم صلى اللہ عليہ كى پيروى اور اتباع كرتے ہوئے خود كشى كرنے والے شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كريں مگر عام مسلمان اسکی نماز جنازہ ادا کرسکتے ہیں. اور اس كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعاء كى جائے گی، بلكہ یہ تو حتمى چيز ہے كہ اس كے ليے مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، کیونکہ وہ اپنے آخری عمل کے باعث اسکا زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہے اور كيونكہ خودکشی گناہ کبیرہ ضرور ہے مگر کفر نہیں جو دائرہ اسلام سے باہر کرنے کا باعث ہو جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال و گمان ہے، واللہ اعلم.

خود كشى كفر نہيں جو دائرہ اسلام سے خارج كر دے جيسا كہ بعض لوگوں كا خيال اور گمان ہے، بلكہ يہ تو كبيرہ گناہ ہے جو اللہ تعالى كى مشئيت پر ہے قيامت كے روز اگر اللہ تعالى چاہے تو اسے معاف كر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اس ليے خود کشی کرنے والے کے رشتہ دار اس كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ مغفرت اور رحمت كى دعا كريں، ہو سکتا ہے کہ یہ اسکی مغفرت اور بخشش کا سبب بن جاۓ، واللہ اعلم.

اس تمام کلام کا حاصل نتیجہ یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازۃ علماء ومشائخ ومرتبہ والوں کو تو بطور سزا و عبرت نہیں پڑھنا چاہیے مگر عام مسلمانوں کو خود کشی کے عمل کو دل سے برا جانتے ہوۓ نماز جنازۃ میں شرکت کرنا چاہیے، اس طرح خود کشی اس صورت میں کفر ہے کے اس عمل کو کرنے والا اسکو حلال جانتے ہوۓ کرے ورنہ یہ سخت گناہ کبیرہ ہے. خود کشی کرنے والے کے عمل کو برا جان کر اسکی مغفرت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، واللہ اعلم.

نبي اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازۃ پہلے مردوں نے، پھر عورتوں نے پھر بچوں نے بغیر امام کے ادا کی

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،

یہ روایت ابن ماجہ میں رقم: 1628 میں موجود ہے مگر اسکے راوی حسین بن عبداللہ کو امام بیھقی رحمہ اللہ نے السنن الکبری جلد 10 صفحہ: 346 میں جمہور کی راۓ میں ضعیف کہا اور امام ھیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد جلد:5 صفحہ:60 میں متروک کہا، گویا یہ روایت استدلال کے قابل نہیں اور بلحاظ سند سخت ضعیف ہے.

سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ قَالَ ‏ "‏ مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلاَّ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ ‏"‏ ‏.‏ ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ‏.‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. ‏

ترجمہ و مفہوم: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئ تو لوگ جھگڑے تو سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے سنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالی کسی نبی کی روح قبض نہیں فرماتا مگر اسی جگہ جہاں اسے دفن فرمانا چاہتا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بستر مبارک کی جگہ پر دفن کر دیا گیا

(حوالہ: سنن الترمذی، رقم الحدیث :1018)

اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے غریب کہا اور کہا کہ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن ابی بکر ملیکی کا حافظہ کمزور تھا مگر یہ کئ اسناد سے مروی ہے اور یہ روایت سیدنا ابن عباس سے سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے اور سیدنا ابوبکر الصدیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے. محدث کبیر الشیخ البانی رحمہ اللہ نے اسکو اسنادہ صحیح کہا اور محدث العصر الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اس روایت کو انوار الصحیفہ میں درج نہیں کیا. یاد رہے الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ کی شہکار کتاب انوار الصحیفۃ.." میں انھوں نے سنن کی ضعیف روایت کو جمع فرمایا ہے. گویا الشیخ زبیر رحمہ اللہ کی راۓ میں بھی یہ روایت صحیح یا حسن ہے.

تین اوقات میں نماز نہیں پڑھنا چاہیے نہ ہی میت کی تدفین کرنا چاہیے

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

يَقُولُ ثَلاَثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ ‏.‏

ترجمہ ومفہوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے اور میت دفن کرنے سے منع فرماتے تھے. پہلا جب سورج طلوع ہونے لگے، دوسرا جب دوپہر ہو حتی کہ سورج ڈھل جاۓ، تیسرا جب سورج غروب ہونے لگے حتی کہ پوری طرح غروب ہوجاۓ

(حوالہ:صحیح مسلم، رقم الحدیث: 831)

جس بچے کی پیدائش کے بعد اسکے رونے،چلانے کی آواز نہ آۓ اسپر نماز جنازۃ کا حکم

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ الطِّفْلُ لاَ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَلاَ يَرِثُ وَلاَ يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ ‏"‏

ترجمہ و مفہوم: بچہ (پیدائش کے بعد) جب تک روۓ چلاۓ نہیں اس پر نہ نماز جنازۃ پڑھی جاۓ، نہ وہ کسی کا وارث بنتا ہے نہ کوئ اسکا وارث بنتا ہے

(حوالہ: جامع الترمذي 1032 وسندہ ضعیف)

اس روایت کی سند ضعیف ہے. امام ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ نے کہا اس سند میں اضطراب ہے. اگرچہ الشیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ:153 الارواء: 1704 میں اسکو صحیح کہا، اور کہا کہ اسکی موقوف روایت مرفوع سے زیادہ بہتر ہے مگر حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے انوار الصحیفۃ، صفحہ: 216 میں اس روایت کے راوی ابو زبیر کو عنعن و تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا، جبکہ ابو زبیر کی سماع کی صراحت کسی دوسری روایت سے ثابت نہیں، واللہ اعلم. اسی طرح اس حدیث کے شاھد کو ابن عدی نے الکامل لابن عدی میں ضعیف کہا. الکامل:1329/4 معلوم ہوا کہ ایک چھوٹے بچے یا پیدائشی فوت ہوۓ بچے یا پیدا ہوکر فوت ہوجانے والے بچہ کی نماز جنازۃ بھی پڑھی جاۓ گی، واللہ اعلم.

تدفین کے مسائل جاننے سے قبل، جنازۃ سے متعلق چند بدعات کا ذکر بھی کر لیتے ہیں:

جنازۃ سے قبل آذان یا اقامت کہنا سنت سے ثابت نہیں بلکہ یہ عمل کرنا بدعت ہے. نماز جنازۃ پڑھنے کے بعد وہیں پر صف میں بیٹھ کر اجتماعی دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں اور یہ عمل بدعت ہے. نماز جنازۃ کے بعد لوگوں کا میت کے رشتہ داروں کے گرد جمع ہوکر بار بار ہاتھ اٹھا کہ دعا مغفرت کرنا بھی سنت سے ثابت نہیں بلکہ لوگوں میں عام ہوئ ایک بدعت ہے اور اس بدعت کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے اللہ ھدایت دے اور توفیق دے کیونکہ بعض اوقات لوگوں کے سامنے بدعت سے رک جانا ایک مشکل عمل لگتا ہے اور یہیں پر اللہ امتحان لیتا ہے کہ آپ سنت کی تابعداری کرو گے یا لوگوں کی. اسی طرح تیسرے دن صلوۃ الفردوس کا اہتمام کرنا یہ بھی بدعت ہے جو بعض مکتب فکر پڑھتے ہیں. جنازے اور تدفین کے بعد میت والے گھر آکر کھانا پینا بھی مکروہ فعل ہے جس سے بچنا چاہیے.

اسی طرح جنازۃ کے ساتھ چلتے ہوۓ اونچی اونچی آواز میں کلمہ طیبہ یا کسی اور دعا کا ورد کرنا اور لوگوں کو بار بار اسکی تلقین کرنا سب بدعات ہیں.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 449094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.