عدلیہ حکومت محاذ آرائی، کیلے کے چھلکے پر کس کا پاؤں آئے گا؟

جسٹس ثاقب نثار کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کے صدارتی فرمان کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں آنے والا بال ابھی تک اپنی جگہ برقرار ہے، عدالت عالیہ کی جانب سے مختصر سماعت کے بعد صدارتی حکم معطل قرار دینے دونوں ججز کو اپنی سابقہ پوزیشنوں پر فرائض کی سرانجام دہی جاری رکھنے اور نئے تقرر کو آئین کے آرٹیکل 177کے خلاف قرار دیتے ہوئے 18فروری کو دوبارہ سماعت کا اعلان کیا گیا ہے۔ صدارتی فرمان کے اگلے ہی روز پیپلز پارٹی کی جانب سے صدر کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں تو عدلیہ کے فیصلے کو صحیح سمجھنے پر جماعت اسلامی، تحریک انصاف کی جانب سے عوامی قوت کا بھرپور مظاہر کیا گیا، ماحول بنتا دیکھ کر مسلم لیگ نواز نے بھی زبانی سہی لیکن طبل جنگ بجا دیا۔

ہفتہ کی شام چھ بجے لاء اینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کئے جانے والے حکم نامے کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کا سپریم کورٹ میں تقرر کر کے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کو چیف جسٹس مقرر کئے جانے کے فیصلے کی گونج ابھی تک فضاء میں باقی تھی کہ دونوں ججوں نے اس پر عملدرآمد سے انکار کرتے ہوئے چیف جسٹس کے احکامات پر عمل کرنے کے عزم کو دوہرایا۔ جس نے صورتحال کو ایک نیا رخ دے کر وہ فضا پیدا کر دی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے غیر ملکی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا صدر نے ایک بار پھر کیلے کے چھلکے پر اپنا پاﺅں رکھ دیا ہے۔ جس کے بچھانے والے فاروق نائیک، بابر اعوان اور لطیف کھوسہ ہیں۔ بعد میں سامنے آنی والی اطلاعات کے مطابق اگرچہ حکومت نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرے گی لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کا سبب بتائی جانے والی بات نہیں بلکہ وزیراعظم سمیت حکومتی جماعت کے چند دیگر افراد کی جانب سے صدارتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار اور پارلیمنٹ سے باہر موجود اپوزیشن جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور وکلاء کا شدید ردعمل تھا۔

ہفتہ کو چھ بجے کے بعد صدارتی حکم آتے ہی چھٹی کے باوجود چیف جسٹس سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے حکم نامے کا جائزہ لے کر جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دیا جس نے فوری طور پر سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو عدالت میں طلب کیا۔ اٹارنی جنرل انور منصور کی کراچی میں موجودگی کی وجہ سے ایڈیشنل رجسٹرار قاضی خاور عدالت میں پیش ہوئے جس پر عدالت نے سیکرٹری قانون کو طلبی کا حکم جاری کرتے ہوئے دوبارہ سماعت کے لئے 18 فروری کی تاریخ دے دی۔ نیاز اے نائیک سے تعلق کی بنیاد پر انتہائی حساس اور اہم نشست پر تقرر کا پروانہ حاصل کرنے والے فرد نے اس موقع پر اپنا کردار بخوبی نبھایا جو آنے والے وقتوں میں انہیں مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔

صدارتی حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں ،چیف جسٹس کے احکامات کی روشنی میں اپنا کام جاری رکھیں گے اور کسی بھی ایسے حکم کو نہیں مانیں گے جو عدلیہ کے مخالف جا رہا ہو۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس فیصلے کے جو بھی مضمرات ہوں وہ انہیں قبول ہوں گے۔جب کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خواجہ شریف نے بھی اپنا موجودہ چارج چھوڑ کر سپریم کورٹ میں اسائن کی گئی نئی پوزیشن پر جانے سے گریز کیا۔ ججوں کی جانب سے صدارتی فرمان پر عملدرآمد سے انکار کے بعد عملاً ایسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس نے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو اپنی جگہ ہلا کر رکھ دیا۔

دوسری جانب ججوں کے متعلق صدارتی فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی قائدین نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ حکومتی اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے اس پر اگرچہ کوئی رائے نہیں دی لیکن عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت کی جانب سے مشاورت نہ کئے جانے کو جواز بنا کر اتنی سی بات ضرور کہی کہ وہ حالات کو مدنظر رکھ کر اپنا کردار متعین کرے گی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ اور کشمیر کمیٹی کے چئیرمین مولانا فضل الرحمن کی جانب سے عدلیہ کو سیاسی اکھاڑہ بنانے کے بیان میں اگرچہ سطحی طور پر دیکھنے سے معروضیت نظر آتی ہے لیکن عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران اور اس کے بعد جے یو آئی کا کردار مدنظر رکھ کر اگر ان کے بیان کو تولا جائے تو وہ رائے دینے سے ذیادہ اپنے آپ کو بچانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا کہنا تھا کہ صدارتی حکم کے بعد عملی اقدام کا وقت ہے، اداروں کو بچانے اور ملکی نظام کی اصلاح کے لئے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے عدالتی حمایت میں احتجاج اور دھرنے تک جانے کے اعلان کے بعد انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی جانب سے حیرانی اور کسی واضح مؤقف کا اعلان نہ کیا جانا فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا ثبوت ہے۔ اپنے اعلان پر عمل کرتے ہوئے اتوار کو ملک بھر میں جماعت اسلامی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا جس کا مقصد عدلیہ کی حمایت اور صدر کے غلط فیصلوں کی مخالفت کا ون پوائنٹ ایجنڈا بتایا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلیوں سے یہ امید نہیں کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کی کسی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گی۔ جس کا سبب ان کے نزدیک اپوزیشن کا فرینڈلی ہونا ہے۔ حکومت دوستی میں موجودہ اپوزیشن کو مشرف دور کی اپوزیشن سے بھی دو قدم آگے جانے کا طعنہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صدر کے اقدام سے حیرت نہیں ہوئی عوام اگر اب سڑکوں پر نکلے تو کہیں نہیں رکیں گے۔

مسلم لیگ ن کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال اور سینیٹر پرویز رشید نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی فیصلے پر وہ حیران ہیں کہ اس کی کیا توجیح کی جائے لیکن حکومت کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیں گے۔

قبل ازیں چیف جسٹس کی جانب سے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایڈہاک جج مقرر کرنے اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے سے بھیجی جانے والی سمری کو معطل کئے جانے پر اپنی رپورٹ میں روزنامہ محشر نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ یہ اقدام آگے چل کر حکومت اور عدلیہ کے تصادم کا سبب بنے گا ۔ہفتہ 13فروری کو جاری ہونے والے صدارتی حکم نے اس تجزئے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ حکومتی صفوں میں موجود کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ معاملات معمول کے مطابق چلتے رہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے جہاں ایک حلقہ اس ذہنیت کی حمایت کرتا ہے وہیں جوہری سطح پر صدر اور ایوان وزیر اعظم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو حکومتی معاملت میں خرابیوں اور کسی تیسری قوت کی جانب سے فائدہ اٹھائے جانے کے خدشے کو تقویت پہنچا رہا ہے۔

ایک تیسری رائے یہ بھی موجود ہے کہ صدر کی جانب سے پے درپے فیصلوں کے بعد خراب ہونے والی ساکھ کو بچانے اور ایوان صدر سے رخصتی کا آپشن زیر غور بھی لایا جاتا ہے لیکن اسکی شرط یہ ہوتی ہے کہ انہیں باعزت واپسی کا راستہ دیا جائے، اس خواہش کے باوجود ایوان صدر کے مکین کی بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے سیاسی جماعتیں خصوصاً اپوزیشن حکومت کو ہٹانے کے چکر میں رہتی تھیں لیکن اب تمام تر خرابیوں کے باوجود خود اسے گرانے کی کوشش نہیں کر رہیں البتہ ان کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی ایسا کام ہو جائے جسے نہیں ہونا چاہئے تو متعلقہ ذمہ دار کی یہ اخلاقی ذمہ دای ہے کہ وہ اپنے اقدام کی ناکامی یا غلطی تسلیم کرتے ہوئے ازخود مستعفی ہو جائے۔ اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ججوں کی تقرری کے متعلق صدارتی فرمان پر عملدرآمد نہ کرنے کے اعلان کے بعد اگر یہ واقعہ کسی اخلاقی استحکام رکھنے والے معاشرے میں ہوا ہوتا تو ذمہ دار افراد اب تک اپنا استعفیٰ لکھنے کے بعد اس کی منظوری کا پروانہ پا چکے ہوتے ۔

لیکن وائے ناکامی کے ہمارے ہاں سب سے اعلیٰ شخصیت کا فرمان نادر ہے کہ وعدے کوئی قرآن وحدیث تو نہیں جن پر لازمی عمل کیا جائے، اب ظاہر ہے کہ یہ ذہنیت کسی بھی مثبت اقدام یا اس پر عملدرآمد میں رکاوٹ بننے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔

صدارتی حکم کو بالکل کالعدم قرار دیا جاتا ہے یا اس پر مزید کوئی کارروائی ہوتی ہے اور اس کا انجام کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا یا 18فروری کو آئندہ سماعت کے موقع پر صورتحال واضح ہوگی لیکن فی الوقت یہ ضرور واضح ہے کہ ہفتہ 13فروری کے واقعے کے بعد اسے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر کی جانے والی کاروائی قرار دینے والوں کو فوج کی جانب سے کوئی مداخلت نہ کئے جانے نے غلط ثابت کیا ہے۔

صدارتی فیصلے کے حسن وقبح پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ حکومت چیف جسٹس کی سفارشات پر عملدرآمد کی پابند ہے، صدر کا حالیہ اقدام سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ وکیل رہنما رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ صدارتی فیصلہ 14رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اور اداروں میں ٹکراﺅ کی کوشش ہے جس کے مقدر میں ناکامی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری میں سینیارٹی کو فیصلے کا سبب قرار دئے جانے کے تاثر کے متعلق کہا کہ یہ کسی بھی سطح پر تقرری کا قانون نہیں جو اس سے ہٹا نہ جا سکتا ہو، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدارتی حکم غیر آئینی اور غیر قانونی ہے کسی بھی اختلافی معاملے میں عدلیہ ہی حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ موجودہ صورتحال کے متعلق انہوں نے کہا کہ اگر یہ کہیں اور ہوا ہوتا تو اب تک حکومت اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو چکی ہوتی۔ لیکن یہاں چونکہ ایسا کوئی رواج نہیں ہے اس لئے یہ نہیں ہو سکا حالانکہ موجودہ صورتحال جس میں جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس خواجہ شریف نے عملدرآمد کرنے سے معذرت ظاہر کی ہے واضح طور حکومتی ناکامی ہے۔

سب سے زیادہ کھلا ڈلا تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور کا کہنا تھا کہ شاہ کا فرمان تناﺅ میں اضافے کا سبب بن رہا ہے جب کہ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ انتظامیہ عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

سیاسی رہنماﺅں، وکلاء اور عدلیہ سے متعلقہ شخصیات کی جانب سے سامنے آنے والے مؤقف کے نتیجے میں کم سے کم بات یہ کی جا سکتی ہے کہ حکومت خصوصاً صدر نے اپنے فیصلے کے نتیجے میں بحث کے ایک ایسے نئے باب کا اضافہ کردیا ہے جو اس کی رہی سہی ساکھ کو مجروح کرنے اور مخالفین کے خلاف جاری کوششوں کی جزوی کامیابی کو ماند کرنے کا سبب بنے گی۔ 18فروری کو ہونے والی سماعت کس کی کیا پوزیشن متعین کرتی ہے، حکومت کی جانب سے اپنے فیصلے پر پشیمانی کا اظہار اسے بچا لیتا ہے، یا کر دئے جانے والے کام کا حساب دینا ہوگا، ان تمام پہلوﺅں کی وضاحت ہونے میں کوئی زیادہ وقت باقی نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فریق ثانی کی معافی کی صورت میں غلط اقدام پر کیا سرزنش کی جاتی ہے۔ زندہ معاشروں کا اصول یہ ہوتا ہے کہ وہاں کی جانے والی انفرادی غلطیاں نیت کو مدنظر رکھ کر نظر انداز کی جا سکتی ہیں لیکن اجتماعی مناصب پر موجود افراد کی لغزشوں پر باز پرس ضرور ہوتی ہے تاکہ آئندہ ایسے مواقع پیدا ہونے کا سدباب کیا جا سکے۔ کیا ہم زندہ معاشرے ہونے کا ثبوت دینے کو تیار ہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ عدلیہ اور حکومت کی محاذ آرائی میں کیلے کے چھلکے پر کس کا پاﺅں آنے کو ہے، جب کہ یہ چھلکے پھینکنے والوں کا انجام کیا ہوگا؟
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31815 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More