آج عرب سے بھاری قیمت چکانے کی باتیں ہیں، کل پتھرکے دورکی دھمکی دی تھی...؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
حکومتِ پاکستان یمن تنازعِ پر
اپنے قول وفعل کا ازسرنوجائزہ لے ...
حکومتِ پاکستان خیال کرے کہ آج عرب سے پاکستان کو سخت لہجے میں بھاری قیمت
چکانے کی باتیں کیوں ہورہی ہیں...؟؟
آخر دنیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کو سمجھ کیا رکھاہے...؟؟ہمیں پہلے کوئی
اپنی جنگ میں جھونکنے کے لئے فون پر پتھرکے دورمیں بھیجنے کی دھمکی دیتاہے
اور ہم اِس کی ایک کال سے ڈرکر اِس کی جنگ میں فرنٹ لائن کارول اداکرنے کو
تیارہوجاتے ہیں اور ہم تب سے ابتک اپنے پچاس ہزارافرادکو موت کے منہ میں
دھکیل چکے ہیں مگرہم اپنا اتناکچھ تباہ و بربادکرنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہ
کرسکے اوراِس پر ہم سے پھر بھی ڈومورکا کہہ دیاجاتاہے اور ہم اپناسب کچھ
لُٹاکر بھی ڈومورمیں خود کو جھونک رہے ہیں اور آج مشرقِ وسطیٰ میں جاری یمن
تنازع پر متحدہ عرب امارات پاکستان کو اپنااتحادی نہ بننے پر بھاری قیمت
چکانے کی باتیں کررہاہے ، اَب ایسے میں کیا حکومتِ پاکستان کو یمن تنازعِ
پر اپنے قول وفعل کا ازسرِ نوجائزہ لیناضروری ہوگیاہے..؟؟کیا متحدہ عرب
امارات سے سخت لہجے میں بھاری قیمت چکانے والی بات پر حکومتِ پاکستان کو یہ
نہیں سوچناہوگاکہ کیا اِس کا یمن تنازعِ پر واقعی مبہم موقف عرب ممالک سے
تعلقات کی بہتری میں مشکلات اور پریشانیاں بڑھانے اور مستقبل میں تعلقا ت
کے حوالے سے پیچیدگیاں نہیں پیداکردے گا...؟؟یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اَب
اِن حالات اور واقعات کے پیشِ نظر حکومت ِ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جلدبلواکریمن تنازع اورمشرقِ وسطیٰ اپنے پچھلے
کئے گئے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی اشدضرورت ہے اور دوبارہ ا یسے فیصلے کئے
جائیں جس سے متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کسی قسم کی
شک اور شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے پائے اور تعلقات پہلے سے زیادہ
مضبوط اور دیرپاہوجائیں۔
جبکہ یہاں واضح رہے کہ پہلے جس نے ہمیں اپنی جنگ کا حصہ بنانے کے لئے پتھر
کے دور کی دھمکی دی تھی یہ وہی سات سمندرپارکی سُپرطاقت کہلانے والا مُلک
امریکاہے ہمیں جس کے بارے میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکاہے کہ یہ
ہمارادوست ہے..؟؟ یا دوست نما ایک ایسادُشمن ہے جو ہماری مصیبت کے وقت تو
کبھی کام نہ آیا...جس کی ایک زندہ مثال 1971کی وہ جنگ ہے جس میں امریکانے
ہماری مدد کے خاطر اپناایک بحری بیٹرابھیجنے کا وعدہ توکیاتھا...مگراِس جنگ
میں ہمارابیڑاغرق ہونے تک بھی اِس کا وہ بحری بیڑاہماری مددکو نہ آیا...آج
بھی بہت سے مواقعے پریہی امریکاہے جوہماری مددکے دعوے اور وعدے تو بہت سے
کرتاہے مگر اِن سے یہ ا پنی حسبِ عادت اور روایا ت بعد میں مکر جاتاہے اور
ہم کفِ افسوس اور پچھتاوے کے کچھ نہیں کرپاتے ہیں یعنی کہ یہ جانتے ہوئے
بھی کہ امریکاہمارامصیبت کے وقت کام آنے والادوست نہیں بلکہ ہماراایک
ایسادشمن ہے جو ہمیں پریشانی میں اکیلاچھوڑکر دورکھڑاہماری تباہی کا تماشہ
دکھتاہے اور جب مصیبت اور پریشانی کے سائے چھٹ جاتے ہیں تو اپنی صفائی پیش
کرتے ہوئے دوبارہ ہم سے اپنے مفادات کے خاطر دوستی کا بڑھادیتاہے اور ہم
الوکی طرح آنکھ بندکرکے اِس کی باتوں پر یقین کرکے اپنی دوستی نبھانے کے
عہدِوفاکربیٹھتے ہیں اور یہ ہمیں ہمیشہ استعمال کرکے خطے سے وابستہ اپنے
مفادات حاصل کرلیتاہے۔آج بھی ہمارے خطے اور ہم سے امریکاکے عزائم اور
مفادات وہی پہلے والے( جیسے 1971میں تھے) ہیں۔
مگرپھر بھی ہمارے امریکی ڈالرز پر پلنے والے امریکی پٹھوغلام درغلام
حکمرانوں ، سیاستدانوں ، قومی اداروں کے سربراہان اور(اِسی طرح خیرات میں
ملنے والی امریکی گندم کھاکراُوجھل کودکرنے والے) عوام ہی کیوں نہ ہوں اِن
سب کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ امریکاہمیں اپنے مفادات کے خاطر استعمال
کرتاہے اور ہمیں استعمال کرنے کے بعد ٹیشوپیپرکی طرح پھینک دیتاہے ایساہی
امریکانے نائن الیون کے بعد بھی کیا...تب بھی ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں
، عسکری قیادت اور عوام سب ہی نے یک زبان اور یک روح ویک جان بن کر ایک
آوازبلند کی اور سانحہ نائن الیون کے بعد امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
اپنابھرپورکرداراداکرنے کی حامی بھرلی ...یوں تب سے اب تک چندامریکی
ڈالرزکے عوض ہم ہی امریکی جنگ میں بھسم ہورہے ہیں اورہم خداجانے کب تک
امریکی جنگ کا حصہ بنے رہیں گے اور اپنی خودمختاری اور سا لمیت کو امریکی
مفادات کے ہاتھوں گروہی رکھاکر اپناسب کچھ تباہ و بربادکرتے رہیں گے...؟؟
اور امریکی دوربیٹھے ہماری اِس بے وقوفی پر ہماری بے کسی اورلاچارگی کے مزے
لوٹ رہے ہیں اورہم امریکی ڈالرز کے عاشق بن کر امریکی مفادات کے لئے اپنی
ایسی جانیں نچھاور کرتے رہیں گے جیسے شمع پر پروانے اپنی جانیں قربان کرتے
ہیں اَب یہ باتیں ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں ،عسکری قیادت اور امریکی گندم
کھاکر عیاشیاں کرنے والے عوام کو بھی سوچناچاہئے کہ اَب آئندہ اِنہیں
امریکی مفادات کے خاطر کام کرناچاہئے یا اپنی خودمختاری اور سا لمیت کے
خاطر ابھی امریکی جنگ سے علیحدہ ہوجاناچاہئے...؟؟ ۔
بہرحال...!!دوسری جانب مشرق ِ وسطی کی صورتِ حال پر گزشتہ دِنوں ہماری
حکومت نے یمن تنازع کے حوالے سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والے
فیصلوں اور پیش کی گئیں مشترکہ قراردادوں کے بعد اپنے موقف کو کچھ یوں واضح
کیاکہـ’’ سعودی عرب کو خطرہ ہواتواِس کاساتھ دیں گے،یمن تنازعِ میں پاکستان
غیرجانبداررہے ،یمن میں جاری جنگ فرقہ وارانہ نہیں تاہم اِس کے فرقہ وارانہ
تنازع میں تبدیل ہونے کے امکان کو مستردنہیں کیاجاسکتاہے،حرمین شریفین کو
خطرے پر دفاع کے لئے سب سے آگے ہوں گے،حکومت امن کے لئے فعال سفارتی
کردارسے اقوام متحدہ اوآئی سی کو متحرک کرے ،پوراخطہ متاثرہوسکتاہے، فریقین
مذاکرات سے اختلافا ت طے کریں ـ‘‘یہاں ہم نے اُس قراردادکا متن پیش کیا جِس
کی روشنی میں ہماری حکومت نے سعودی عرب سمیت دنیامیں اپنے واضح موقف کا
اظہارکیا ۔
اگرچہ ...!!حکومت ِ پاکستان نے یمن تناز ع پر سعودی عرب کی مدد طلب کرنے کی
درخواست پر اپنایہ کام تو کردیامگر شائد ایساکرتے وقت ہمارے ایوان والے اور
حکومت اور بہت سے اداروں کے سربراہان یہ بھول گئے ہیں کہ اِس وقت ہم نے
اپنے ایک ایسے دیرینہ دوست اور بڑے مسلم بردارمُلک سعودی عرب کی اُمیدوں
اور خواہشات پر پانی پھیردیاہے جس نے ہماری ہر مصیبت اور پریشانی کی گھڑی
میں اُس وقت ہر قدم پراپنے تن من اور دھن سے ہمارا ساتھ دیاجب امریکا بھی
ہمارادامن چھوڑگیاتھامگرہمارے پیارے دوست امریکانے بغیر کسی دباؤاور ڈرکے
اور ہمیں کسی بھی موقعے پر اتنہانہیں ہونے دیا ۔
مگر افسوس ہے کہ آ ج ہم کیسے سعودی عرب کے دوست اور برادراسلامی ملک ہیں کہ
جب ہمارے بڑے برادرمُلک سعودی عرب پر (کسی بھی حوالے خواہ ذاتی و سیاسی یا
علاقے حوالوں سے اِس پر مصیبت اور پریشانی کی کوئی گھڑی آن پہنچی ہے تو ہم
نے اِس کی مددکرنے کے بجائے اپنے مختلف حیلے بہانوں سے اپنادامن بچانے میں
سرگرمِ عمل ہیں)کیا سعودی عرب کی مصیبت اور پریشانی کی اِس گھڑی میں ہمیں
ایساکچھ کرناچاہئے تھا...؟جیساگزشتہ دِنوں ہماری حکومت ہمارے اراکین
پارلیمنٹ نے کردکھایاہے ...؟؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسااِنہوں نے یوں کیاہے کہ
اِن کے نزدیک سعودی عرب سے زیادہ امریکی مفادات عزیز ہیں اور امریکاکو
سعودی عرب سے زیادہ ایران سے وابستہ مفادات پیارے ہیں اصل میں ایران کو
ناراض نہ کرنے کی آڑ میں ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کے اراکین نے امریکی
ناراضگی کو مقدم جان کر سعودی عرب کی مددکی درخواست پر یہ ساری ڈرامہ بازی
کی ہے ۔
آ ج جس پر متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ ڈاکٹرانورمحمدقرقاش نے یمن کے
تنازعِ میں غیرجانبداررہنے کے فیصلے پر پاکستان کو خبردارکرتے ہوئے یہ تک
کہہ دیاہے کہ’’ اُسے اِس اہم مسئلے پر متضاداور مبہم رائے کی بھاری قیمت
چکاناپڑے گی ‘‘ جہاں اُنہوں نے یہ کہاہے تو وہیں ڈاکٹرانورمحمدقرقاش کو یہ
بھی کہناپڑگیاہے کہ’’پاکستان کو خلیج تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساتھ اپنے
اسٹرٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیارکرناہوگا اور اسلام آباد کا
طرزِ عمل’’ کاہلی پر مبنی غیرجانبدارانہ موقف کے سواکچھ نہیں‘‘انہوں نے
کہاکہ ’’ اِسی طرح یمن تنازع پر ترکی اور ایران کا موقف بھی یکساں ہے جس کی
مذمت کرتے ہیں‘‘اوراِس ہی اُنہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کردیاہے کہ ’’اسلام
اور انقرہ کے لئے خلیجی ممالک کی بجائے تہران زیادہ اہم ہے‘‘ ۔
جبکہ حیرت انگیزطور پر متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ ڈاکٹرانورمحمدقرقاش
کے اِس بیان پر پاکستانی دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا یہ کہناہے کہ
پاکستان مصدقہ اطلاع تک امارتی وزیرکے بیان پراپناکوئی ایسادرِ عمل ظاہر
نہیں کرے گاجس سے پاکستان کو اپناموقف واضح کرنے میں دشواری کا
سامناکرناپڑے ۔
اَب یمن تنازعِ خواہ کسی مُلک کی ذاتی و مفاداتی لڑائی ہویا خواہ اپنی اپنی
بادشاہت بچانے کے لئے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ ہورہی ہوآج اگر موجودہ حالات اور
واقعات کی وجوہات کی بناپر ہمارابڑااور قابلِ احترام اور لائق صدمحبت و
خلوص والادوست اور برادر مُلک سعودی عرب درخواست کے ساتھ پاکستان سے افواج
پاک اور سامانِ حرب کی مددکا شدت سے خواہشمند ہے تو ایسے میں حکومتِ
پاکستان اور پارلیمنٹ کی تمام اپوزیشن کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قومی
عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ چاہئے کہ سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں
اور یمن تنازعِ پر اپنے قول وفعل کا جائزہ لیں کہ آج عرب سے ہمارے لئے سخت
زبان میں بھاری قیمت چکانے کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں...؟؟اور پھر یہ
ہمارے حکمرانوں سمیت ساری پاکستانی قوم سعودی عرب کی درخواست پر فوراََ
لبیک کہتے ہوئے’’ سعودی عرب کی حکومت اور عوام کے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر
کھڑی ہونے کااعلان کردے ‘‘ ۔
یقینا اِس طرح پاکستان، متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ ڈاکٹرانورمحمدقرقاش
کواپنے اُس بیان کو جس میں اُنہوں نے کہاتھاکہ ’’ پاکستان کو یمن تنازع
جیسے اہم مسئلے پر اپنے متضاداور مبہم رائے کی بھاری قیمت چکاناپڑے گی ‘‘
واپس لینے پر مجبورکردے گااور یوں پچھلے چنددِنوں سے یمن تنازع کے باعث پاک
عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کسی وجہ سے حائل ہوجانے والی غلط
فہمیاں بھی دورہوجائیں گیں اور پاک عرب تعلقات میں پہلے سے بھی زیادہ بہتری
اور مضبوطی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ |
|