یہ حوثی بغاوت ہے ،تنازع نہیں
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظورکی جانے والی متفقہ قرارداد سے کشیدکیا
گیا ’’امرت‘‘یہ کہ پاکستان یمن تنازعے میں’’غیرجانبدار‘‘ رہے گااور
اگرسعودی عرب کی سلامتی کوخطرہ ہوا توپاکستان سعودی عرب کاساتھ دے گا ۔پارلیمنٹ
میں براجمان بزرجمہروں سے پوچھاجا سکتاہے کہ کیااب یہ سعودی حکومت کی بجائے
ہماری پارلیمنٹ طے کرے گی کہ سعودی عرب کی سلامتی کوکب خطرہ ہوگااور کب
نہیں؟اورکیاجنگِ یمن سیاسی تنازع ہے یاایک گروہ کی بغاوت؟۔اگریہ دوبرادر
اسلامی ممالک کے درمیان تنازع ہے تواسے سفارتی سطح پرحل کرنے کی کی سعی کی
جانی چاہیے لیکن اگریہ بغاوت ہے توپھر باغیوں سے کیسی مصالحت اورکیسے
مذاکرات ،کیسی غیرجانبداری اورکیسی ثالثی ۔حوثیوں کے اذہان وقلوب میں تواِس
قرارداد سے مارے خوشی کے لڈوپھوٹ رہے ہونگے کہ اُنہیں باغی قراردینے کی
بجائے متوازی طاقت سمجھا جارہا ہے اورثالثی کاڈول ڈالتے ہوئے کچھ لو، کچھ
دوکی باتیں کی جارہی ہیں ۔شایداسی لیے سعودی عرب کے وزیرِمذہبی امور
ڈاکٹرعبدالعزیز بِن عبداﷲ نے یہ کہناضروری سمجھاکہ یمن کی صورتِ حال میں
ثالثی کی بات کرنامذاق کے مترادف ہے ۔اُنہوں نے کہا ’’ایک فیصدآبادی
کوننانوے فیصدپر بزورطاقت مسلط ہونے کی اجازت کوئی نہیں دے سکتا ۔اِس مسٔلے
کاحل یہ ہے کہ باغی ہتھیارپھینک دیں ،قانونی حکومت دوبارہ بحال ہواور
پھرحوثی انتخابات میں حصہ لیں ۔وہ اگراِس طریقے سے قانونی حکومت حاصل کرلیں
توہمیں کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ ڈاکٹرعبدالعزیزکے اِس بیان سے ظاہرہے کہ مشرقِ
وسطیٰ کے اسلامی ممالک کوپاکستان کی ثالثی قبول ہے نہ غیرجانبداری ۔وہ
پاکستان سے دوٹوک جواب چاہتے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کو دیناہی پڑے گا۔امام
شافی کاقول ہے ’’وقت ایک تلوارہے اگرتم اسے نہ کاٹوگے تویہ تمہیں کاٹ دے
گا‘‘اِس لیے ہماری خارجہ پالیسی کے افلاطونوں کو بہرحال کوئی ایسی راہ
نکالنی ہوگی جس سے بے لوث دوست سعودی عرب مطمئن ہوسکے ۔اِس تکلیف دہ صورتِ
حال سے بہ اندازِحکیمانہ بچا جاسکتا تھا،اگر ہمارے حکمران ’’مشترکہ
قراردادکے شوق میں اپنے تیارکردہ ڈرافٹ میں ایسا اضافہ نہ کردیتے جوکسی بھی
برادراور بے لوث اسلامی ملک کے لیے باعثِ آزارہوتا ۔شنیدہے کہ ’’غیرجانبدار‘‘
کالفظ تحریکِ انصاف نے ضِدکرکے قرارداد میں شامل کروایااور انتہائی محترم
امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق صاحب یمن اورسعودی عرب میں ثالثی پرزور دیتے
رہے ۔کپتان صاحب نے توبَرملا کہہ دیا ’’یمن کے معاملے پرپارلیمنٹ کی مشترکہ
قراردادمیں تحریکِ انصاف نے کلیدی کردارادا کیا۔ ہم یمن تنازعے پرحکومت
کوخفیہ مفاہمت سے بازرکھنے کے لیے پارلیمنٹ میں گئے ۔پرائی جنگ میں پہلے ہی
نقصان اٹھاچکے اب خفیہ ڈیل نہیں ہونے دیں گے ‘‘۔ تحریکِ انصاف نے واک آؤٹ
کی دھمکی دے کرڈرافٹ سے یہ بھی حذف کروادیا کہ’’پاکستان یمنی باغی حوثیوں
کی شدت پسندی کوغیرقانونی اورغیراخلاقی سمجھتاہے ‘‘۔قحط الرجال کی
انتہاکہ’’متفقہ قرارداد‘‘ کے شوق میں فہم وادراک سے ماوراایک متنازع
قرارداد منظورکر لی گئی ۔حکمرانوں کے اِس ’’شوق‘‘کو مدِنظر رکھ کرکہنا ہی
پڑتاہے کہ
کم ہونگے اِس بساط پر ہم جیسے بَد قمار
جو چال بھی چلے ہم ، نہایت بری چلے
جنگِ یمن خالصتاَ سیاسی مسٔلہ ہے جسے اقوامِ مغرب فرقہ واریت کارنگ دے
کراسلام کوبدنام کرنے کی کوششوں میں مگن اور ہمارا ’’جہنم سے نکلاہوا
اتحادی‘‘ امریکہ خوش کہ عالمِ اسلام کے باہم تصادم کی کوئی توراہ نکلی ۔
مسٔلہ حرمین شریفین کی حفاظت کابھی نہیں کہ اُن کی حفاظت کاذمہ خودربّ ِ
لَم یَزل نے لے رکھاہے ۔اگرکوئی بَدباطن ابرہہ کی طرح پھرحرمین شریفین کی
طرف میلی آنکھ اُٹھانے کی جرأت کرے گاتو ہماراایمان کہ ربّ ِ کائینات اُسے
’’کھائے ہوئے بھُس کی مانند‘‘کر دے گا،اِس کے باوجودیہ بھی ربّ ِ کردگارکا
حکم کہ ’’اپنے گھوڑے تیاررکھو ‘‘۔اصل مسٔلہ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کافیصلہ
رائے عامہ کاعکاس ہے نہ قومی مفادکا ۔اگر قراردادمیں لفظ ’’غیرجانبدار‘‘ نہ
ہوتااوراصل ڈرافٹ کے مطابق حوثیوں کو باغی قراردیا جاتا تومتحدہ عرب امارات
کے وزیرِخارجہ ڈاکٹرانور قرقاش کی یہ انتہائی نامناسب اورنامعقول دھمکی بھی
سامنے نہ آتی کہ ’’پاکستان کویمن بحران پرمبہم مؤقف کی بھاری قیمت اداکرنا
ہوگی ‘‘۔ڈاکٹرصاحب ہمارے لیے انتہائی محترم کہ ایک برادراسلامی ملک کے
وزیرِخارجہ لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ ہم پاکستانیوں پر دھمکیوں کا ہمیشہ
اُلٹااثر ہوتاہے اورمن حیث القوم ہماری نَس نَس میں موجزن خونِ گرم کی
لہروں نے ہمارایہ مزاج بنادیا ہے کہ
کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل
طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھلا ہے
لیکن شایدڈاکٹرصاحب ہمارے مزاج آشنانہیں یاپھر اُنہوں نے جذبات کی رومیں
بہہ کرایک ایسابیان دے دیاجس پر ڈاکٹرعبدالعزیزبِن عبد اﷲ کوبھی یہ
کہناپڑاکہ ’’عرب امارات کے وزیرکا بیان گلے شکوے سے زیادہ کچھ
نہیں‘‘۔یقیناََ ایساہی ہوگا لیکن شکوہ جب حدسے گزرجائے توگالی بن جاتاہے
۔دوسری طرف ہمارے وزیرِ داخلہ چودھری نثاراحمد نے بھی ترکی بہ ترکی جواب
دیتے ہوئے یہ فرمانا اپنا فرضِ منصبی سمجھاکہ ’’اماراتی وزیرکی دھمکیاں ستم
ظریفی ہی نہیں لمحۂ فکریہ بھی ہیں،پاکستانی قوم غیرت مندہے اورمروجہ بین
الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے مطابق اماراتی وزیرکا یہ بیان پاکستان اور
اُس کے عوام کی توہین اورناقابلِ قبول ہے ‘‘۔ حکومتی حلقے تومصلحتاََڈاکٹر
انور قرقاش کے اِس متنازع بیان پرخاموش ہی رہے اوروزارتِ خارجہ نے بھی ٹویٹ
کیے گئے اِس بیان کوکوئی اہمیت نہ دی لیکن چودھری نثارصاحب سے جلتی پرتیل
چھڑکنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ۔اگراماراتی وزیرکا بیان سفارتی آداب کے
منافی ہے تومحترم وزیرِداخلہ کابیان بھی حکومتی پالیسی کے مطابق نہیں۔
شنیدہے کہ محترم وزیرِاعظم بھی چودھری صاحب کے اِس غیرمتوقع بیان پربرہم
ہوئے لیکن ہمارے وزیرِداخلہ صاحب نے پہلے کبھی پرواہ کی نہ اب کرنے کاارادہ
۔ |
|