بال اور گول(Ball and Goal)

 یہ زندگی بہت عجیب ہے،ڈھونڈو تو کچھ نہیں ملتا اور اگر کچھ نہ ڈھونڈو تو لگتا ہے کہ عقلِ سالم قریب ہی تشریف فرما ہے۔سوچو تو سمجھ دور بھاگتی ہے اور اگر نہ سوچو توسمجھ ذہن کے دریچوں میں سے جھانکنے لگتی ہے۔دانائی کا تعلق لائبریریوں، یونیورسٹیوں، تعلیم گاہوں، عبادت گاہوں،عدالتوں وغیرہ سے ہونے سے کسی کو انکار تو نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی اچھا نہیں کہ دانائی کھیل کے میدانوں میں بھی اپنا خیمہ لگائے ہوئے ہوتی ہے اور جو دیدۂ بینا اس کو وہاں دیکھنا چاہے وہ ملنے کے لئے تیار بیٹھی ہوتی ہے۔ اسے کسی سے ملنے میں کوئی رد و کد نہیں ۔وہ ہر کسی کو کھلے بازوؤں سے آگے بڑھ کر گلے لگانے کے لئے ہمہ وقت رضا مند ہے۔ اسے کوئی بھی رنگ و نسل، مذہب و ملت، علاقہ، امارت و غربت وغیرہ کی باتیں کسی کی طرف بڑھنے یا کسی کو اپنی طرف آنے سے نہیں روک پاتیں:
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر راہ گذر پتے نقشِ کفِ پائے یار دیکھ

اچھائی کرنے والے چکلوں میں جا کر بھی اچھائی کر آتے ہیں اور برائی کرنے والے حرم میں جا کر بھی برائی کر آتے ہیں۔ یہ بات تو کرنے والے پے منحصر ہے کہ وہ کہاں کیا کرے۔ اسی طرح لینے والے پر منحصر ہے کہ وہ کہاں سے کیا لے۔ہمارا مطلب تو آپ پے واضح ہو چکا کہ لینے والے کھیل کے میدان سے بھی دانائی لے سکتے ہیں۔

کھیل کے میدان کی عام دانائی تو یہ ہے کہ صحت کو اچھا بنانے اور برقرار رکھنے کے واسطے کھیل، ورزش یا محنت مشقت ضروری ہے۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ صحت اپنے لوازمات میں کھیل کا عنصر شامل کرتی ہے اور یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے اور جو بات ہر کوئی جانتا ہو وہ تو کوئی دانائی نہیں کیوں کہ وہ تو اپمی قدر کھو بیٹھتی ہے۔دانائی کی بات تو وہ ہوتی ہے جو کوئی کوئی جانتا ہے یا انسان کو بڑی کوشش سے حاصل ہو، یا قدرت خود بخود کسی بدھا کے شعور پے اتار دے۔ الغرض دانائی بہت کم یاب ہوتی ہے ہر بات کو دانائی کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر تو کھیل کے میدان میں دانائی تلاش کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔ ہاں اگر مشکل سے کوئی بات دستیاب ہو تو وہ دانائی کے زمرے میں آتی ہے اس لئے ہم کوئی ایسی بات تلاش کرتے ہیں جو عام نہ ہو یا جسے سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہو۔
اکثر کھیلوں جیسے کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، سکوائش، ٹینس، ٹیبل ٹینس، بیس بال، ہینڈ بال وغیرہ کا تعلق بنیادی طور پر بال سے ہے۔ اس بال کی شکل دنیا کے گلوب سے بہت ہی مشابہ ہے،اگر دنیا کا نقشہ اس پر لپیٹ دیا جائے تو اسے کچھ لمحوں کے لئے دنیا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کے لئے یہ بال دنیا جیسی اہمیت ہی رکھتا ہے۔ان کی دنیا کا انحصار اس بال کی حرکات و سکنات پر ہوتا ہے۔ یہاں فلسفی کو کیا سمجھ آئے گی کہ بال کے باؤنڈری سے باہر جانے ، گول کے اندر چلے جانے سے کیا ہو تا۔ کتنے دل اس ایک حرکت سے خوش اور کتنے پریشان ہو جاتے ہیں۔ گیند کی حرکت پر دلوں کا حال تو کوئی دل والا ہی سمجھ سکتا ہے۔کرکٹ سے ہی بات کا آغاز کرتے ہیں کہ گیند پھینکنا یعنی باؤلنگ کرنا ایک اچھی خاصی سائنس کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔اور پھر اس گیند کو کھیلنا ایک دوسری سائنس ہے۔ ہٹ لگی گیند کو روکنا یا اچھلی گیند کو کیچ کرنا اپنی اپنی جگہ مہارتوں کا درجہ پا چکے ہیں۔ اس ایک گیند کی کیا قسمت ہے کہ لاکھوں انسانوں کو ، انسانوں کی وہ نظر نہیں ملتی جو اس ایک بے جان گیند کے حصے میں آتی ہے۔ کتنے حسینوں کی حسین نظریں اس گیند کا تعاقب کرتی ہیں۔ پھر اس گیند کی اچھل کود کے ساتھ کتنے انسانوں جے جذبات کی اچھل کود منسلک ہو جاتی ہے۔ اب تو گیند کی حرکتوں کو اور بھی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ ایک ایک بال پے دنیا میں ریٹ لگتے ہیں۔کتنے گھر بنتے اور کتنے اجڑتے ہیں۔ یہ گیند اب ماضی کی طرح سادہ سا جسم نہیں رہا جو کہ ہر وقت ٹھوکریں کھاتا اور انسانوں کے ہاتھوں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہو۔ اس گیند کو باؤلر جب اپنی رانوں سے رگڑتے ہیں تو اس کی سانسیں پھول جاتی ہیں کہ اب اسے منہ کے بل زور سے زمیں پر پٹخیں گے اور دوسری طرف سے ایک بیٹ یعنی بلا اس پر غصے سے یوں لپکے گا جیسے اس کی چاردواری کا تحفظ پامال ہو گیا ہو۔یارکر، گگلی، باؤنسر،سپن، فاسٹ سب کچھ اب اس بال کی سائنس کی اکائیاں ہیں۔چوکا، یا چھکا اسے ہواؤں میں اچھالتے ہیں اور ساتھ ہی کتنے نوجوان ناچنے لگتے ہیں اور کتنے منہ لٹک بھی جاتے ہیں۔ اس ایک بال میں کتنوں کی جان اٹکی ہوتی ہے۔

فٹ بال تو دنیا کے گلوب سے زیادہ قریب حلیہ رکھتا ہے۔ ایسے لگتا کہ اس کے اوپر لگے ہوئے پیچ دنیا کے برِ اعظموں کی نشان دہی کر رہے ہوں۔اسے بھی انسانی ٹھوکروں کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیسا نصیب ہے اس بال کا جسے دیکھنے دنیا کے سب سے بڑے ہجوم تشریف لاتے ہیں۔ جسے حسین لوگوں کی نظروں کا محبوب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔کتنی دنیا اس ایک فٹ بال کی رقص و سرور کی حرکتوں کو دیکھنے کے لئے اپنی زندگی کو ایک جگہ روک دیتے ہیں۔ اس ترقی یافتہ دنیا کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے لیکن اس بال کے لئے ایسے ایک دو نہیں کروڑوں لمحات قربان کر دیئے جاتے ہیں۔قریباً ایسی ہی باتیں دوسری کھیلوں میں استعمال ہونے والے بالوں سے متعلق بھی کہی سنی جا سکتی ہیں۔

اب ہم گول کی طرف آتے ہیں کہ گول کو کھیل نے کیسی اہمیت سے نواز دیا ہے کہ اس میں سے بال گزر جائے تو کچھ اور بات ہے اور اگر اس میں سے نہ گزرے تو کچھ اور بات ہے۔ کرکٹ میں بال کا ٹارگٹ وکٹ ہے اگر بال ان کو چھو لے تو منزل مل گئی اور اگر ایسا نہ ہو تو منزل ابھی نہیں ملی۔یا پھر کھیل کو اور دلچسپ بنانے کے لئے کچھ اور صورتیں بھی اہمیت کی حامل بنا دی گئی ہیں۔ہاکی اور فٹ بال میں تو یہ گول بالکل واضح ہے اور اس کی اہمیت ماضی کی کسی مقدس مقام سے کم نہیں ہے کہ وہاں سے گزر جانے سے انسان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتے ہیں اور اگر وہاں کوئی غلطی ہو جائے تو دونوں برباد۔ باقی کھیلوں میں اگر بالکل ایسی کیفیت نہیں تو اس ست ملتی جلتی ضرور ہے۔کھیل کے اصول کھیل کو خوبصورت بناتے ہیں۔ اگر کھیل سے اصول نکال دیں تو کھیل صرف ورزش کا درجہ رکھتی ہے لیکن اصولوں کے ساتھ کھیل زندگی کا درجہ بھی رکھتی ہے۔

جب بات اس طرف آہی گئی ہے کہ کھیل زندگی کا درجہ بھی رکھتی ہے تو کیوں نہ اس پر بات کر ہی لی جائے۔ہم پہلے مختصر بات کرتے ہیں اور پھر بال کی کھال جتنی ہو سکی اتارتے جائیں گے۔

بال یہ دنیا ہے اور گول اس دنیا کے مقاصد ہیں۔ اب ہم بات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔یہ بات ہے تو اتفاق ہی کہ گیند یعنی بال اور دنیا کی شکلوں میں مشابہت ،یکسانیت کی حد تک ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ مشابہت بظاہر شکل کی نہیں بلکہ مزاج اور خصائل کی بھی ہے۔ہم اس پر وضاحت سے بات کرتے ہیں۔
بظاہر بال بھی گول ہے اور دنیا بھی۔ اس گول پن میں دونوں کا مزاج چھپا ہوا ہے۔
۱۔گول چیزکا کوئی کنارہ نہیں ہوتا،
۲۔ گول چیز کا آغاز و اختتام نہیں ہوتا،
۳۔ گول چیز کا اگلا حصہ اور پچھلا حصہ نہیں ہوتا،
۴۔ گول چیز کی سمجھ آسانی سے نہیں آتی،
۵۔ گول چیز کی ہینڈلنگ آسان نہیں ہوتی،
۶۔ گول چیز کو اکثر کاٹ کر ہی استعمال کیا جاتا ہے
۷۔ گول چیزبعض صورتوں میں لازمی اور مفید بھی ہوتی ہے،
۸۔گول چیزیں قدرت کو پیاری ہیں

گول چیز کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ وہ کسی طرف ختم نہیں ہوتی۔ ایک طرف سے جاتے جاتے دوسری طرف نکل آتی ہے۔ اس کا سفر ختم نہیں ہوتا۔ یہی حال کھیلوں کا ہے ایک ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے ٹورنامنٹ کا آغاز ہوجاتا ہے، ایک طرف سے دوسری طرف چلے گئے۔ یہی حال زندگی کا بھی ہے۔ کبھی نہیں کہتی کہ میں مکمل ہو گئی ہوں۔ ایک طرف سے چلتے چلتے دوسری طرف نکل آئی۔ پتہ ہی نہ چلا کہ بچپن کس گلی میں ساتھ چھوڑ گیا، پھر پتہ نہ چلا کی جوانی کا ساتھ کس بازار کی بھیڑ میں چھوٹ گیا، پھر پتہ ہی نہیں چلتا زندگی کب اپنے رخ بدل لیتی ہے۔تعلقات، واقعات، حالات وغیرہ کے بدلتے پتہ ہی نہیں چلتا۔ زندگی ہے نہ بال جیسی گول۔

گول چیز کا آغاز و اختتام نہیں ہوتا۔ زندگی کے آغاز و اختتام کی بھی خبر نہیں ہوتی۔ جب ہوش سنبھلتا ہے تو کئی سال بیت چکے ہوتے ہیں ۔ کوئی خبر نہیں کہ کب دنیا میں آئے، دوسرے بتاتے ہیں کہ اس وقت اور اسطرح سے آئے لیکن ہمیں پتہ تو نہیں ہوتا۔اور جب زندگی کا آخری سانس ہو تو تب بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ آخری سانس ہے۔ ہم تو اس سے بے خبر سو جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے سوتے ہوئے ہمیں اپنے آخری خیال کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا تھا۔ بس سو جاتے ہیں اور پھر اٹھ جاتے ہیں۔یہی حال زندگی کے معاملات کا ہے۔

گول چیز اپنا اگلا اور پچھلا حصہ نہیں رکھتی۔ یہی حال دنیا کا ہے۔ کسے خبر انسان کا ماضی کیا ہے۔ کتنے زمانے بیت گئے، انسانی قبیلے کہاں کہاں پھرتے پھراتے یہاں تک پہنچے۔ دنیا کی معلوم تاریخ سے کتنے گنا زیادہ نا معلوم تاریخ ہے۔ انسان اپنے ماضی کے بس قیافے ہی لگا سکتا ہے۔اس میں کسی خاص شخصیت کی بات نہیں، انسان کی عمومی بات کر رہے ہیں۔مغرب میں کالے، گوروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اور اس ساتھ کے پیچھے کتنے مراحل ہیں ۔ انسان اپنا ماضی متعین نہیں کر سکتا۔ اور آگے انسان کہاں جائے گا کسی کو کیا پتہ۔ آنے والا زمانہ انسان کو کیا کیا رنگ دکھائے گا ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے۔ ہاں البتہ اندازوں کا حق ہم سے کوئی چھین بھی نہیں سکتا۔جیسی یہ دنیا پہلے تھی ویسی اب نہیں ہے اور جیسی یہ اب ہے ایسی بعد میں نہیں رہے گی، کیوں کہ تبدیلی کی حکمرانی ابھی تک قدرت کے پارلیمنٹ میں چیلنج نہیں ہوئی۔اس لئے دنیا گول بال جیسی ہے۔ اور بال دنیا جیسا ہے۔

گول چیز کی سمجھ آسانی سے نہیں آتی۔ اس بات کی تصدیق بڑے سے بڑا کھلاڑی بھی کرے گا کہ ساری زندگی اس بال کی ہم نشینی میں گزارنے کے باوجود بھی اس کی سمجھ مکمل نہیں ہوتی۔ کرکٹ، فٹبال، ہاکی یا کسی بھی کھیل میں، کھلاڑی کتنا ہی تجربہ کار ہو بال کی سمجھ کا حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے سے بڑا بیٹس مین بھی ہلکی سی لغزش سے بال کے دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی حال باؤلر کا بھی ہوتا ہے۔ ہاکی اور فٹبال میں اور ہر کھیل میں ایسا ہی ہوتاہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اسے بال کی مکمل فہم مل گئی ہے۔ کوئی نہیں۔ یہی بات دنیا سے متعلق کہی جا سکتی ہے کہ کوئی فارمولا ، دانائی،اورحکمت دنیا کے سمجھنے میں تکمیل کی آخری حد نہیں۔ انسان سے خطا ہو ہی جاتی ہے، انسان اپنے تجربے سے ہی سیکھتا ہے۔ دوسروں کا سمجھایا ہوا بے شک بہت مفید ہوتا ہے اس کے باوجود معاملات اتنے سیدھے نہیں ہوتے۔اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ دنیا گول ہے اس لحاظ سے بھی کہ اس کی سمجھ نہیں آتی جیسے گول چیز کی مہارت کا دعویٰ حتمی نہیں ہو سکتا۔

گول چیز کی سنبھال مشکل ہوتی ہے۔ اسے عام طور پر کسی اور شکل میں رکھنا آسان ہوتا ہے۔جیسے مکعب خانوں میں، پیکٹوں میں وغیرہ۔ جیسے ایک گیند پر دوسرا گیند رکھنا مشکل ہو گا۔ لیکن گیند کو کسی مکعب خانے میں ڈال کر ایک دوسرے کے اوپر رکھنا بہت آسان ہو جائے گا۔یعنی گول چیز کو کسی اور شکل میں ڈھال کر سنبھالنا آسان ہو گا۔ تو کیا یہی حال دنیا کا نہیں۔ دنیا گول ہے۔ اس میں ہر نظریہ ہے، ہر مذہب ہے، ہر طرح کے حالات ہیں ، ہر طرح کے لوگ ہیں۔ کیا ہم ان میں سے سب کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ نہیں!
ہم اپنی مرضی کے مطابق انتخاب کرتے ہیں۔ کوئی مذہب، کوئی نظریہ، کوئی لوگ، کوئی ملک، کوئی پیشہ، کوئی دوست، کوئی رشتے وغیرہ پھر ہم ان کے ساتھ بہتر محسوس کرتے ہوئے زندگی میں چل سکتے ہیں۔ ورنہ ہم سب کچھ تو اپنا ہی نہیں سکتے۔ اور اگر ہم سب کچھ اپنانے کا دعویٰ یا ارادہ کر دیں تو ہم کسی کے بھی نہیں رہتے۔ ہمیں کچھ نہ کچھ چننا ہی پڑے گا ہم سارا دانہ نہیں کھا سکتے۔ہم اسے سنبھال ہی نہیں سکتے۔یہ صفت صرف اور صرف خدا کی ہے کہ اس گول دنیا کی سنتا، مانتا، اور اسے چلا تا ہے۔ ہم تو اس گول کو کسی اور شکل میں ڈھال کر ہی اس کے ساتھ چل سکتے ہیں ورنہ ہم اس گول سے زیادہ گھوم جائیں گے اور ہماراکچھ بنے گا بھی نہیں۔

یہ بات ہر گول چیز کے لئے تو نہیں لیکن بہت سی کے لئے ہے بھی۔ جیسے بہت سے پھل ، سبزیاں وغیرہ گول ہوتی ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے کے لئے ان کی شکل بدلنی پڑتی ہے کیوں کہ وہ اسی شکل میں زیادہ مفید نہیں ہوتیں۔ اور جب کاٹ لیا جاتا ہے تو وہ بہت آسانی سے قابلِ استعمال بھی ہو جاتی ہیں اور ان کا فائدہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی کسی بال کو جب ہٹ لگتی ہے تو وہ لگتی ایک ہی پوائنٹ پے ہے اور اثر ساری جسامت پے ہوتا ہے۔ایسی طرح دنیا کے اس گلوب سے انسان کچھ تراشتا ہے اور پھر وہ تراشا اس کے لئے زندگی کی آسانی،لطف اور معنی پیدا کرتا ہے۔ دنیا کو مجموعی طور پر سمجھنے سے سمجھ گم ہو جائے گی، پیشوں کی مہارت نہیں ملے گی، کوئی ایک چیز کاٹنی ہی پڑے گی اور پھر اس کاٹی چیزکے آئینے میں ہی اپنی زندگی کا عکس دیکھنا ہو گا۔

گول چیز بعض صورتوں میں گول ہی رکھنی پڑتی ہے اور ذرا سی تبدیلی اس کے لئے نا قابلِ برداشت ہو گی۔ بلب، انرجی سیور، ٹیوب، پن، وغیرہ کئی ایک چیزیں ہیں کہ ان کو گول رکھنا لازم ہے۔ یہی بات بال پر بھی اپلائی ہوتی ہے۔ بال کو گول رکھے بغیر کھیل کھیلا ہی نہیں جا سکتا۔ بہت سارے کھیلوں کا حسن گول بال کا ہی مرہونِ منت ہے۔ ورنہ اسٹیڈیم خالی پڑے رہیں گے۔ یہی چیز دنیا اور زندگی پر بھی اپلائی ہوتی ہے۔ دنیا کا حسن، اس کے گول ہونے، سمجھ نہ آنے، سنبھال کے مشکل ہونے وغیرہ ہی میں تو ہے۔ اگر زندگی کی حتمی سمجھ آگئی تو جینے کا لطف جاتا رہے گا۔زندگی کی شمع تب تک ہی جلے گی جب تک اس کے آس پاس اندھیرے ہوں گے۔ جب اس کے ہمسائے میں روشنی آجاتی ہے تو شمعیں بجھادی جاتی ہیں۔ زندگی کو چلنا ہے ، اس کے اندر دلچسپی رہنی چاہئے۔اور وہ دلچسپی اس کے گول ہونے سے زیادہ کسی اور شکل سے نہیں آسکتی۔

فطرت کا مطالعہ اس حقیقت سے متعارف کرواتا ہے کہ قدرت کو گول چیزیں کتنی پسند ہیں۔ سورج، چاند، ستارے، پھول، پھل، انسانی سر، انسانی دماغ، گلوب وغیرہ سب گول ہیں۔ ایک ذرا سوچیں کہ اگر چاند اور سورج کو گولائی سے مسطتیلی، مربعی، یا مثلثی شکل دے دی جائے تو ان کی خوبصورتی کس قدر کم رہ جائے گی۔ کسی کو اچھا بھی نہیں لگے گا۔ اگر پھولوں کو گول شکل سے محروم کر دیا جائے اوران کو اور شکلیں دے دی جائیں توفطرت کے ان شاہکاروں کو کوئی دوسری نظر دیکھنے کے لئے تیار نہ ہو گا۔ ان کا گول رہنا ہی مناسب اور ضروری ہے۔انسانی چہرہ ہی لے لیں، اگر اس کو اس کی گولائی مائل شکل کو کسی اور شکل میں بدل دیا جائے جیسے کہ کارٹونوں اور بچوں کے بعض ڈراموں اور پروگراموں میں کر دیا جاتا ہے تو کیا انسان کا چہرہ کسی طرح بھی زیادہ ضوبصورت ہو سکے گا،۔ بغیر سوچے ہی ایک ہی جواب ہوگا ہرگز نہیں۔ انسانی یا حیوانی آنکھ جو کہ لمبائی کے ساتھ گولائی میں بھی ہے ، اگر اسے مسطتیل ، یا مربع شکل وغیرہ دے دی جائے تو اس کا حسن جو کہ کائنات کے حسن کا خلاصہ ہے، پلک جھپکنے میں ہی اکارت ہو جائے گا۔ ایسا ہی معاملہ بہت سی اور چیزوں کا بھی ہے۔یعنی ان کو گول ہی رہنا یا رکھنا چاہئے۔
رہتی دنیا تک انسان اس گولائی سے دامن نہ تو چھڑا سکتا ہے اور نہ ہی اسے چھڑانا چاہئے۔کیوں کہ اس شکل کے بغیر جائنات کا حسن برباد ہو جائے گا۔ آسمان کو کہیں سے بھی دیکھیں ، گول ہی نظر آتا ہے۔ اس گولائی میں وہ سارے جو ہم بیان میں لائے ہیں اور اور بھی بہت سارے معنی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ اسی لئے زمین بھی دائروں میں گھومتی ۔ زمیں ہی کیا کائنات خود بھی دائروں کے چکر سے باہر نہیں آ سکتی۔ تمام، ستارے، سیارے دائروں میں ہی محوِ حرکت ہیں۔ اور دنیا بھی ایسی ہی ہے۔ زندگی بھی ایک دائرہ ہے۔ جسے پورا کرنے انسان دنیا میں تشریف فرما ہوا ہے۔ اور جیسے ہی وہ دائرہ مکمل ہوتا ہے انسان کی واپسی ہو جاتی ہے۔

اس واپسی سے انسان کی زندگی کا مقصد منسلک ہوتا ہے۔ انسان کہیں جا کر وہاں کھو جاتا ہے اور واپسی پے سوچتا ہے کہ وہ جس مقصد کے لئے وہاں آیا تھا کیا وہ پورا ہو گیا۔ یہ مقصد کھیل میں پول یا goal ،وکٹ، یا کسی بھی اور شکل میں دیکھا یا دکھایا جاتا ہے۔اگر وہ پورا ہو جائے تو وہ ساری کوشش کار آمد ورنہ بے کار۔ کھلاڑی اتنی جدوجہد کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد کی داد بنتی ہے۔ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں، یعنی پولز میں سے گیند یا بال گزار دیں، یا وکٹ لے لیں وغیرہ تو ان کی کوشش کامیاب ہے اور ان کے لئے بہت سے ہاتھ تالیاں بجاتے ہیں، لوگ ناچتے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں۔اور اگر مقصد حاصل نہ ہو تا یہ تعریفیں نہیں ہوتیں۔

انسان ایک کھلاڑی ہے۔ یہ دنیا ایک بال ہے اور اس کو اچھے طریقے سے گزارنا اس کا مقصد ہے۔ مقصد کے ساتھ مذہبی تصورات بھی منسلک کئے جا سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان کو ضروری نہیں سمجھتا تو اس کی مرضی لیکن انسانی زندگی کا اچھائی سے مزین ہونا تو ہر کوئی مانے گا۔ کچھ بھی نہ ہو ایسا شاید نہیں ہو سکتا، انسانی زندگی کوئی نہ کوئی مقصد رکھا ہی کرتی ہے۔ جو بھی ہو ، مقصد زندگی کی منزل ہے۔ اسے ہونا بھی چاہئے۔ایسا لمحاتی یا جذباتی طور پے تو ہو سکتا ہے کہ انسان بے مقصد ہو جائے لیکن عام زندگی میں ایسا ممکن نہیں۔ کہا جاتا ہے :
جب تک سانس، تب تک آس۔

یہ آس کسی نہ کسی چیز کے حصول کی ہوتی ہے۔ اور وہ خواہش اس انسان کا مقصد ہوتا ہے۔لہذا سانس اور مقصد اکٹھے ہی ختم ہوتے ہیں۔ خواہش کا متضاد پریشانی، الجھن، قید اور تکلیف ہے۔ اسی موضوع کو غالبؔ نے یوں فرمایا ہے:
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ہیں ایک
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

یہ دنیا ایک سٹیڈیم ہے، تمام انسان کھلاڑی ہیں،اور اپنے اپنے مقصد کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
یہ بلا شبہ ایک بہت بڑی دانائی ہے کو کھیل کے میدانوں میں ہر کسی سے ملنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ کھیل کا میدان دنیا کی علامت ہے، کھلاڑی انسان کا نمائندہ ہے، اور گول اس کی زندگی کا ٹارگٹ ہے۔میدان میں ہارجیت تو ہوتی ہے۔ تو پھر زندگی کے میدان میں سب کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں۔ کوئی ایک فتح بات ہوتا ہے اور کئی ایک بے مراد رہتے ہیں۔ زندگی بے شمار رنگوں کے ساتھ ہمیشہ جلوہ گر رہی ہے۔کھیل کے میدان ہمیشہ آباد رہے ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313113 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More