23اپریل - کتابوں کا عالمی دن

پاکستان میں آج ۲۳ اپریل کوکتابوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ‘ دنیا کے اکثر ممالک میں بھی کتابوں کا عالمی دن ۲۳ اپریل کو ہی منایا جاتاہے لیکن برطانیہ اور امریکہ میں کتابوں کا عالمی دن ۴ مارچ کو منا یا جاتاہے ،تاریخی لحاظ سے اس دن کی شروعات کچھ اس طرح ہوئیں ۔۱۶۱۶میں سپین کے شمال مشرق میں واقع علاقہ کیٹو لینیا میں ہر سال ۲۳ اپریل کو جہاں کے مرد اپنی خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے ہیں اور اس روایت میں دنیا بھر سے خاص طور پر یورپ سے لاکھوں کی تعداد میں مردو زن اورلڑکے لڑکیاں کیٹو لینیا جاتے ہیں یہ سلسلہ دو دن جاری رہتا ہے ۔اس دوران جگہ جگہ مشہور ناول دان کیہوٹی کے حصے شیکسپئرکے ڈرامے اور دوسرے مصنفوں کی کتابوں کے حصے پڑھے جاتے ہیں۔پھر یہ رسم سپین کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتی گئی ،اور آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی ۔
اب کیٹولینیا میں ہر سال صرف گلابوں کی ہی نہیں بلکہ کتابوں کی بھی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے اور اسکے بعد ۱۹۹۵میں اقوام متحدہ کے ادارے یولیسکو نی جنرل کونسل کا فرانس میں اجلاس ہوا تو اس نے ۲۳ اپریل کو ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے قرار دے دیا ۔اور اب یہ دن کتابوں اور جملہ حقوق کی حفاظٹ کے عالمی دن کے طور پر دنیا کے ایک سو ملکوں میں منایا جانے لگا ۔اس میں ایک اور اضافہ یہ کیا گیا ہے ۔کہ رواں صدی کے آغاز سے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دار الحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے ۔اس سال کا دارالحکومت بیروت ہے ۔دو ہزار ایک کا میڈرڈتھا۔پھر بالترتیب سکندریہ ،نئی دہلی ،اینٹ روپ،مونٹریال ،ٹورِن ،بگوٹہ،ایمسٹرڈم اور بیروت دارالحکومت قرار دیے گئے ۔برطانیہ نے اس دن کے لیے مارچ کی پہلی جمعرات کا انتخاب کیا اور اسے سکولوں کے بچوں میں کتابیں خریدنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتاہے ۔

کتاب کا تعارف
اردو زبان کر لفظ کتاب عربی سے ماخوذ ہے ،عربی کتاب مختلف چیزوں کے مجموعے کو کہتے ہیں ۔کتاب کو انگریزی میں Bookکہتے ہیں ۔جو قدیم انگریزی کے لفظ Boc(بوک)سے لیے گیا ہے اور خود Bocبھی جرمنی زبان کا لفظ Bokسے ماخوذہے ۔جس کے معنی زان درخت جیسا کے ہیں زان کے درخت کے پتے بڑے ہوتے تھے جو لکھنے کا کام آتے تھے ۔چنانچہ ’’بوک ‘‘میں تبدیلی ہوتے ہوتے یہ لفظ Bookبن گیا ۔

کتاب کس پر لکھی جاتی ہے ؟
پہلے پہل تو کتاب چند اوراق پر ہی مشتمل ہوتی تھی اور وہ مٹی کی سِلیں ،لکڑی کی تختیاں وغیرہ پر لکھی جاتی تھی ،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں موسیٰ uکی تختیاں کا تذکرہ کیا ہے ۔
﴿وَکَتَبْنَا لَہُ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَی ءٍ﴾
’’اور ہم نے تختیوں میں موسیٰ کے لیے ہر چیز لکھ دی ‘‘(الاعراف :۱۴۵/۷)

پھر کچھ ترقی ہوئی تو کتاب جانوروں کی کھال یا کھال کے اندر موجود جلی ،پتھر کی باریک سِلوں ،کھجور کے پتوں اور ہڈی وغیرہ پر لکھی جانے لگی جیسا کہ عہدنبوت اور عہد صدیقی و عثمانی میں زید بن ثابت tنے جمع قرآن کے وقت انہی اشیاء کو لے کر جمع کیا تھا ۔ (بخاری :۴۹۸۶۔۴۶۷۹)

پھر مصریوں نے نیل کے ساحل پر اگنے والے پاپائرس پودے کے تنے گودے سے کاغذ کی طرح کے چوڑے چوڑے اوراق بنا کر لکھنا شروع کیا اور سب سے پہلے مصریوں نے پانچویں بادشاہ نیضر عیسی کاکائی نے اس پر لکھ کر ملفوف کتاب تیار کی ۔

کتاب دوست لوگ
علامہ مسعودی hنے کہا :’’اے میری کتابو!تم میری جلیس و انیس ہو ،تمہارے ظریفانہ کلا م سے نشاط اور تمہاری ناصحانہ باتوں سے تفکر پیدا ہوتا ہے ۔تم پچھلوں اور پہلوں کو ایک عالم میں جمع کر دیتی ہو ۔تمہارے منہ میں زبان نہیں ،لیکن تم زندوں اور مردوں دونوں کے افسانے سناتی ہو ،تم ہمسایہ ہو ،لیکن ظلم نہیں کرتیں ،عزیز ہو لیکن غیبت نہیں کرتیں ،دوست ہو لیکن مصیبت میں ساتھ نہیں چھوڑتیں ۔‘‘

جاحظ کہتا ہے :’’کتاب سب سے بہتر خزانہ ،بہتر ہم نشین ،بہتر شغل ،تنہائی کی دوست اور سفر کی رفیق ہے ۔‘‘بعض حکماء کا قول ہے کہ کتابیں علماء کے باغ ہیں ۔متنبی کہتا ہے :’’انسان کا سب سے بہتر ہم نشین اس کی کتاب ہے ۔‘‘منصور بن مہدی نے مامون سے پوچھا کہ ہم کو علم کب تک حاصل کرنا چاہیے ؟مامون نے جواب دیا کہ جب تک جسم میں جان رہے ۔عبداﷲ بن مسعود tجن سے بڑھ کر صحابہ میں کوئی متبع سنت نہ تھا ،ان کے پوتے عبداﷲ بن عبدا لعزیز کا یہ حال تھا کہ وہ لوگوں کی صحبت سے بھاگتے تھے ،ہمیشہ ہاتھ میں کوئی کتاب لے کر قبرستان میں چلے جاتے تھے اور اس کے مطالعہ میں مصروف رہتے تھے ۔لوگوں نے جب اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا:گورستان سے بڑھ کر کوئی ناصح ،کتاب سے بڑھ کر کوئی مونس اور تنہائی سے بڑھ کر کوئی محافظ ہم کو نظر نہیں آتا۔
(کتاب المحاسن والاضداد،ص /۳)

تین سوکنوں سے بھاری …… امام ابن شہاب زہری h(متوفی ۱۲۴ء)بہت بڑے تابعی اور علم حدیث کے امام ہیں ۔امام مالک ،سفیان بن عیینہ ،سفیان ثوری sوغیرہ ان کے شاگرد ہیں ۔امام زہری hکا علم حدیث میں جو مقام ہے ،کیا اس میں کوشش اور کثرت مطالعہ کو دخل نہیں ؟اس کا جواب ذیل کے واقعہ میں ہے ۔امام زہری جب اپنے گھر میں بیٹھتے تھے تو چاروں طرف کتابوں کا انبا ر رہتا تھا ،وہ ان کتابوں کے مطالعہ میں اس قدر مصروف ہو جاتے تھے کہ ان کو کسی چیز کی خبر نہیں رہتی تھی ۔ایک دن ان کی بیوی نے تنگ آکر کہہ دیا:خدا کی قسم یہ کتابیں مجھ پر سوکنوں سے بھی زیادہ بھاری ہیں ۔(ابن خلکان :۴۵۱/۱)

سب کچھ بھلا دیا……یاقوت حموی جو مسلمانوں می بہت بڑا جغرافیہ دان گزرا ہے ،وہ اپنے وطن اور اہل و عیال کو چھوڑ کر مدتوں مرومیں اس لیے پڑ ا رہا کہ وہاں کے کتب خانے اس کے لیے زنجیر پا تھے ۔وہ خود لکھتا ہے کہ کتب خانے کی دو سو کتابیں میرے گھر میں پڑی رہتی تھیں اور میں ان کی خوشہ چینی میں مصروف رہتا تھا ،اس کتب خانے کی محبت نے د ل سے ہر شہر کی محبت بھلا دی تھی اور اہل و عیال سے بے خبر کر دیا تھا ۔ (مجمع البلدان ،ذکر مرد)

ایک کتاب کا بار بار مطالعہ…… آج ہم ایک کتا ب کو ایک بار بھی دیکھتے ہیں تو اکتا جاتے ہیں ۔علمائے سلف ایک ایک کتا ب کو سینکڑوں بار دیکھتے تھے اور پیاس نہیں بجتی تھی ۔ابو نصر فارابی نے ارسطو کی کتاب النفس کا سو مرتبہ مطالعہ کیا تھا ۔ (ابن خلکان :۲۵۲/۲)

ابن سینا اس درجہ کا شخص ہے کہ اس کے بعد کے تمام حکماء اور فلاسفر اس کی تصینفات کیے دریوزہ گرہیں ، لیکن وہ اس فضل و کمال کا مالک صرف اس لیے ہو اکہ سلطنت سامانیہ کا وسیع کتب خانہ اس کی آنکھوں کے لیے وقف تھا ۔ایام طالب علمی میں ایک شب بھی کامل اس کی آنکھوں نے خواب کا لطف نہیں اٹھایا اور نہ کسی روز سوا مطالعہ کے کوئی دوسرا شغل رہا،ایک ایک کتاب کو بیسیوں بار پڑھا ۔خود ابن سینا کا بیان ہے کہ میں فارابی کی کتاب طبعیات کا چالیس مرتبہ مطالعہ کیا ۔ (کتاب الاطباء :۷۳/۲)

غیر علمی کاموں کا افسوس……علمائے اسلام میں امام رازی hکا جو رتبہ ہے ،اس سے کو آشنا نہیں ۔سینکڑوں برس گزرنے پر بھی عربی درس گاہوں کے درودیوار سے امام رازی hکی صدا آرہی ہے ۔دنیاوی مقبولیت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو گا کہ خوارزم شاہ جو ا س وقت بڑ ے سطوت وجبروت کا بادشاہ تھا وہ خود امام سے ملنے ان کے گھر آتا تھا ۔امام صاحب ہر وقت علمی مشاغل میں مصروف رہتے تھے ۔یہاں تک کہ کھانے میں بھی جو وقت ہوتا تھا ۔امام صاحب کواس کے بھی ضائع ہونے کا افسوس تھا،امام صاحب کا قول ہے :خدا کی قسم مجھ کو کھانے کے وقت میں علمی مشغولیت کے فوت ہونے کا افسوس ہوتا ہے ،کیونکہ زمانہ اور وقت بہت عزیز ہے ۔‘‘ (عیون الانباء :۲۳/۲)

کتب بینی سے عشق……صاحب ابن عیا د (المتوفی ۳۸۵ء)تیغ و قلم دونوں کا مالک تھا ،سلطنت سامانیہ کا وزیر تھا ۔وہ علم و ادب اور انشاء پر دازی کا امام وقت بھی تھا ۔صاحب کو کتب بینی سے عشق تھا ۔سفر ہو یا اقامت وہ مطالعہ سے فارغ نہ بیٹھتا تھا ۔کتب بینی کے ساتھ اس کا عشق اس سے ظاہر ہے کہ خاندان بنو بویہ کیے عظیم الشان نوح بن منصور نے سلطنت بویہ کی وزارت کی پیش کش کی اور بخارا بلایا تو صاحب نے سب سے بڑا عذر یہ پیش کیا کہ یہاں سے ہٹنے کے لیے صرف میری کتابوں کی بار برداری کے لیے چار سو اونٹوں کی ضرورت ہو گی ۔صاحب ابن عبا د جب عام سفر کے لیے نکلتا تھا ترو تیس اونٹوں پرصرف علم و ادب کی کتابیں لدی رہتی تھیں ۔ (ابن خلقان :۳۰/۱)

سفر میں بھی ساتھ نہ چھوڑا……فتح بن خاقان ،خلیفہ متوکل کا وزیر تھا ،ایک وزیر کے لیے علمی شوق قائم رکھنا نہایت مشکل تھا ،فتح بن خاقان اپنی عبا کی آستین اور جیب میں ہمیشہ کتاب رکھتا تھا تو فتح خلیفہ کی واپسی تک اپنی کتاب کے مطالعہ میں مشغول رہتا تھا ،یا خود فتح جب نماز و ضروری حاجت کے لیے اٹھتا تھا تو آمد ورفت کے راستہ میں بھی کتب بینی سے باز نہیں آتا تھا ۔ (فوات والفیات ص/۲)
علامہ مجد الدین فیروز آبادی جس پایہ کے شخص تھے ،وہ ان کی تصنیف قاموس سے ظاہر ہے ،جس کی مقبولیت کی انتہاء ہے کہ خود لغت کا نام قاموس قرار پاگیا ،لیکن یہ رتبہ کمال علامہ موصوف کا بلا کوشش مطالعہ حاصل ہوا ؟خود ان کا بیان ہے کہ ہر روز جب تک میں دو سطریں حفظ نہ کر لیتا ،رات کو آرام نہ کرتا ۔یہ شوق سفر میں بھی معدوم نہ ہوتا ،جب علامہ موصوف سفر میں چلتے تو سامان سفر میں چند اونٹوں پر صرف ان کے مطالعہ کی کتابیں لدی رہتیں۔ (ابن خلقان :۳۳۴/۱)

مجھے کوئی نئی بات نہیں ملتی……محمد بن جہم علمائے سلف میں بہت بڑا فاضل تھا ۔کثر ت معلومات کے سب سے اس کا یہ حال تھا کہ بہت سی ضحینم و مطول اور سینکڑوں مختصر کتابیں وہ دیکھ ڈالتا تھا ۔لیکن کوئی نئی با ت اس کو نہیں معلوم ہوتی تھی ،لیکن کیا یہ وسعت علم کثرت مطالعہ کے بغیر پید ا ہو گئی تھی ۔
(کتاب المحاسن و الاضدادص /۳۰)

تین راتوں کے سوا ہر رات کتاب پڑھی……ابن رشد جو مشرق کا فلسفی اعظم ہے ،اس کو کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ تمام عمر تین راتوں کے سوا اور کبھی اس سے یہ فریضہ قضا نہیں ہو ا۔
(الندوہ ،حالات ابن رشد )

پاسبانوں کی قندیل کی روشنی میں مطالعہ کیا……ابو نصر فارابی کو جس چیز نے مشرق کا سب سے نامور حکیم بنا دیا ،وہ کتابوں کا مطالعہ ہے ‘گوفارابی مفلس اتنا تھا کہ گھر میں چراغ تک نہ تھا ۔مگر شوق چین نہ لینے دیتا تھا ،رات کو جاگ جاگ کر پاسبانوں کی قندیل کی روشنی میں مطالعہ اور تصنیف کرتا تھا۔
(طبقات الاطباء:۳۴/۲)

مکمل کتب خانے کا مطالعہ کیا…… ابو مظفر بن معروف مصری چھٹی صدی کا ایک مشہور فاضل تھا ۔کتب بینی کا اس درجہ کا شائق تھاکہ ایک بہت بڑاعظیم الشان کتب خانہ قائم کیا ،جس میں مختلف فن کی ہزاروں کتابیں تھیں اور یہ تمام کتابیں اس کی نظر سے گزر چکی تھیں ۔اور ہر ایک کتاب پر اس کے خود ہاتھ کے حاشیے چڑھے ہوئے تھے ۔ابو المظفر کا زیادہ تر وقت اسی کتب خانہ میں بسر ہوتا تھا ۔
(طبقات الاطباء :۱۰۸/۲)

لائبریروں کی کمی……اس وقت ۱۸ کروڑ آبادی کے ملک پاکستان میں صرف ۹۰ بڑی لائبریریاں ہیں اور ان میں سے ۲۰ سے زائد یونیورسٹیوں کی ملکیت ہے۔جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں ۔

پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری میں صرف ۴ لاکھ کتابیں ہیں ۔جبکہ امریکہ کی صرف ایک لائبریری میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد کتابیں ہیں ۔

دینا کی بہترین کتاب……جسے خالق اور مخلوق میں فرق ہے اسی طرح خالق اور مخلوق کی کتابوں میں بھی فرق ہے ۔دنیا کی سب سے بہترین کتابیں خالق کائنات کی آسمانی کتابیں ہیں،جن پر ایمان ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ۔لیکن ان میں سے سب سے بہترین کتاب قرآن مجید کو پڑھنا ،سمجھنا ،سیکھنا ،سکھانا اور اس کی ہر بات پر عمل پیرا ہوناہر ایک کے لیے ضروری ہے ۔عام کتاب کوئی پڑھے تو پڑھا لکھا اور معزز ہے اگر نہ پڑھے تو مجرم اور گنہگار نہیں مگر اﷲ کی کتاب سے روگردانی دنیا و آخرت کی ذلت کا سبب ہے ۔اﷲ کی کتاب سے ہر طرح کا تعلق اور رشتہ آدمی کو نفع دیتا ہے ۔آئیے اپنا رشتہ اﷲ کی کتاب سے استوار کریں ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا تو اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی جو دس نیکیوں کے برابر ہے (یعنی قرآن کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں)
ترمذی،ثواب القرآن و الصحیحۃ(۶۶۰)

جناب حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’یہ وہ کتاب ہے جس کی وجہ سے بہت سی قومیں ذلیل ،تباہ اوربرباہوجاتی ہیں اوربہت سی قوموں کواﷲ عزت وعروج نصیب کردیتاہے ۔‘‘
صحیح مسلم، فضائل القرآن (۱۸۹۷)وابن ماجہ(۲۰۶)
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 40527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.