دھت تیرے کی

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ذہن میں ایسا مضمون آیا کہ لگا کہ آج تو تباہی پھیر دینی ہے... انی مچ جائے گی... لگتا ہے کہ آج تو لوگ لائک کرکر کے ناطقہ بند کردینگے... مگر ہوتا یہ ہے کہ دو تین گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ہونّقوں کی مانند بیٹھے ہوئے تک رہے ہوتے ہیں کہ کوئی آیا کہ آیا... مگر مجال ہے جو کوئی ٹس سے مس ہو... اور جب کوئی بونگی مارو تو ایسے دھڑا دھڑ لائکس آتے ہیں گویا وختہ پے گیا ہو... پچھلے دنوں لکھا کہ "سوچ رہا ہوں ذہین احمق آبادی کو مار دوں... بڑی اذیتناک موت سوچی ہے..." اس پر ایسے لائکس کا سیلاب آگیا جیسے بیچارے ذہین سے کوئے پرانا ادھار کھائے بیٹھے ہوں... مجھے یقین ہے کہ اس میں سے آدھے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے ہونگے کہ 'ذہین' کونسی مخلوق کا نام ہے... لیکن لائکس دیکھ کر لگتا ہے گویا کہہ رہے ہوں... "اجی ہاں ہاں... اور نہیں تو کیا... اسی لائق ہے کہ مار دیا جاوے... ذہن میں داڑھیاں اُگا رکھی ہیں سالے نے... جلادو... بھسم کردو... دہشت گرد کہیں کا... ہونہہ...!“

ایک محترمہ کہہ رہی تھیں کہ آپ اپنی تحریر کو کلمہ پڑھا دیتے ہیں... خالص مزاح لکھا کریں... اور خالص اسلامی... اسلام کا وقار ہے اپنا... میں نے کہا بالکل... اسلام کا اتنا وقار ہے کہ ہم اس کی طرف دزدیدگی سے نظر کر کے گزر جاتے ہیں... کوئی بےادبی نہ سرزد ہو رہے... اسلامی بات تو مجال ہے کوئی پڑھ لے... بس پھر زبردستی گھول پلاؤ تو پلاؤ... صحیح ہے کہ اللہ کیلیے کرنا چاہیے اور لوگوں کی فکر نہ کرنی چاہیے... مگر کوئی جواب تو ملے... اک گالی ہی سہی... اب بندہ پہاڑوں کو جاکر بھاشن تو دینے سے رہا کہ "اجی... کدی نماز وی پڑھ لیا کرو... کیوں ہر وقت غرور سے سینہ تانے کھڑے رہتے ہو... جھکو بھی صحیح... تم نے کونسا بوجھ اٹھا یا ہے... اصلی بوجھ تو انسان کے سپرد کردیا گیا جس سے تم عاجز تھے مگر انسان جاہل... اب بھی جاہل ہے... وہ بوجھ جانے کہاں چھوڑ آیا ہے... کسی اونچی جگہ رکھا ہوگا... دماغ سے بھی اوپر... طاق واق میں تاکہ نہ سمجھنے میں آسانی ہو اور بوقتِ ضرورت کام نہ آوے...! دھت تیرے کی...!"

فیس بک پر اتنے عرصے میں یہی بات معلوم ہوئی کہ پوسٹ جتنی ذہنی طور پر غیر متوازن ہوگی اتنی ہی پسند کی جائے گی... بس پوسٹ بےوزن ہو اور بدستِ زن ہو... اور تو اور... اس بونگی کے آخر میں اگر لکھ دو 'بقلمِ خود' تو پچھلی کھڑکی پر دستک شروع ہو جاتی ہے... 'کیا یہ آپنے ہی لکھا تھا...!؟' اب میں انھیں کیا بتاؤں کہ 'بقلمِ خود' کا مطلب 'خود بخود' نہیں ہوتا... اب میں 'بدستِ خود' لکھنا شروع کردوں کیا...!؟ پھر اسکے بعد پوچھتے ہیں کہ آپکی عمر کیا ہے...!؟ میں انھیں بتا دیتا ہوں کہ ۔۔ــــ۔۔ـــ سال... تو کہتے ہیں اتنی سی عمر میں اتنا کچھ اور اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں... میں کہتا ہوں... ۔۔ــــ۔۔ــــ سال... ۔۔ــــ۔۔ــــ۔ سال کم ہوتے ہیں...!؟ یہ اتنی سی عمر ہوتی ہے...!؟ سال خود ہی کتنا بڑا ہوتا ہے... اگر آپ ہی اپنی زندگی کے ایک سال کے تجربے لکھ دیں تو کیا کچھ نہیں آئے گا اس میں... اور حماقتیں کونسا مشکل ہوتی ہیں...! بس سو کر اٹھو اور جو مرغے کی بانگ کے ساتھ ذہن میں اترے وہ جڑ دو... اللہ اللہ خیر صلا... بس اب بہت ہو گیا... بہت ہنسالیا 'ذہین' نے... اب وہ رلائے گا نہیں تو افسردہ ضرور کر دے گا آپکو... خاص طور پر اپنے آخری لمحات میں... خیر... افسوس تو مجھے اس پر ہے کہ 'ذہین' کے ساتھ ساتھ 'محترم اوٹ پٹانگ' بھی 'زد' میں آ رہا ہے...! اللہ مالک ہے...!

بس آپ دعاء کیجیے کہ میں افسردہ ہی رہوں... افسردگی میں مَیں کافی اچھا لکھتا ہوں شاید...!

جی ہاں جی ہاں... بقلمِ خود
رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی)
About the Author: رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی) Read More Articles by رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی): 40 Articles with 30907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.