افسانہ.... کٹی پتنگ پہلی قسط

(معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی طرف اشارہ کرتی ایک سبق آموز کہانی)


اساں ہٹر ٹر جاناں اے دن رہ گئے تھوڑے
اساں ہٹر ٹر جاناں اے دن رہ گئے تھوڑے..............گھر میں بجتے رخصتی کے گانے سب کو ہی آزردہ کر رہے تھےاور وہ .........جس کے لیئے یہ سب اہتمام کیا گیا تھا.....بے تاثر تھی اور سپاٹ چہرہ لیئے سب کے بیچ ایسے بیٹھی تھی.جیسے اس سب سے اسے کوئ سروکار ہی نہیں
سرسوں کے رنگ جیسا پیلا جوڑا......اور موتیئے اور گیندے کے پھولوں سے بنے گہنے .....ہاتھوں میں سجی خوبصورت نقش ونگار سے مزین مہندی جن سے ہلکی ہلکی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی...کسی بھی کنواری لڑکی کا دل دھڑکا سکتی تھی
اور وہ بھی اہسے وقت جب ودائ میں چند دن ہی رہ گئے ہوں.....پر وہ تو جیسے اپنے آپ میں ہی نہیں تھی.وہاں موجود سب لوگ اسکے ایسے برتاؤ کو نئ زندگی میں داخل ہونے اور آگےہونے والے نئے تجر بات کے خوف سے تعبیر کر
رہے تھے.جس سے ہر لڑکی دوچار ہوتی ہے.
پتہ نہیں جس گھر میں وہ اپنا نیا آغاز کرنے جا رہی ہے وہ کیسے لوگ ہوں.اسکو کیسے ماحول اور رہن سہن کا سامنا کرنا پڑے.....اسے کتنے دن لگیں سب سے گھلنے ملنے میں اور میکہ کیا وہ فراموش کرپائے گی بھی یا نہیں وغیرہ وغیرہ غرض ایسی بہت سی کئ باتیں...........پر جہاں انجانا خوف ہوتا ہے وہاں زندگی کے ہم سفر کے ساتھ کی انجانی سی مسرت بھی ہوتی ہے جو سیماب کے چہرے سے غائب تھی. پر شاید شادی کی گہما گہمی اور ہنگاموں میں اس طرف کسی نے توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی.
وہ بیٹھے بیٹھے اکتا گئ تھی.جیسے ہی وہ پاس بیٹھی اپنی سہیلی سے اس کا ذکر کرنے لگی تبھی کمرے میں اسکی ماں داخل ہوئ.......چلو چلو ہٹو سب دلہن کے پاس سے تم سب اپنا گانا بجانا جاری رکھو میں اسے دوسرے کمرے میں لے کے جارہی ہوں تاکہ وہ تھوڑا آرام کرلے.....ثمینہ بیگم کے یہ کہتے ہی سب لڑکیاں ادھر ادھر ہو گئ.جیسے ہی وہ سیماب کو لے کر وہاں سے نکلی .....ڈھولک پر پھر سے تھاپ پڑنے لگی
مہندی سے لکھ دوری ہاتھوں پہ مورے میرے سانوریا کا نام
میرے سانوریا کا نام.....
جاتی سیماب کے کانوں میں جب یہ آواز پڑی تو جیسے اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور کانٹے کی طرح چھبنے لگا....
آواز ابھی بھی آرہی تھی.....
کتنا سہانا سمے ہے ملن کا مجھ کو سنورنے سے کام
مجھ کو سنورنے سے کام.....
کیا سچ میں......سیماب نے خود سے پوچھا....کیوں آخر کیوں....ہو رہا ہے میرے ساتھ ایسا....
کیوں مجھے خوشی محسوس نہیں ہورہی
کیوں اتنا ڈر لگ رہا ہے.....
اسکے ان سوالوں کا جواب خود اس کے پاس بھی نہیں تھا.....
دھیرے دھیرے جیسے آواز معدوم ہوتی گئ.......
کمرے میں داخل ہوتے ہی جیسے اس نے یک دم ہی بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر خود کو بیڈ پر گرایا
دھم .........
کیا ہوا میری جان ....ثمینہ بیگم نے محبت سے اسکی پیشانی چومی بس ایک دو دن کی بات ہے یہ سب ہنگامہ ختم اور پھر آرام ہی آرام ....
انکی آنکھیں آبدیدہ ہو رہی تھیں یہ سوچنا ہی انکے لیئے سوہان روح تھا کہ انکی لاڈلی اکلوتی بیٹی کچھ دن میں انھیں چھوڑ
کر چلی جائے گی..نہین ماں میں ٹھیک ہوںآپ میری فکر نہ کریں.اس نے اپنے طور پر ماں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی.
ٹھیک اسی لمحے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئ.....
ٹھک ٹھک ......ٹھک ٹھک........
میں دیکھتی ہوں کون ہے ...ثمینہ بیگم نے سیماب کی نگاہوں کے تعاقب کرتے ہوئے کہا.جسکی آنکھیں سوالیہ انداز میں دروازے پر جم گئیں تھیں....
جیسے ہی دروازہ کھلا سامنے فیصل صاحب کھڑے تھے...وہ سیماب کے والد تھے. آپ کوئ کام تھا تو آپ مجھے آواز دے دیتے ......ثمینہ بیگم جلدی سے بولیں....
یہ سن کر وہ دھیرے سے مسکرائے اور بولے کیوں ہم اپنی بیٹی سے ملنے نہیں آسکتے ویسے بھی اب تو یہ ہماری مہمان ہیں اپنے بابا کو چھوڑ کر جانے والی ہیں
کیوں بیٹا؟؟اپنے بابا کو بھول تو نہیں جاؤ گی یاد رکھو گی ......
وہ مضبوط چہرہ اس وقت ایک باپ کی محبت کا آئینہ دار تھا..اور آواز جیسے آنسوؤں سے بھیگی ہوئ....
سیماب نے بے چین ہو کر باپ کے ہاتھ تھام لیئے .....نہیں بابا آپ ایسے کہیں گے تو ہم کبھی شادی نہیں کریں گے....
ہاہاہاہاہاہاہاہا..........اسکی یہ بچکانہ سی بات سن کر جیسے وہ دونوں روتے روتے ہنس پڑے.....
ارے نہیں بیٹا! جب ماں باپ اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو کسی اور کو سونپتے ہیں تو تھوڑی تکلیف اور درد تو محسوس ہوتا ہے نا اسکا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ ہم اپنے فریضہء قدرت سے منہ چرائیں... خوش قسمت ہوتے ہیں وہ ماں باپ جنکی بیٹیاں انکے گھر سے بخیریت وداع ہوتی ہیں.....
پر بابا ہم کوئ بوجھ ہیں جو آپ لوگ ہمیں خود سے الگ کررہے ہو ...سیماب بچوں کی طرح ضد کررہی تھی....
کاش کاش .....یہ شادی رک جائے.....
کیسے بھی..............
نہیں ایسی کوئ بات نہیں یہ رب کا بنایا ہوا نظام ہے اب دیکھئے نا اگر ہم آپکی امی کو دلہن بنا کر گھر نہیں لاتے تو اتنی پیاری سی بیٹی بھلا کیسے ہمیں ملتی......انکی بات ثمینہ بیگم کے چہرے پر شرم کی سرخی پھیل گئ.....
چلین ہم نے بہت وقت لے لیا آپ کا ...اب آرام کریں...تھک گئیں ہوں گیں....
لوٹتے ہی جیسے اچانک کوئ خیال آیا اور وہ پھر پلٹے.....
سیماب ....شہزاد آپ سے ملنا چا ہتے ہیں بہت اصرار کررہے تھے سو منا کرنا مناسب نہیں سمجھا....
نہیں مجھے کسی سے نہین ملنا.... وہ ایک دم ہی بے چین ہو گئ.......
تھوڑی دیر پہلے جو خوف غائب ہوگیا تھا اس نے پھر سیماب کو اپنی گرفت میں لے لیا....
کیا ضرورت ہے آپکو تو پتہ ہے نا انکی حالت کا.....ثمینہ بیگم.......
ہممممم....پر بیگم انھوں نے ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سیماب کو چاہا ہے...اب اسکی ودائ کے وقت اگر وہ اس سے ایک بار ملنا چاہتے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے....کچھ نہیں ہوگا آپ مطمئن رہیں ...
پر بابا ہمیں نہیں ملنا ان سے ....بیٹا بس ایک بار بہت للجا کر انھوں نے ہم سے درخواست کی ہے....
سیماب کی کیفیت بہت الجھی ہوئ تھی. اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اپنی بات اپنے والدین کو سمجھائے..... سو اس نے خود کو جسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا.....ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں
فیصل اسکے جواب سے خوش ہوگئے ...
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 95752 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More