تحفظِ حرمین اور عالم اسلام

موجودہ دور میں عالم اسلام ابتلاء واضطراب اورعالم کفر کی ریشہ دانیوں اور دہشت گردی کی زد میں گرا ہوا ہے آئے دن نت نئے حربوں سے مسلم ممالک کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے ۔اس وقت جہاں مسلم ممالک کی آپس میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے مسالک کے حوالے سے بھی عدم برداشت کا رویہ اور ضد،ہٹ دھرمی کی روش کو بھی ترک کرنا ہوگا کیونکہ عالم کفر کی با لخصوص امریکہ اسرائیل اتحاد پورے مسلم ممالک میں فرقہ واریت پھیلا کر گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر رہا ہے ۔ ایک طرف کہیں نام نہاد جمہوری اور کہیں فوجی اپنی ہمنوا حکومتیں بنواکر ایک دوسرے کے خلاف لڑانے کی کار روائیاں جاری ہیں اور دوسری طرف مسلم دنیا کی عوام کو فرقوں کی بنیاد پر لڑایا جارہا ہے اس کے لیئے بلیک واٹر ،را، موساد ،سی آئی اے وغیرہ ایجنسیاں ہرمسلم ملک میں بر سر پیکار ہیں اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہی ہیں اور اب کہ سب سے زیادہ خطر ناک پلان شیعہ سنی فساد پھیلانا ہے تاکہ شیعہ سنی ممالک بھی آپس میں لڑیں اور عوام بھی کیونکہ شیعہ ملکوں میں سنی کمیو ٹی اورسنی ملکوں میں شیعہ کمیونٹی موجود اور ہم آہنگ ہیں ان کو آپس میں لڑاکر عدم استحکام پیدا کرنا مغربی سازش کا حصہ ہے۔اس سازش کو ناکام کرنے کے لئے مسلمان ملکوں کے حکمرا نوں کو انتظامی اقدامات اور علمائے کرام کوعلمی بنیادوں پرامت کو ہم آہنگ کرنے کی جدو جہد کرنا ہوگی اور اپنے وسائل کو محفوظ کرکے آپس میں تجارت کو فروغ دینا اور آپس کے اختلافات کوختم کرنا ہوگا۔ اس وقت جوحالات خلیجی ممالک کے ہیں اس کاجال شیطانی طاقتوں نے پھیلایا ہوا ہے ایک طرف ترکی اور ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت جس کو اسرائیل کے لئے خطرہ سمجھا جارہاہے سنی اور شیعہ ممالک کو لڑا کرکمزور کرنا اور سعودی عرب دیگرخطے کے ممالک میں سنی شیعہ فسادات کوہوادی جارہی ہے تاکہ کسی طرح مسلمان اکٹھے ہونے نہ پائیں جس سے اسرائیل محفوظ رہے ۔لبنان میں حزب اﷲ کی طاقت جو اسرائیل کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے اس کی عسکری قوت کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کی گئی ہے تاکہ ا سرائیل کے لئے خطرہ کم کیا جاسکے ۔ ایسے میں مسلمانوں کو ان شیطانی طاقتوں کا ادراک کر کے سدباب کرنا چاہئے ۔جہاں تک حرمین کی حفاظت کاتعلق ہے یہ تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ۔اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو خانہ جنگی کی کیفیت ہے اگر چہ اس کے پیچھے بھی صہیونی سازش ہی ہے تاہم عالم اسلام کو بجائے ایک دوسرے کو مطعون کرنے کے آپس کے جھگڑے (OIC ) کی سطح پر حل کرنے چاہئے۔اور کسی بھی صورت میں کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں سوائے اتفاق سازی کے وہ بھی باہمی مشورے سے مداخلت نہیں چاہئے۔جہاں تک تحفظ حرمین کا تعلق ہے اس کے لئے یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ مسلمان ممالک سے فوجی دستے لئے جائیں جو سعودی کمان میں حرمین کی حفاظت پر مامور ہوں ۔ اسی طرح (OIC ( کے زیر اہتمام مسلم ممالک کی مشترکہ فوج بنائی جائے جو کسی بھی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک کی مدد کرے۔ اور یہ ایسی فوج ہوکہ جو حرم بیت المقدس کی آزای کے لئے ترتیب دی جاسکے۔(اشدآء علی الکفار و رحماء بین ھم )کے مصداق یہ فوج اپنے نصب العین کے حصول کے لئے کام کرے ۔تمام مسلم ممالک (OIC) کو مظبوط بنائیں اور اقوام متحدہ جو اصل میں یہود و نصاریٰ کے شیطانی نظام کو اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور سودی ․ ( ۲) نظام کے ذریعے با الخصوص مسلم ممالک کی معیشت کو جکڑ کے رکھا ہوا ہے اس کے مد مقابل لاکرمسلم امہ کو خود سنبھالے اور اگر اقوام متحدہ سے کسی مسلم ملک کا کوئی معاملہ ہوتو وہ بھی (OIC)کے ذریعے ہو ۔ کوئی اسلامی ملک انفرادی طور پر اقوام متحدہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے اور اﷲ تعالیٰ نے جوسائل مسلم دنیا کو دیئے ہیں آپس میں تجارت کریں اور جو وسائل یورپین ممالک سے لینا ہوں تو وہ اپنے وسائل کے تبادلے میں لئے جائیں جیسے تیل کے بدلے میں ہتھیار وغیرہ ۔ وہ ٹکنالوجی جس کے ذریعے یورپ نے دنیا کو خوفزدہ کیا ہوا ہے مسلمانوں کے پاس سائنسدان بھی ہیں اور ماہر ڈاکٹر بھی جیسے پاکستان میں ڈاکٹر عبد القدیر، ڈاکٹرثمر مبارک مند اوردیگر ایٹمی سائنسدان ،اسی طرح دیگر اسلامی ممالک میں بھی ایسے ماہرین موجود ہیں اور بعض تو امریکہ اور یورپ میں کام کرتے ہیں اگر وہ دشمن ممالک میں جدید ٹکنالو جی پر کام کرسکتے ہیں تو اپنے ملکوں میں کیوں نہیں ؟ ۔ مشترکہ ریسرچ لیبارٹریز ،یونیورسٹیز اور ادارے بنائے جائیں تو یورپ سے آگے نکلنے کی صلاحیت موجود ہے ۔علامہ اقبالؒ نے سچ فرمایا تھا (مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ․․․ اپنے خورشید پہ پھیلا دیئے سائے ہم نے)پائیدار روشنی اپنے ہی خور شید کی ہوتی ہے۔تمام اسلامی ممالک اپنے دستوری حدود اورملکی سر حدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون و ہمدرد ہو سکتے ہیں۔ مسلک ریاستی ہو یا انفرادی اس کو آپس کے جھگڑوں کی بنیاد بنا کر اپنی قوت کمزور نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے سامراجی استعمار ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ویسے بھی ہر ایک نے اﷲ تعالیٰ کے ہاں اپنے ہی اعمال پیش کرنے اور سزا وجزا کا مستحق ٹھرنا ہے ہر مسلمان صرف اس بات کامکلف ہے کہ اس کے پاس جوحق بات تھی اس نے دوسروں تک پہنچا دی اصول یہ ہے کہ لست علیھم بمسیترتم ان پہ داروغہ نہیں۔طرفہ تماشہ یہ ہے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیتے ہیں اور تمام کفار سب مسلمانوں کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں ان کے نزدیک مسالک مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے۔مسلمانوں کو ان اختلافات سے بالا تر ہوکر مشترکات پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔رہاکردار پاکستان کا اﷲ رب العالمین نے ریاست ہائے اسلامیہ میں ایک کلیدی مقام عطاء فرمایا ہے یہ واحد ایٹمی اسلامی ملک ہے جو برادرممالک کی ہی قوت ہے اس حوالے سے جہاں استعماری دجالی نیٹ ورک کی آنکھوں کا کانٹا ہے وہاں برادر اسلامی ممالک کے تحفظ کی ضمانت بھی۔پاکستان کو برادر اسلامی ممالک کے درمیان ناراضگیوں کو اﷲ کے اس ارشاد کی بنیاد پر مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہئے کہ( واصلحوا بین اخویکم) یہ کردارپہلے بھی پاکستان نے ایران ،عراق جنگ میں ادا کرچکا ہے اتفاق سے اس وقت بھی پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف تھے مزائلوں کی فضاؤں میں اپنے طیارے کو لے کر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سربرا ہان سے مل کرجنگ کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان کا اسی طرح غیر جانبدارانہ اورمصالحانہ اورقائدانہ کردار ہونا چاہئے کسی جنگ میں فریق بننے کی بجائے اصلاح کی کوشش کرے۔افواج پاکستان کی خدمات صرف حرمین کی حفاظت کے لئے ہونی چاہئے کیوں کہ ہر ملک کی طرح سعودی افواج اپنے ملک کا دفاع کربھی رہی ہیں اور کرنا بھی انہیں چاہئے ۔کوئی بھی دوسرا ملک کسی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کاذمہ دار ہے اور نہ پابند صرف حرمین اور بیت المقدس کی حفاظت تمام مسلمانوں کے ایمان کاحصہ بھی ہے اور مذھبی فریضہ بھی ۔ اب چند تجاویز ! ٭(OIC) کامرکزی ہیڈ کوارٹر مدینہ منورہ میں قائم کیا جائے٭عالم اسلام کے لئے عدالت انصاف کو قائم کیا جائے ․ (۳) ٭ایک مظبوط بنیادوں پر مسلم ورڈاسلامک بنک قائم کیا جائے جو اسلامی ممالک میں تجارت اور قرض حسنہ کے سود سے پاک اور خالص تجارتی بنیادوں پرنظام کو تریب دے ۔٭(MWHO)مسلم ورڈہیلتھ آرگنائزیشن قائم کی جائے جومسلم ممالک میں ہیلتھ کو پروموٹ کرے۔٭مسلم ورڈ اسلامک امن فوج بنائی جائے جوتمام اسلامی ممالک کی افواج سے لی جائے جوضرورت کے وقت کسی بھی اسلامی ملک میں مصیبت کے وقت اس کی کوئی یونٹ کام میں لائی جا سکے۔٭جدید ٹکنالوجی کے ماہرین اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹرز ریسرچرزپر مشتمل ایک آرگنائزیشن قائم کی جائے جو اسلامی ممالک کے دفاعی نظام کو مٔوثربنانے کا اہتمام کرے۔٭وہ تمام شعبہ جات جو اقوم متحدہ میں یہودو نصاریٰ کے مفادات کے لئے کام کرتے ان میں اسلاممالک کے وسائل مختلف اسکیموں کے نام پر حاصل کرتے ہیں وہ سب شعبہ جات اپنے وسائل پر (OIC)کے زیر اہتمام قائم کئے جائیں اوروہ وسائل جو اقوام متحدہ کودیئے جاتے ہیں روک کر (OIC) کو دیئے جائیں۔٭ایک ایسی یونی ورسٹی قائم کی جائے جس میں تمام مسالک کے ماہرین، علماء دانشور، ڈاکٹرز،ماہرین علم و فن مشترکات کے مطابق نصاب تریب دیں جو ہر اسلامی ملک کے اداروں میں پڑھایا جائے جس سے نفرتیں کم اور محبتیں زیادہ بڑھیں۔یہ نصاب (قدر مشترک،اور درد مشترک ) کی بنیاد پر ہو ۔اس طرح برادر ملکوں کے درمیان بھی اور مسالک کے درمیان بھی کشیدگی ختم ہو سکتی ہے اور اغیار کو مسلمانوں میں مسلکی منافرت پھیلانے کی سازشیں ناکام ہو سکتی ہیں۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ․․․․․․․ نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
 
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 36855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.