آنسو نہیں رک رہے تھے.رخسار پر انکے بہتے نشان صاف دیکھے جاسکتے تھے.کچھ
بہت برا ہوچکا تھا.
یک دم ہی جیسے وقت نے پھر پلٹا کھایا.
عتیق کے چہرے پر اسکا عزم صاف نمایاں تھا.وہ انجام سے باخبر پر خوف زدہ
نہیں تھا.وہ جو کرنے جا رہا تھا اسکا اثر اسکی آئندہ زندگی اور گھر بار پر
پڑ سکتا تھا.پر ایسا لگتا تھا کہ اس نے سب کچھ رب کے حوالے کردیا تھا.بے شک
اس ذات بار ی سے بہتر پالنے والا اور منصنف کوئ نہیں.
احسان کو مطمئن کرکے اس نے دوبارہ بائیک اسٹارٹ کی اور پولیس اسٹیشن کی
جانب روانہ ہوا.
ہائ وے پر ہی اسکے موبائل نے بجنا شروع کردیا.ایک لمحے اس نے بائیک روکی
اور کال ریسیوو کی
جی کون شاہنواز آپ کہیئے کیا کہنا ہے آپ کو .....عتیق
شاہنواز ......ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ہمارے بارے میں سب پتہ چل گیا ہے بہتر
یہی ہے کہ ہمارےساتھ مل جاؤ
ورنہ انجام ........سوچ سکتے ہو بہت برا بھی ہوسکتا ہے....وہ غرایا......
عتیق نے غصے سے کہا .....تم کچھ نہیں کر سکتے بزدل لوگ ہوتے ہیں وہ جو چند
روپوں کے لیئے لاکھوں معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں.جاؤ جو کرنا چاہتے ہو کرلو
میرے قدم اب نہیں رکیں گے.یہ کہہ کر اس
نے فون بند کردیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا.عینی شاہد بتاتے ہیں
کہ اچانک ہی کوئ دن کے بارہ بجے کے قریب ایک خوفناک حادثہ رونما یوا......
سڑک پر دوسری جانب سے ایک ہیوی ٹرک ایک نوجوان کی بائیک کو زوردار ٹکر
مارتا ہوا چلا گیا.......جی ہاں وہ نوجوان عتیق ہی تھا اوریہ کوئ اتفاقی
ایکسیڈنٹ بھی نہیں تھا.عتیق نے بائیک ایک طرف کرکے اسے گزرنے کا انڈیکیٹر
دیا تھا پر دیکھنے والے بھی محسوس کرسکتے تھے کہ یہ ایک واضح اور ارادی قتل
تھا.گو کی بعد میں اسے ایک حادثہ کی شکل دے دی گئ.
عتیق کا جسم روڈ پر لہولہان پڑا تھا.اسے راستے میں ہی تقریبا ختم کردیا گیا
تھا.اس کے ٹھیک دو گز پیچھے شاہنواز کی گاڑی تھی. اپنا اطمینان کرنے کے بعد
وہ وہاں سے فرار ہوگیا..
لوگ عتیق کو مقامی ہسپتال لے گئے.روڈ پر ہر طرف لال لال گاڑھا خون بکھرا
پڑا تھا.لال لال عقیق جیسا
لوگ آج بھی اس حادثے کو یاد کرکے لرز اٹھتے ہیں
احسان ابھی عتیق کے گھر پہنچا ہی تھا کہ اسکے ساتھ ہوئے حادثے کی خبر بھی
پہنچ گئ.ایک کہرام برپا ہو گیا.
احسان نے چپ سادھ لی.اسکے دوست نے اس سے رازداری کی توقع جو کی تھی.اور
شاید اس لئے بھی کہ اسکے گھر کی زمہ داری وہ احسان کو سونپ کے گیا تھا.اور
افشا ہونے پر وہ اور عتیق کی فیملی بھی خطرے میں پڑسکتی تھی.
سب فورا ہسپتال روانہ ہوگئے.کچھ دن زندگی موت کی لڑائ لڑتے ہوئے آخر کار
عتیق نے دم توڑ دیا.
واقعے کو حادثہ کا رنگ دے دیا گیا.گواہوں نے بھی اپنے بیانات بدل لیئے
آخرکار بہت سے دوسرے کیسوں کی طرح یہ بھی پولیس کی فائلوں میں ہمیشہ کے
لیئے بند ہوگیا
عتیق کو سسکیوں اور آہوں کے ساتھ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا.......یہ
واحد ایسا واقعہ تھا جسکی جزئیات سے تک سب واقف تھے پر آپ اور ہم جیسے شاید
کتنے ہی لوگ ہوں گے جو ایسے واقعات پر صرف اپنی بھلائ کے لیئے کبوتر کی طرح
آنکھیں بند کرلیتے ہیں.بہت کم لوگ عتیق جیسے ہوتے ہیں جو راہ حق میں اپنی
جان مال اور گھر بار کو بھی قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے...پھر چاہے
انجام کیسا بھی ہو.
میں پوچھتی ہوں آخر کیا ملا اس غریب کو یہ سب کرکے
جان گئ.گھر کا شیرازہ بکھر گیا.کاروبار چلانے والا نہین رہاوہ اپنے گھر کا
واحد وارث تھا اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اسکے بعد اسکی ماں
بہنیں دربدر ہو جائیں گیں.پھر بھی کیوں کس لیئے
شاید اس کا جواب میں یا آپ دے بھی نہیں سکتے جو لوگ اللہ کے بتائے راستے پر
چلتے ہیں انکو دنیا کی واہ واہی اور صلہ کی تمنا بھی نہیں ہوتی اور سوائے
چند لوگوں جنھوں نے چپ سادھ لی اور رب کے کون جانتا تھا کہ اس بچے نے کیا
قربانی دی
اس دن کون سی آنکھ نہیں تھی جو اشکبار نہیں تھی
شاید آسمان بھی اس دن کھل کے رویا.......................
بارش سے عتیق کی قبر کی مٹی گیلی ہوگئ تھی اور ایک دھیمی سی خوشبو اس میں
سے اٹھ رہی تھی...بعد میں سننے میں آیا کہ وہ دونوں سندھی اچانک ہی کہیں
غائب ہوگئے. عتیق کی فیملی اپنا گھر اور دوکان بیچ کر کراچی شہر چلی گئ.اور
بظاہر یہ باب ہمیشہ کے لیئے بند ہوگیا پر ابھی بھی کچھ سوال تھے ہمارے ذہن
میں اسکا جواب ایک ہی شخصیت دے سکتی تھی..........
تقریبا کوئ بارہ سال بعد بس اسٹاپ پر ایک شناسا سا چہرہ دکھا.......ہاں وہ
نزہت باجی ہی تھیںمیں انکا چہرہ کیسے بھول سکتی تھی میں نے پاس جا کر انکو
سلام کیا......آپا آپ یہاں پہچانی مجھے...میں شھزین
ایک لمحہ بس انھوں نے نظر کی اور کوئ جواب دیئے بنا آتی ہوئ بس کو اشارہ
کیا اور یہ کیا وہ بس رکتے ہی اس میں سوار بھی ہو گئیں..........
میرے پاس سب جاننے کے لئے شاید دوبارہ یہ موقع نہیں آتا..میں بھی انکی
تقلید میں بس میں سوار ہوگئ.
کیوں پیچھا کررہی ہو میرا مجھے کسی سے کوئ بات نہیں کرنی .....نزہت غصے سے
بولی
آپا پلیز ہم آپکا دل نہیں دکھانا چاہتے بس آپ سے کچھ جاننا چاہتے ہیں عتیق
بھائ کے بارے میں پلیز آپا ہم نے تقریبا للجاتے ہوئے ان سے درخواست کج.....
بھائ کا نام سن کر انکے چہرے پر درد اور نمایاں ہوگیا.....اچھا چلو میرے
ساتھ
اور وہ اپنے ساتھ مجھے اپنی رہائش گاہ لے گئیں......
آؤ اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے وہ سامنے پڑے صوفہ پر براجمان ہو
گئیں.......کیا پوچھنا ہے پوچھو.........
آپا ایسا کیا ہوا جو آپ لوگ شہر چھوڑ گئے ..ہمارے سوال پر جب انھوں نے اپنا
چہرہ اٹھایا تو وہ آنسوؤں سے تر تھا
پھر وہ کانپتی یوئ آواز میں گویا ہوئیں........
ہم نادان تھے اپنے ہیرے جیسے بھائ کی قدر نہیں کرسکے اور نادانی میں اسکی
عزت کو بھی روندتے رہے......
بہت بھاری قیمت ادا کی ہے ہم نے شہزین ....اور اچانک ہی ہمارا ہاتھ پکڑ کے
انھوں نے ہمیں زبیدہ خاتون کے روبرو کردیا..........
دیکھو یہ وہ عورت ہے جس نے بیوگی بھی جھیلی اور جوان بیٹے کی موت کا صدمہ
بھی.اور ہم جیسی اولاد کی بے راہ روی بھی.....
پتہ یے آج تک اسکی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو بھی نہیں ٹپکا خاموش ہے یہ اسی
لمحے سے نہ جیتی ہے نہ مرتی ہے. بس اسکی آنکھیں ایک ٹک دروازے پر ٹکی رہتی
ہیں کہ شاید اسکا بیٹا ابھی کہیں سے واپس آجائے......اسی لمحے نصرت بھی
کمرے میں داخل ہوئیں. کمرے کا ماحول اچانک ہی سوگوار سا ہوگیا پر زبیدہ
خاتون اسی طرح خاموش بیٹھی رہیں.......
بعد میں نصرت باجی نے ہمیں بتایا جو ہم آپکے گوش گذار کرتے ہیں........
بھائ ہسپتال میں تھے جب ہمیں ڈاکٹر یہ خبر دی کہ ابھی کچھ امید ہے
عتیق کے سر پر گہری چوٹ آئ تھی.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ایسا لگتا تھا جیسے
سر بیچ میں سے دولخت ہوگیا ہو پر جانے کیا وجہ تھی کہ سانس کی ڈور ابھی بھی
ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی....جیسے ہی یہ خبر سبکو ملی ہم بہت خوش ہوگئے ایک
امید نظر آنے لگی
شاہنواز اور بلاول اس وقت وہیں موجود تھے.یہ خبر سنکے انھیں اپنے سر پر
تلوار لٹکتی نظر آنے لگی.......
انھوں نے سب کو مطمئن کرکے گھر واپس بھیجا آپ لوگ تھوڑا آرام کرلیں ہم ہیں
نا ہم عتیق کا پورا دھیان رکھیں گے.......شاہنواز زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ
بولا.....
سبکے جانے کے بعد وہ عتیق کا کیس دیکھنےوالے ڈاکٹر سے ملے
جی ڈاکٹر صاحب تو کیا کہہ رہے تھے آپ عتیق بچ سکتا ہے.....
جی جی حیرت کی بات تو ہے پر یہ معجزہ قدرت کا ہے ورنہ اتنے خطرناک ایکسیڈنٹ
کے بعد کسی کا بچنا میری ڈاکٹری کی ہسٹری مینں پہلا واقعہ ہے
ڈاکٹر نے جواب دیا
جی ٹھیک کہا پر جان ہے ہوش تو نہیں یہ بھی ہوسکتا ہے وہ کبھی ہوش میں ہی
نہیں آئے یہ کہہ کر اس نے ڈاکٹر کا تھوڑا ہاتھ دبایا
مطلب کیا ہے آپکا ڈاکٹر اٹھ کے کھڑا ہوگیا...
مطلب صاف ہے ہم نہین چاہتے کہ وہ ہوش میں آئے اور اسکے لیئے ہم آپکو بھاری
رقم ادا کرنے کے لیئے تیار ہیں ورنہ آپ بھی اسکی جگہ لیٹے ہوسکتے ہیں
.....ایک واضح دھمکی.........
وہ اپنی جگہ سن ہوکر رہ گیا.
جان اور پیسہ یہ دو چیزیں ہی تو انسان کی کمزوری ہوتی ہین وہ راضی ہوگیا
اور بہت ہی رازداری سے عتیق کو زہر کا انجکشن دے دیا گیا.........
رہی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تو اسکو بدلنا کون سا مشکل کام تھا......
عتیق کی موت کے بعد بھی وہ لوگ کچھ دن تک اسکے گھر آتے رہے یہ بات احسان سے
برداشت نہیں ہوئ اور اس نے سب کچھ زبیدہ خاتون کو جاکر بتادیا.......
جوان بیٹیوں کی بدنامی کے خوف سے اور انکے مستقبل کی خاطر انھوں نے چپ سادھ
لی اور راتوں رات گھربار بیچ کر دوسرے شہر چلین آئیں....پر جہاں بھی انھوں
نے ریائش اختیار کی انکی بدنامی ان سے پہلے چلی آئ.....
یہی وجہ ہے کہ میں نے تم کو پہچاننے سے انکار کیا..... ہم آئے دن گھر بدلتے
رہتے ہیں. شادی تو دور کی بات ہے زندگی بھی مشکل ہوگئ ہت.....نزہت باجی
روتے ہوئے بولیں...ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں چلا ویسے بھی ایسے لوگوں کو
ہمارا قانون خود گنجائش دیتا ہے.....
میں دم سادھے چپ چاپ بیٹھی تھی....
اوہ ..... میرے خدا!!!!! کوئ اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے
پھر دھیرے سے میں اس ماں کے قدموں میں بیٹھ گئ
بہت عظیم تھی یہ ماں جس نے ایسے بیٹے کو جنم دیا
اور جانے کب تک اس جاری آزمائش کا حصہ بننا لکھا تھا
ماں جی! میں ان سے مخاطب ہوئ آپ تو بہت مضبوط ہو آپ کو اپنی اولاد پر فخر
ہونا چاہیئے اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر پوری انسانیت کی خدمت کی ہے
پتہ ہے مجھے ہمیشہ راشد منہاس کے اور عتیق بھائ کے چہرے میں مماثلت دکھتی
تھی.
پر یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک جیسے دکھنے والے ان دونوں نوجوانوں میں ایک
بات مشترک ہے
وہ ہے انکا جذبہ انکا یقین اور اپنے مذہب اور اپنی مٹی سے محبت
شہید ہے آپکا بیٹا .......بد نصیب ہیں وہ لوگ جو آپکو بدنام کرتے پھرتے ہیں
وہ تو جنت کے دروازے پر آپکا استقبال کرنے کے لیئے کھڑا ہے
دیکھیں یہ تصویر لگتا ہے کہیں سے کہ کسی مردہ شخص کی ہے.
آپکا بیٹا آپکے پاس ہے ہم سب کے پاس اور ہم سب کو مسکرا کر دیکھ رہا ہے
میری آواز میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی میرے جملے اپنا وجود لڑکھڑارہے
تھے.......
دفعتا زبیدہ خاتون کے جسم میں حرکت ہوئ..
وہ بری طرح کانپ رہی تھیں
وہ رو رہی تھیں.زور زور سے ............
ہم میں سے کسی نے انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی. یہ ضروری تھا کہ یہ آنسو
بہہ جائیں جو نہ جانے کب سے ان آنکھوں میں رکے ہوئے تھے.......
مجھے نہیں پتہ کہ اس کہانی سے آپ نے کیا سبق لیا
پر یہ ایک حقیقت تھی جسے بہت دن سے میں تحریر کرنے کے لیئے بے چین تھی.
اسلیئے اسے افسانے کا رنگ دے کر ہماری ویب کی زینت بنایا......
اگر آپ بھی مجھ سے متفق ہیں تو ایک بار ضرور دل سے اس ماں اور اس نوجوان
عتیق کے لیئے ضرور دعا کیجیئے گا....اور وعدہ کیجے گا کہ ہم کسی بھی ایسے
واقعہ پر اپنی آنکھیں بند کرنے کے بجائے سچ اور صرف سچ کا ساتھ دیں گے آج
بھی ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنکا ضمیر آج بھی زندہ ہے مردہ
نہیں.......
ہمارے چہرے آنسوؤن سے تر ضرور تھے پر ہمارے ہاتھ اس نوجوان کو سلیوٹ کرنے
کے لیئے اٹھ چکے تھے.
شاید اس دن کے بعد بھی ہم نے کبھی عقیق کو نہین چھوا کبھی گلاب ہاتھ میں
نہیں لیا اب بھی ہمیں سرخ چیزیں دیکھ کر بہتا خون یاد آتا ہے.....
اللہ ہم سب پر اپنی رحمت بنائے رکھے.
آمین
شکریہ
آپکی حیاء غزل |