دبستانِ حماقت
(رؤف الرحمن (ذہین احمق آبادی), Islamabad)
میں کمرۂ مطالعہ میں سر کے بل
کھڑا صفحۂ قرطاس پر حماقت کے رنگ بکھیرنے میں مشغول ہونے کی کوشش کر ہی رہا
تھا کہ گھر کے باہر اودھم کی صدا بلند ہوئی اور میں حماقتوں سمیت سر کے بل
زمین پر آ رہا... ساری حماقتیں سر سے نکل کر باہر بکھر گئیں... مجھے ان
نامعلوم آوازوں پر بے طرح طیش آیا... حماقتیں سمیٹیں جلدی جلدی... کھڑکی سے
سر باہر نکال کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ 'تصور' میاں کی سر براہی میں یار
لوگوں نے علمِ احتجاج بلند کیا ہوا ہے... بس پھر کیا تھا... حماقت سر چل کر
بولی اور میں نے بھی دھاڑنا شروع کر دیا... جس پر 'تشنہ ساقی' نے صدائے
احتجاج کو چھوڑ سنگِ احتجاج بلند کیا اور وہ پتھر میرے سر سے کچھ فاصلے سے
گزرا... بس جاں بحق ہوتے ہوتے بچا... میں نے اوٹ میں ہو کر دیکھا تو جناب
'محمد فیصل شہزاد' بھیا جو ہفت روزہ 'خواتین کا اسلام' اور ماہنامہ 'جہانِ
صحت' کے مدیر ہیں اور ساتھ ساتھ روزنامہ ایکسپریس اور اسلام میں کالم نگار
بھی ہیں... وہ بینر لیے کھڑے تھے جس پر رقم تھا... "نام کی تبدیلی
نامنظور... دھرنا ہوگا مرنا ہوگا... ابے او ذہین... باز آجا... نام تبدیل
کر کے آ... یہ ذہانت کیونکر سرزد ہوئی تجھ سے..." ادھر سے جنابِ 'محمد
نعمان بخاری' جو جزیرہ نما عرب سے خاص طور پر نام تبدیل کروانے آئے تھے اور
ہمارے فیسبکی پیر و مرشد بھی تھے اور لوٹے سے انکا پرانا یارانا تھا... ان
چاروں کے بعد پیچھے ایک اور صاحب پانچ سواروں میں شمار ہونے کیلیے خاص طور
پر شریک ہونے آئے کشمیر سے... یہ 'دلگیر عزیز' تھے جنھوں نے مجھے اس کارِ
حماقت پر مجبور کیا تھا... نام تبدیل کروا کر اب انکے ساتھ کھڑے تھے... اسی
'جمگھٹے' پر غور کیا تو ایک 'معصوم بچہ' بھی نظر آیا... میرے تو ہاتھ پیر
دل گردے پھیپڑے تک پھول گئے... دریں اثنا پچھلی کھڑکی پر کھڑکھڑاہٹ ہوئی...
ڈرتے ڈرتے چٹخنی گرائی تو 'اظفر' بھیا ہمیشہ کی طرح دیر سے آئے تھے مگر
درست ہی آئے تھے... اور عرض کناں تھے کہ "نام تبدیل کرلو... یہ لوگ تمہاری
حماقت کا تیا پانچہ کر کے رکھ دینگے..." اچھا... میں وہاں سے ژولیدہ مُو
ننگے پیر پچھلے دروازے سے بھاگ کر فیس بک کے دفتر پہنچا... ب فام اور ضروری
کاغذات تک ساتھ لایا تھا... وہاں پر کوئی لفٹ نہیں کرائی گئی... پھر مجھے
اپنے 'حماقت خانے' کی فکر ہوئی تو میں سر پٹ دوڑتا واپس پہنچا... اب تک
محتججین کی تعداد چالیس کے قریب پہنچ چکی تھی اور حماقت کا بازار 'تنُور'
کی مانند دہک رہا تھا... میں نے جلدی جلدی تیاری کی اور بالکونی میں آکر
کھڑا ہوگیا... ایک دم سے خاموشی چھا گئی... مجھے خیال گزرا کہ شاید انھوں
نے آج تک اتنا عظیم احمق غالباً نہیں دیکھا... مگر اگلے ہی پل منہ پر ٹماٹر
لگا تو سار گلفامیت کے پرخچے اڑ گئے... میں نے گلا صاف کیا اور بآوازِ بلند
ہانکنا شروع کیا... آواز کی لرزش چھپائے نہیں چھپ رہی تھی...
"یار لوگ اس بات پر بہت خفا ہیں کہ میں نے 'ذہین احمق آبادی' سے اپنا نام
تبدیل کر کے 'رؤف الرحمٰن' کیوں رکھ لیا... بس کیا عرض کروں کہ عقل پر پتھر
پڑ گئے تھے... کچھ زلفوں نے گھیر رکھا تھا... اور کچھ دوستوں نے بھی کہ نام
تبدیل کرو... اور جب نام تبدیل کرلیا تو انھیں کے پیٹوں میں مروڑ اٹھنے
لگے... اب پھر انھی کی گزارش پر جب نام کو پلٹا دینے کی کوشش کی تو فیس بک
کی پولیس صاحبہ کھڑی تھیں... میں نے جو عرض کی کے نام کو عنانِ حماقت
تھمانی ہے تو وہ بگڑ بیٹھیں اور پابندی لگا دی کہ دو مہینے سے پہلے نام
تبدیل کر کے دکھاؤ بیٹا اب تم... مجھے اتنا دکھ پابندی سے نہیں ہوا جتنا
دکھ موصوفہ کے بیٹا کہنے سے ہوا... خیر... جانے دیں... ہاں تو میں کہہ رہا
تھا کہ زلفوں نے گھیرا ہوا تھا... اتنا گھیرا کے پیغام خانے تک رسائی ہو
گئی... مگر وہ بھول گئیں کے میرا نام ضرور تبدیل ہوگیا تھا... کام تو تبدیل
ہوا نہ تھا... احمق ہی ٹھہرا... روز مرّہ عشقیّات کا سبق لڑایا اور دے مار
ساڑھے چار... بس پھر زلفوں کو سر کرنے میں ہی لگا ہوا تھا کہ یار لوگوں نے
مل کر میری دیوار پر خطاطی کی مشق شروع کردی... احتجاج کیا کہ آپکو نام
تبدیل کرنا ہی پڑے گا... اور میں سر پیٹ کر رہ گیا کہ اب کیا کیجیے...! آپ
میری مجبوری تو ملاحظہ فرمائیے... مگر آپ ہیں کہ کوئی شنوائی ہی نہیں...
اچھا چلیں میں آپکو ایک بات بتاتا ہوں... یہ 'ذہین احمق آبادی' جو ہے
ناں... یہ انتہائی معقول شخص ہے... اور آپکو معقولیت سے کیا سر و کار...
اسکی کی شرافت اور خوش خوراکی آج کل کے شریفوں کی طرح اتنی مشہور ہے کے لوگ
اسے 'لڑکی خور' ہونے کے باعث ٹھرکی تک کہنے سے گریز نہیں کرتے... وہی
'شرافت' جس کا مسدّسِ حالی میں کچھ یوں تذکرہ ہے...
؎ اگر شش جہت میں کوئی دِلرُبا ہے
تو دِل انکا نادیدہ اس پر فِدا ہے
اور تو اور... ہر وقت توسنِ حماقت پر سوار رہتا ہے... صبح اٹھ کر منہ بھی
دھو لیتا ہے جس سے آپ بدرجۂ اتم پرہیز کرتے ہیں... میری طرح یہ بھی زلفوں
میں گھرے رہتے ہیں... مولوی قسم کا بندہ ہے... ذہن میں داڑھیاں ہی داڑھیاں
اگی ہیں جا بجا...! آپ کے درمیان ہوگا ابھی اور کسی کو چپت بھی رسید کر کے
دوڑ لگا سکتا ہے... مجھے پتا ہے جو آپکو اس نام سے عقیدت ہے وہ ڈھکی چھپی
نہیں... اتنی عقیدت ہے کے پچھلے دنوں تحریکِ نفاذِ اردو کے ایک اجلاس میں
پہلی مرتبہ شرکت کی تو جن صاحب نے مجھے دعوت دی تھی انھوں نے مجھے محفل میں
'ذہین احمق آبادی' کے نام سے متعارف کروایا... لو کر لو گَل...! میں اپنا
آپ 'نقصان دہ' ہونے کے بجائے 'مسکان دہ' ثابت کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سب کے
باوجود میں نام تو تبدیل نہیں کر سکتا... قانون قانون ہے... اور سوچیے
بھلا... اگر میں نے اپنا نام 'ذہین احمق آبادی' رکھ لیا تو آپ لوگ پھر کہتے
پھرینگے... 'ایسا کروگے تو کون آئے گا'... کون آئے گا...!؟ اور پھر مجھے
کوئی 'ہم زلف' بھی نصیب نہیں ہوگا... جس کو حاصل کرنے کیلیے ایک 'خم زلف'
درکار ہوتی ہے اور میں اس نام کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے 'کم زلف' نہیں ہونا
چاہتا... بس اب انتظار کی لگامیں تھام رکھیے اور اپنی دونوں داڑھوں کو مجھ
پر طعن کرنے سے آزاد کیجیے... نام صرف اس صورت میں ہی تبدیل ہوگا اگر دو
مہینوں کی مدت ختم ہونے سے قبل میں 'ذہین' کو مار نہ سکا... بس اتنا ہی
کہنا تھا مجھے... حماقتوں کو آباد رکھیے... والسلام...!"
میری اتنی لامبی تقریر کے بعد ان لوگوں کے چہروں پر کچھ سوچ بچار کے آثار
نمودار ہوئے ہی تھے کہ جانے کس نے ایک 'وٹّہ' دے مارا... اور میری تمام تر
حماقت قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی... لوگوں نے جو آخری الفاظ سنے میری زبان
سے وہ تھے...
"کرتا ہوں رے... دھت تیرے کی...!" |
|