پارلیمنٹ کی قرارداد۔پس چہ بایدکرد!!
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
سرزمین حرمین شریفین سعودی عرب
ایک نئے خطرے سے دوچار ہے۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب نے عرب لیگ
کا دو روزہ اجلاس طلب کیا جس میں طے ہوا کہ اب عرب ممالک کے دفاع کے لئے 40
ہزار کی مشترکہ فوج بھی بنائی جائے گی۔ اس خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے
حکومت پاکستان نے اپنے سب سے اولین اور ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ نبھانے
والے دوست سعودی عرب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند
اقدام ہے‘تاہم پارلیمنٹ میں متفقہ طورپرمنظورکی جانے والی قراردادسے فضاکچھ
مکدرسی ہونے لگی ہے ،جس کاکسی حدتک ازالہ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کے
پالیسی بیان سے ہوگیاہے ۔امیدہے شکوک وشبہات کے تمام بادل دورہوجائیں گے
اورماضی کی طرح اب بھی سرزمین حرمین شریفین کے محافظین کی فہرست میں پاک
فوج کانام اورکام شامل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی ہو یا افریقی ممالک، مشرق بعید ہو یا یورپ یا
دنیا کا کوئی اور خطہ۔ ہر جگہ مسلمانوں کو گھیر گھیر کر اور باہم لڑوا کر
مارنے، ختم کرنے اور ساری دنیا پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کے خواب دیکھنے
والا ملک امریکا ہی ہے۔ امریکا نے ہی اس وقت سعودی عرب کے عین ساتھ واقع
ممالک عراق، شام میں جنگیں بھڑکا رکھی ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ ان دونوں
ممالک میں جاری جنگ بالآخر سعودی عرب میں داخل ہو اور مسلمانوں کا ہر لحاظ
سے مرکز و محور، دنیا میں حدود اسلامی کو قائم کرنے والا اور امن کا
گہوارایہ ملک خانہ جنگی اور تباہی و بربادی کا اس طرح شکار ہو جس طرح عراق
اور شام ہیں۔
اگرپارلیمنٹ کی قراردادکامقصدسعودی عرب کی حمایت سے کسی طرح کی بھی
کناراکشی ہے توہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سعودی عرب ہمارا سب سے بڑا
محسن اور دوست ہے اور جب محسن اور دوست پر مشکل وقت آئے تو اس کو تنہا نہیں
چھوڑا جاتا بلکہ اس کی مدد کی جاتی ہے۔گزشتہ سال اپریل میں مشیر خارجہ
سرتاج عزیز نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ
ہم سعودی عرب کو چھوٹے ہتھیار اور جنگی طیارے فروخت کر رہے ہیں۔ ہمارے
ہتھیاروں کی صنعت ترقی پا رہی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جس نے گزشتہ سال
پاکستانی ترقیاتی فنڈ کے لئے بلاوجہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا تھا تو
آسمانوں تک پہنچا ڈالرا یک دم نیچے گرا اور پاکستانی معیشت کو ایک بڑا
سہارا ملا تھا۔ 1965اور 1971کی جنگیں بھی گواہ ہیں کہ سعودی عرب نے ہمارا
ہر ممکن کھل کر ساتھ دیا تھا۔ سعودی عرب وہ تھا کہ جب پاکستان نے ایٹمی
پروگرام کی بنیاد رکھی تو جو ہمارے اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے خفیہ
اور علانیہ ہر موقع پر ہر ممکن طریقے سے معاون رہا۔ اب لوگ تسلیم کرتے ہیں
جبکہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے لئے کم از کم 60 فیصد امداد سعودی عرب نے ہی
فراہم کی تھی۔ اسی ایٹمی پروگرام نے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو روک رکھا
ہے۔1998میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو ساری دنیا نے ہمارے ملک پر
پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے اس موقع پر بھی ہمیں
ساڑھے 5 ارب ڈالر کی امداد نقد اور تیل کی صورت میں دی تھی اور ہمیں مشکل
سے نکالا تھا۔ کتنے سال ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں سعودی عرب ہمیں روزانہ
کی بنیاد پر 50 ہزار بیرل تیل مفت دیتا رہا۔ یہ سعودی حکومت ہی ہے جو اب
یہاں پاکستان میں زرعی اجناس کاشت کر کے پھر انہیں خود اپنے ملک برآمد کر
کے ہمیں قیمت ادا کرنے کی تجویز دے چکی ہے جس سے پاکستان کو تیل بھی سستا
ملے گا تو لاکھوں ایکڑ بنجر پڑی زمینیں بھی آباد ہوں گی۔ جتنی رقم ہم آئی
ایم ایف اور ورلڈ بنک سے کشکول لے کر ذلت کے ساتھ قرضہ کی شکل میں وصول
کرتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں سعودی عرب سے عزت کے ساتھ ملتی ہے۔ پاکستان میں
جب کبھی کوئی ناگہانی آفت آئی، سعودی عرب کی امداد اور تعاون سب سے پہلے
اور سب سے زیادہ دیکھنے کو ملا۔ 2005کا زلزلہ ہو یا اس کے بعد آنے والے
مسلسل سیلاب، سعودی کردار ہمارے سامنے ہے۔سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جہاں کئی
ملین پاکستانی برسرروزگار ہیں جو سالانہ اربوں ڈالر ہمیں زرمبادلہ کے طورپر
بھیجتے ہیں۔ اﷲ نہ کرے اگر دشمن کامیاب ہوا اور یہ لاکھوں پاکستانی پاکستان
واپس آگئے تو ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟کیاایران یاکوئی اورملک ان کے
روزگارکاضامن ہوگااورکیااتنازرمبادلہ ہمیں کسی اورملک سے مل سکے گا؟نہیں
اوریقینا نہیں۔
یہ حرمین شریفین کے خلاف ایک بہت بڑی اور منظم سازش ہے جس کے ڈانڈے اسرائیل
سے بھی ملتے ہیں جس نے اپنے نقشہ میں، اپنی خیالی حدود میں مکہ اور مدینہ
کو بھی شامل کر رکھا ہے۔اسی طرح ایرانی صدرحسن روحانی کے اس بیان سے اس
تمام منظرنامے میں ایران کوبھی معصومیت کی سندنہیں دی جاسکتی کہ عظیم
ترایران کے خواب کوعملی جامہ پہنانے کاوقت آگیاہے اورعظیم ایران
کادارالخلافہ بغدادہوگا۔خامنائی کے ایک دست راست بھی اس طرح کی بات کہ چکے
ہیں اوراب یہ کوئی سربستہ رازبھی نہیں رہاہے کہ ایران یمن میں باغیوں کی
پشت پرکھڑاہے۔عرب کے نسبتا پسماندہ ملک یمن کی شورش نے پورے عالمِ اسلام کو
پریشانی سے دوچار کر دیا ۔یمن کی آج کی خطرناک صورتحال کا جائزہ لیا جائے
تو یہ پون صدی سے جاری کشمکش کا تازہ اور سب سے خطرناک وار دکھائی دیتا ہے
جس میں حوثیوں کو استعمال کیا گیا اور شاید آخری تجزیہ کے طور پر یہ حوثی
ہی سب سے زیادہ خسارے میں دکھائی دیں کیونکہ اس وقت ایران ان کی پشت پناہی
پر ہے۔ ان کی ذاتی حیثیت اور شناخت گم ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں جھانکا
جائے تو ایران کے ہتھے چڑھنے سے قبل حوثی فرقہ پرست نہیں تھے۔ ان کا تعلق
شیعوں کے سب سے معتدل فرقہ زیدیہ سے تھا اور زیدیوں کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ یہ انتہا پسند نہیں اور نہ ہی مذہبی اختلافات کے حامی ہیں اور ان کے
کوئی عالمی سامراجی عزائم بھی نہیں ہیں۔ ایران کے حامی سیاستدان اور فرقہ
پرست تنظیمیں متحد ہو کر پاکستان کی حکمتِ عملی کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں۔
سیاسی سرگرمیوں سے بڑھ کر دھمکی آمیز انداز میں ایک طرف سعودی عرب کی حمایت
پر حکومت کی مذمت کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب یہی عناصر سوشل میڈیا پر
حوثیوں کے حق میں مہم بھی چلا رہے ہیں۔سعودی عرب کے دفاع کوفرقہ واریت
قراردینے والوں سے کوئی یہ توسوال کرے کہ جس ملک کے تم گن گاتے نہیں تھکتے
،وہ یمن میں کیاکررہاہے؟سپاہ پاسداران انقلاب کے ذمہ داروں کی وہاں
موجودگی،امدادکے نام پرایمبولینسوں کے ذریوے اسلحے کی ترسیل ،باغیوں کے حق
میں ریلیاں،ان اقدامات سے فرقہ واریت نہ پھیلنے اورسرزمین حرمین شریفین کی
حمایت سے فرقہ واریت پھیلنے کی آخرکیاوجہ ہے؟اس میں کسی مسلمان کے نزدیک
دورائے نہیں ہوسکتی کہ سعودی عرب کا دفاع حرمین شریفین کی وجہ سے سب سے
زیادہ مقدم و ضروری ہے۔ اگر سعودی عرب کے دشمن اپنے ناپاک عزائم کی جانب
قدم بڑھاتے ہیں تو لازمی طور پر وہاں جانے کے سارے راستے اور مقامات
غیرمحفوظ ہوں گے۔ ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق یمن کے
باغیوں نے حرمین شریفین کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے جو انتہائی تشویش
ناک ہے۔ اس کے بعد تو ہمیں کسی صورت سعودی عرب کے دفاع اور تعاون سے ہاتھ
کھینچنے کا تصور بھی ذہن سے نکال لینا چاہیے تھا،جانے کیوں اورکس کے خوف سے
پارلیمنٹ نے ایک مبہم قراردادمنظورکی ،جس کی وجہ سے دشمن کوخوش ہونے کاموقع
ملا۔اﷲ کرے کہ پارلیمنٹ اس کی فوری تلافی کی کوئی سبیل نکالے ۔
ہمارابہت بڑاالمیہ یہ ہے کہ یہاں کامیڈیاآزادہے اوراس قدرطاقت ورکہ
وزیراعظم صاحب کوبھی اس بات کااعتراف ہے کہ یمن سعودیہ تنازعے کوفرقہ
وارانہ رنگ دینے میں میڈیاکاہاتھ ہے۔وزیراعظم کی بات سے بڑھ کرمجلس وحدت
المسلمین کے سربراہ امین شہیدی کایہ اعتراف ،کہ میڈیانے ہمارابہت ساتھ
دیااورفضابدلنے میں ہماری معاونت کی ،کیااس سے بڑھ کربھی کوئی ثبوت
درکارہے۔جانے ہمارے قومی ایکشن پلان میں ایسی کوئی شق شامل ہے یانہیں کہ
میڈیاکے ذریعے مذہبی منافرت پھیلانابھی جرم ہے۔اگرہوتی توشایدنوبت یہاں تک
نہ پہنچتی۔دوسراالمیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے عوام ہی نہیں خواص اورسیاست دانوں
سے لے کرانیکرپرسنزودانش وروں تک،تمام شعبوں میں ایسے افراداورجماعتوں کی
ایک بڑی کھیپ موجودہے جن کی ہم دردیاں پاکستانی ہونے کے باوجوداپنے ملک کے
بجائے کسی اورملک سے ہیں ۔امن کی آشاکاروناتوپہلے سے رویاجارہاتھا،ا س
موجودہ منظرنامے نے ایک اورحقیقیت بھی واضح کردی جس کی سب سے بہترتعبیرمیرے
خیال میں وہی ہے جومہاتیرمحمدنے کی تھی کہ اہل تشیع خواہ جس ملک کے بھی ہوں
ان کی ہمدردیاں ایران سے وابستہ ہوتی ہیں۔یہ بہت بڑاالمیہ ہے ،جس
کاواحدعلاج یہی ہے کہ جس طرح ایک امریکی کی ہمدردیاں امریکاکے ساتھ،ایک
یورپی کی یورپ کے ساتھ اورایک سعودی کی سعودی عرب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں
اسی طرح ایک پاکستانی کی ہمدردیوں کامحورپاکستان،پاکستان اورصرف پاکستان
ہوناچاہیے۔اگرہم نے پاکستانی بن کرسوچنااورپالیسیاں ترتیب دیناشروع
کردیاتووہ وقت دورنہیں جب ہمارادشمن ناکام ونامرادہوجائے گا،اگروطن عزیزمیں
دوسرے ممالک کے مذہب وکلچرکودرآمدکرنے ہی کی کوشش کی گئی تویہ وطن عزیزکی
سالمیت کے لیے سم قاتل ثابت ہوگااوراﷲ نہ کرے،یہ پاک دھرتی نہ رہی توہمیں
وہ ممالک بھی قبول کرنے سے انکارکردیں گے جن کی خاطرآج ہم دھرتی ماں کی
سالمیت کوداؤپرلگانے سے بھی نہیں چوکتے۔کیامیرجعفرومیرصادق اورخواجہ
نصیرالدین طوسی کااپنے بدیسی آقاؤں کے ہاتھوں بدترین انجام اس قماش کے
لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں۔ |
|