تحریر ۔ ملک محمد ممریز
سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداﷲ کی وفات کے بعد شاہ سیلمان نے حکومت سنبھالی
ہی تھی کہ یمن میں حالات تیزی سے خراب ہونا شروع ہو گئے ۔شاہ سیلما ن نے
مختلف ملکوں کے حکمرانوں کو دورہ سعودی عرب کی دعوت دی جن میں پاکستان کے
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی شامل تھے ان
دو حکمرانوں نے سعودی عرب کے دورے کیئے جن کے استقبال کے لیئے خود شاہ
سلمان ایئر پورٹ پر آئے اور عزت بخشی ۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات
نہایت ہی دیرینہ اور پائیدار ہیں ۔سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں جو مقام
حاصل ہے وہ حرمین شریفین ،مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کے علاوہ دیگر متبرک
مقامات ہی کی وجہ سے بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ پوری اسلامی دنیا کامرکز ہیں
وہاں پر پاکستان کا دل بھی سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتاہے ۔بیس لاکھ کے قریب
پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں جو بھاری زرمبادلہ بھجواتے ہیں اسلیئے
سعودی عرب کے شاہ سیلمان نے جب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کیا
اور سعودی عرب کے لیئے مدد طلب کی تو یہاں فوری طور پر میاں نواز شریف نے
اجلاس بلا کر مشورہ کیا جس کے بعد ایک اعلیٰ سطحی وفد وزیر دفاع خواجہ محمد
آصف اور مشیر خارجہ سر تاج عزیز کی قیادت میں سعودی عرب بھجوایا جن کے
ہمراہ فوج کے اعلٰی حکام بھی تھے۔
میاں نواز شریف کے ذاتی تعلقات بھی سعودی شاہی خاندان کے ساتھ نہایت گہرے
ہیں کیونکہ صدر مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور انکے خاندان کو سعودی
عرب میں ٹھہرایا گیا تھا ۔اعلی سطحی وفدسعودی عرب بھیج کر سعودی حکام سے
ملاقات کی اور مختلف پہلو زیرغور کر کے یمن پر عرب اتحادی افواج کے حملے
اور یمن میں موجود حوثی قبائلی اور ان کے حمایتی باغیوں کے خلاف کاروائی
بھی زیر غور آئی جس کی بریفنگ وفد کی واپسی پر وزیراعظم اور اعلی عسکری
حکام کو دی گئی ۔دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے روح رواں سابق صدر آصف
علی زرداری نے بلاول ھاؤس کراچی میں مختلف جماعتوں کا اجلاس بلایا اور یمن
اورسعودی عرب کے حالات زیر غورآئے ان میں اے این پی کے سربراہ اسفند یار
ولی ایم کیو ایم کے فاروق ستار جمعیت علماء اسلام کے علاوہ دیگر جماعتوں کے
نمائندوں نے شرکت کی تاہم جماعت اسلامی ،تحریک انصاف اور ق لیگ کے سربراہ
نہ آسکے اس اجلاس میں فیصلہ ہو ا کہ حکومت کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے
تما م سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنی چاہیے جبکہ اسفند یار ولی نے ایک سوال
کے جواب میں کہا کہ اگر ہم سے مشورہ نہ کیا گیا تو ہم آئندہ کا لائحہ عمل
طے کریں گے تاہم تادم تحریر اسفند یار کا بیان آیا کہ پاکستان کی افواج
سعودی عرب بھجوائی جائیں ۔
جہاں تک یمن کے حالات کا تعلق ہے وہاں پر مختلف قبائل کی لڑائی صرف اقتدار
کے حصول اور وسائل پر قبضے کی ہے نہ کہ یہ لڑائی شیعہ سنی کی ہے اس میں
کوئی شک نہیں کہ حوثی قبائل اپنے آپ کو شیعہ مسلک کہلواتے ہیں لیکن حوثیوں
کے ساتھ سنی بھی اس لڑائی میں شریک ہیں جس کی مثال یمن کے سابق صدر صالح
جوکہ ایک حملے میں زخمی ہو کر سعودی عرب چلے گئے تھے جہاں بعد علاج وہ واپس
آکر حوثیو ں کے ساتھ ملکر یمن کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں یہ بھی خبریں
ہیں کہ یمن کے باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے جبکہ تادم تحریر ایران نے
کوئی ایسا دعوی نہیں کیا بلکہ ایران کی طرف سے سعودی حکومت نے حملے بند
کرنے اور مسائل کو مذکرات کے ذریعہ حل کرنے پر زور دیا گیا ۔ادھر پاکستان
میں بھی ایک بہت بڑی تعداد اہل تشیع کی ہے جن کی وابستگی ایران کے ساتھ ہے
۔بعض لوگ یمن کی لڑائی کو شیعہ سنی کی جنگ قراد دے کر نفرت کو ہوا دے رہے
ہیں حالانکہ ایسانظر نہیں آتا ۔پاکستان کے مختلف حلقوں کا خیال ہے کہ چونکہ
پاکستان اور ایران ہمسایہ ممالک ہیں اور ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے
دیرینہ تعلقات ہیں اسلیئے ایران کو بھی ناراض نہیں کیا جا سکتا بلکہ
پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
اسلامی دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے جس کے پاس مضبوط
اور بہادری کا جذبہ رکھنے والی افواج موجود ہیں جس کے پاس جدید میزائل
ٹیکنالوجی ہے اور ہر مشکل وقت میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں اسلیئے اس
وقت پاکستان اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتا ہے جہاں تک ثالثی کا تعلق ہے
یہ کردار ضرور ادا کرنا چاہیے اور مجھے پوری امیدہے پاکستان اور پاکستان
حکومت یہ کردار ضرو ر ادا کرے گی لیکن ساتھ یہ بد قسمتی ہے کہ اگر سعودی
عرب کو خطرہ ہو ا تو پاکستان کی حکومت اور عوام سعودی عر ب کو اکیلا نہیں
چھوڑے گے اس لیئے سعودی عرب میں حرمین شریفین ہیں اور کوئی پاکستانی یہ
نہیں چاہتا کہ کوئی میلی آنکھ سے دیکھے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کی افواج کواندورنی و بیرونی خطرات
سے نبرد آزما ہے اور ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کے لیئے کوشاں ہیں جس کیوجہ
سے پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے اور افواج کے آفیسر اور جوان اپنی
جانوں کا نذرانہ دیکر شہادتیں حاصل کرکے اس ملک کی آنے والی نسلوں کو محفوظ
بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں
کو خطرہ ہو ا تو پاکستانی حکومت ،افواج اور عوام اپنا کردار ضرو ر ادا کرے
گی ۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے ایران نہ صرف مسلمان ملک ہے بلکہ ہمارا ہمسایہ
بھی ہے اور ایران کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں اگر کبھی ایران پر
کوئی غیر اسلامی ملک حملہ کرے گا تو یقینناًپاکستان اس وقت بھی اپنا کردار
اد اکرے گا کیونکہ ہم ایران کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
اس وقت قابل غور بات یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی طرح حالات
خراب کیے جارہے ہیں جو کہ اسلام دشمنوں کی گہری سازش ہے اس تمام صورت الحال
میں اسلامی امہ کے سربراہوں کو غور کرنا چاہیے کیونکہ باقی دنیا کے تمام
غیر اسلامی ممالک محفوظ بھی ہیں اور پرامن بھی ہیں اور ترقی یافتہ بھی ہیں
اس لیئے یہ تجویز کہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہ اجلاس بلائے جائیں اور
اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر اسلامی مشترکہ فوج بنائی جائے۔ مشترکہ کرنسی
بنائی جائے اور تمام ملک ایک دفاعی معاہدہ کر لیں کہ کسی ایک ملک پر حملہ
سب پر حملہ تصور ہوگا اور جہاں یا جس ملک میں بھی حالات خراب ہوں سب ملکر
اس کی مدد کریں تاکہ اسلامی ممالک امن کا گہوارہ بن جائیں اور مسلم امہ ایک
طاقت بن کر ابھرے ۔ |