دین اسلام زندگی بسر کرنے
کے ان خوب صورت اصولوں اور ضابطوں کا مجموعہ ہے جو رب کائنات نے سب سے پہلے
نبی اور پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کو دیئے۔ جب تک وہ زندہ رہے اپنی
اولاد کو انہی اصولوں کی تبلیغ کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ اولادِ آدم دنیا کے
مختلف علاقوں اور خطوں میں پھیلتی گئی۔ بستیاں اور شہر وجود میں آئے، مختلف
علاقوں کی آب و ہوا کے اثرات سے ان کے رنگ اور بولیوں میں فرق پڑا اور مزاج
اور طبیعتوں کے فرق سے ان میں اختلافات بھی بڑھے۔ خواہشات نفسانی کے باعث
ان میں جھگڑے اور فساد بھی پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ ابلیس جو کہ روزِ اوّل
سے ہی انسان کا دشمن ٹھہرا تھا اور جس نے انسان کو گمراہ کرنے کا منصوبہ
بنایا تھا، وہ رب کائنات کی طرف سے تا قیامت مہلت پاتے ہی انسانوں کے درپے
آزار ہوا اور اس نے انسانوں اور جنو ں میں اپنے ہمنوا اور ساتھیوں کا جم
غفیر تیار کرلیا جنہوں نے شب و روز انسانوں کو کفروضلالت میں مبتلا کرنے
اور ان کے درمیان دنگہ و فساد کرانے کا فریضہ سرانجام دیا اور دے رہے ہیں۔
مگر اﷲ تعالیٰ کا انسانوں پر یہ کرم اور فضل رہا کہ اس کی ہدایت اور روشنی
کبھی گم نہیں ہوئی، اپنے دین کو زندہ رکھنے کے لئے تاریخ انسانیت کے مختلف
ادوار میں ہر علاقہ اور ہر بستی میں اﷲ رب العزت کی طرف سے نبی اور رسول
بھیجے گئے، جو انسانوں تک اسلام کی سیدھی اور سچی تعلیمات پیش کرتے رہے ،اور
ان کی اپنی زندگیاں بھی تمام امت کے انسانوں کے لئے نمونہ بنیں۔ یہاں تک کہ
نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر اسی سچے دین کی تکمیل ہوگئی۔ گویا کہ جس
دین کا آعاز آدم علیہ السلام سے ہوا اور جس کی تبلیغ کے لئے مختلف ادوار
اور مختلف علاقوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول آئے، اس
کی تکمیل رسول اﷲ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ہوئی اور قیامت
تک انسانوں کو اﷲ رب العزت کی طرف سے یہ خوش خبری سنادی گئی
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ و لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾
’’آج کے دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کردیا اور تم پر اپنی
نعمت پوری کردی اور اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند کرلیا۔‘‘
تکمیل دین کے ساتھ ہی ختم نبوت کا بھی اعلان ہوگیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی رسالت بھی نسل انسانیت کے لئے رہتی دنیا تک رہنما اور نمونہ قرار
پائی۔ ارشاد ربانی ہوا ’’اور اے (پیغمبر) ہم نے آپ کو نسل انسانی کے لئے (ایمان
و نیک اعمال کے نتائج کی) خوشخبری سنانے والا اور (انکار و بدعملی کے نتائج
سے) خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک دین
اسلام آسان ہے۔ دین اسلام کوئی گورکھ دھندا نہیں، کوئی معمہ نہیں وہ تو
سیدھا سادہ، آسان، سہل اور فطرت انسانی کی پکار ہے۔ وہ یقین و ایمان کی
دعوت اندھیرے میں نہیں اجالے میں دیتا ہے۔ وہ عقل و فکر کو بیدار کرتا ہے
اور کہتا ہے کہ سوچو تو سہی کہ تمہارے گردوپیش وسیع و عریض کائنات پھیلی
ہوئی ہے اور ہر چیز لگے بندھے اصولوں سے کام کررہی ہے یہ آفتاب و ماہتاب کا
طلوع و غروب اور ستاروں کی گردش، موسموں کی تبدیلی اور ہواؤں کا چلنا اور
خود انسان کی پیدائش اور جسم و جان کی نازک اور پیچیدہ مشینری، پھر اس کی
موت و حیات پر ضرور کسی ایسی ہستی کا قبضہ ہے جس کی طاقت لامحدود ہے اور جس
کی قدرت ہر طرف عیاں اور روشن ہے۔ یہ طاقتور ہستی اﷲ تعالیٰ ہے، جو ساری
کائنات کا نظام چلارہے ہیں،اﷲ وحدہ لاشریک ہے ، اس کا کوئی ثانی اور شریک
نہیں۔
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾
’’سب خوبیوں اور ستائشوں کا مالک اﷲ ہے جو جہانوں کا پالنہار ہے۔‘‘ اسلام
یہ دعوت دیتا ہے کہ رب العالمین کے انعامات اور احسانات پر ذرا غور و فکر
تو کرو وہ نہ صرف ان گنت اور بے شمار ہیں بلکہ بے حد قیمتی اور لازوال ہیں
، یہ ہوا اور روشنی، پانی اور دودھ، مختلف قسم کے پھل پھول اور طرح طرح کی
سبزیاں اور ترکاریاں، موسموں کا تغیر وتبدل اور دن رات کی آمدورفت جس میں
انسان کو کام کاج کا موقع بھی ملتا ہے اور وہ راحت و آرام سے بھی بہرہ ور
ہوتا ہے۔ پھر رب کائنات نے معاشرتی زندگی کی راحت اور سکون بہم پہنچایا۔
میاں بیوی کی مسرتیں اور ماں باپ کی محبتیں، بہن بھائیوں کا پیار اور ماموں
ممانیاں، خالو اور خالاؤں کی محبت ایسی نعمتیں ہیں جس سے انکار ممکن نہیں۔
خود انسان کا وجود رب کائنات کی کرشمہ سازی کا نادر نمونہ ہے۔ یہ آنکھیں
اور کان، ہاتھ پاؤں اور دل و دماغ ایسی بے بہا نعمتیں ہیں کہ انسان ان کا
کماحقہ شکر ادا نہیں کرسکتا ہے۔ سب سے بڑی نعمت علم ہے جو مخلوقات میں صرف
اسی کے حصہ میں آئی ہے جو اسے اشرف المخلوقات کے رتبہ پر فائز کرتی ہے۔ بے
شک اﷲ تعالیٰ کا فرمان حق ہے کہ ’’اور اگر تم اﷲ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو
تو ہرگز نہیں کرسکتے ہو۔‘‘ اسلام کی سادہ اور سچی تعلیمات یہ ہیں کہ تم ان
نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے دن رات میں پانچ بار اپنی جبین نیاز کو رب
کریم کی چوکھٹ پر جھکادو۔ نہ صرف اس کا شکر ادا کرو بلکہ اس سے مزید ہدایت
کی طلب اور اس پر استقامت کی دعا مانگو۔ یہ کوئی مشکل اور تکلیف دہ بات
نہیں ہے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ نماز سے تم وضو کرکے پاکیزگی حاصل کرتے
ہو، تم بدیوں اور برائیوں سے بچ جاتے ہو اور شاہراہ زندگی پر رب کریم کی
رحمت سے چلنے لگتے ہو۔ امیروغریب، شاہ و گدا، اﷲ تعالیٰ کے حضور ایک ہی صف
میں کھڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے درمیان اونچ نیچ، چھوٹے اور بڑے کی تفریق ختم
ہوجاتی ہے اور وہ شیروسکر ہوکر بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ ایک امام کی اطاعت
میں زندگی کا نظم و ضبط، قرینہ اور سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ نماز سے مسلمان ایک
مضبوط اور متحد قوت بن جاتے ہیں اور اپنے آقا و مولا کی رہنمائی میں سفر
حیات طے کرتے ہیں۔ اسی طرح روزہ ہے مسلمان کے لئے رمضان المبارک میں تعلیم
و تربیت، تزکیہ نفس اور طہارت قلب کا سروسامان ہے۔ زکوٰۃ کیا ہے؟ اسلام
مسلمان کو یہ سکھاتا ہے کہ تمہاری زندگی کا مشن دھن دولت سمیٹنا نہیں ہے
بلکہ جو دولت اﷲ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے، اسے اپنے استعمال میں بھی لاؤ اور
اس میں سے غرباء اور مساکین کو بھی دے ڈالو۔ دولت کی اس گردش سے طبقاتی
نفرتیں چھٹ جائیں گی۔ اور صاحب استطاعت لوگ حج جیسے اہم فریضے سے مشرق اور
مغرب میں بسنے والے مسلمان ایک مرکز میں جمع ہوکر نہ صرف کائنات کے پالنہار
کی بندگی بجا لائیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں، بلکہ ان میں اتفاق و
اتحاد کی لہر دوڑجائے اور رنگ و نسل زبان اور لباس کا فخر و غرور بھی مٹ
جائے۔ پھر اسلام یہ کہتا ہے کہ معاشرتی زندگی میں تم عدل و انصاف کو قائم
کرو۔ ظلم اور زیادتی کا قلع قمع کرو اور اﷲ کی یہ زمین ایسی بن جائے کہ
ہرطرف مہرومحبت اور صلح و صفائی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ اسلام نام ہے اﷲ
تعالیٰ کی بندگی کا اور اﷲ کے بندوں کے ساتھ عدل و انصاف اور مروت واحسان
کا۔ اس وقت ظلم و ستم، قتل و غارت کے شعلے ہر طرف بھڑک رہے ہیں اور انسانیت
ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اس کا علاج صرف اور صرف اسلام کی سیدھی سادی، سچی
اور پاکیزہ تعلیمات پرعمل کرنے میں ہے۔ اس پر فتن دور میں ہم پیارے دین
اسلام کی سچی تعلیمات پر خلوص دل کے ساتھ عمل پیرا ہوکر ہی زندگی کی حقیقی
خوشیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ اﷲ پاک ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭
(بروز جمعتہ المبارک دینی ایڈیشن کے لیے) |