ڈالروں کے لیے پرائی لاش کو سیاسی وجوہ سے اٹھانے والوں کی کہانی

طالبان کی جنگ اور مذہبی قائدین کا کردار - جرگہ سلیم صافی

پاکستانی طالبان کے ایک رہنما سے کسی نے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو دوسروں کے سپرد کردہ لاش کو کاندھا دیئے ہوئے ہیں۔

تفصیل انہوں نے یوں بیان کی کہ کسی گاؤں میں چار اجنبی، ایک اجنبی کی لاش اٹھائے قبرستان کی طرف جارہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں نے انہیں دیکھا تو اجنبیوں نے ان سے کہا کہ وہ ایک عظیم دینی بزرگ کی لاش کو دفنانے جارہے ہیں۔ چنانچہ گاؤں کے سادہ لوگ بھی میت کے ساتھ قبرستان کی طرف چل دئے اور آگے بڑھ کر ثواب کی خاطر لاش کو کاندھا دینے لگے۔

پہلا بندہ آگے بڑھا تو ایک اجنبی اپنے کاندھے کو فارغ پا کر خاموشی سے کھسک گیا۔ پھر جب گاؤں کا دوسرا بندہ، دوسرے اجنبی کی جگہ لینے کیلئے آگے بڑھا تو وہ بھی غائب ہو گیا۔ یہی عمل تیسرے اور چوتھے اجنبی نے دھرایا۔ لاش قبرستان پہنچی تو اس کے چاروں وارث غائب تھے اور دینی جذبہ کے تحت اس کو کاندھا دینے والے گاؤں کے لوگ حیران تھے کہ اب اس لاش کو کیا کریں ۔ اس کو کہاں دفنائیں اور کیا نام دے کر دفنائیں ؟

یہ قصہ سنا کر پاکستانی طالبان کے لیڈر نے کہا کہ ہم نے تو اس گاؤں کے مکینوں کی طرح اسلامی جذبہ کے تحت اس لاش کو کاندھا دیا ہے۔ یہ لاش تو قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، پروفیسر ساجد میر، جنرل اختر عمدالرحمان، جنرل حمید گل اور اسی نوع کے دیگر لوگوں نے اٹھا رکھی تھی۔ ہم نے ان کی پکار پر دینی جذبے کے تحت لبیک کہتے ہوئے اس کو کاندھا دیا لیکن پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سب غائب تھے اور لاش ہمارے گلے پڑ گئی۔

معزز قارئین: اب کیا یہ مذکورہ شخصیات اور ان کے جانشینوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اپنی اس مبارک لاش کو کاندھا دیں یا پھر میدان میں آکر لاش اٹھانے والوں سے واضع الفاظ میں کہہ دیں کہ اس لاش کو کاندھا دینے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے، اسلئے گاؤں کے لوگ بھی اسے اسی طرح چھوڑ دیں جس طرح کہ وہ چھوڑ چکے ہیں؟

تماشہ یہ ہے کہ وہ اب بھی آواز یہی لگا رہے ہیں کہ یہ ایک عظیم مذہبی ہستی کی لاش ہے اور اسے کاندھا دینا دنیا و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے، لیکن خود لاش کو کاندھا دینے جارہے ہیں، نہ اپنے بچوں سے یہ نیک کام کروانا چاہتے ہیں اور نہ ان کو منع کرنا یا سمجھانا چاہتے ہیں جنہوں نے ان کی تلقین پر یہ لاش اپنے گلے باندھ لی ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532608 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.