پنجاب حکومت سرکاری سکولوں میں
سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کررہی ہے اور صوبے میں دنیا کا
بہترین سکول سسٹم بنانے کے لیے ایک نئے پروگرام۔ پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب
پراسی ماہ سے ا ٓغاز کردیا گیا ہے۔ پانچ سال سے سولہ سال تک کے تمام بچوں
کو پنجاب حکومت مفت تعلیم اور وہ بھی بہترین ماحول میں دینے کا دعوی کررہی
ہے۔ کوالٹی آف ایجوکیشن کو بہتربنانے کے ضروری ہے کہ طالب علم بچوں کو سکول
میں دوست اور محفوظ ماحول میسرہو،بنیادی سہولیات کی فراہمی ہرحالت میں
اورماہر اساتذہ کی موجودگی کے علاوہ وسائل کی دستیابی کوبھی یقینی بنانا
ہوگا تب وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن ”پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب“ کے خواب کو شرمندہ
تعبیر کیا جاسکے گا۔ اگر واقعی سکولوں میں دوست اورمحفوظ ماحول،بنیادی
سہولیات،ماہراساتذہ اور وسائل پر توجہ دی جائے تواس میں کوئی شق نہیں کہ
پرائمری سطح کی تعلیم سے لے کر ہائر سکینڈری تک بہتر نتائج حاصل ہوں گے اور
تعلیمی شعبہ میں ہم بھی ترقی یافتہ قوم بن جائیں گے درج بالا جن چار نقات
کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے اول دوست اور محفوظ ماحول دوئم بنیادی سہولیات
کی فراہمی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یونیسکو کی تازہ رپورٹ کے مطابق
پاکستان، ریجن میں تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔ وجوہات میں جن مسائل
کا ذکر کیا گیا ہے ان میں تعلیم دوست محفوظ ماحول اور سہولیات کا فقدان
سرفہرست ہیں۔
یونیسکو کی رپورٹ آج ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ اس کا سرسری سا ذکر صرف حوالہ
کے طور پر کیا گیا ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب کی تعلیم دوستی اور اس حوالے سے
ہونے والے اقدامات قابل ستائیش ہیں وہ خود بھی اپنے پروگراموں ،کارناموں کا
ذکر کرتے رہتے ہیں جیسے پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب پروگرام کے افتتاح کے موقع
پر انہوں اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ لاس اینجلس میں دانش سکول کے بچے کی
پہلی پوزیشن سے ان کا سر فخرسے اونچا ہوگیا ہے۔یہ واقعی ہی فخر کرنے والی
بات ہے۔ مگر جب ہم یہ خبر پڑھتے ہیں کہ ڈیرہ غازیخان میں پرائمری سکول کی
چھت گر گئی اور متعدد بچے شدید ز خمی ہو گے ہیں تو ہمار سر ندامت سے نیچا
ہو جاتاہے۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ صوبے کے سکولوں خاص طور پرپرائمری سکولوں کی
حالت زار ہے کہ کلاس روم اپنی خستہ حالی کی وجہ سے زمین بوس ہورہے ہیں ڈیرہ
غازیخان سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں بھی سکول کی عمارتیں اپنی مخدوش حالت
کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہیں اور ان کے Dangerousہونے کی تصدیق کوئی اور
نہیں خود سرکاری ذرائع کرتے ہیں ۔پنجاب میں ہونے والی پیش رفت کا اگر چارٹ
بنایا جائے تو اس میں ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ صوبے کے تمام سرکاری
محکموں کے ریکارڈ کو آن لائن کر دیا گیا ہے ۔محکمہ جاتی گھاگ قسم کی بیورو
کریسی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے محکموں کی معلومات کو آن لائن ڈیٹا کے زمرے
میں دینے پر اب مجبور ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ابھی مطلوبہ معیار اور تعداد
میں نہیںہے اور Transparency کے معاملے میں بھی ابھی بہت کچھ باقی رہتا ہے۔
مگر اس کام کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس میں بہتری آتی رہے گی۔آن لائن ڈیٹا کا ذکر
راقم نے اس لیے کیا ہے کہ جو بات کی جارہی ہے اس کی تصدیق بھی پنجاب
ایجوکیشن سکول ڈیپارٹمنٹ کی آفیشل سائٹ پر موجود ہے صوبے کے سکولوں کی کافی
معلومات دستیاب ہیں ۔اس میں سکول کی بلڈنگ کاStatusبھی شامل ہے۔ کوئی حادثہ
اچانک سے رونما نہیں ہوتا ۔ ڈیرہ غازیخان کے سرکاری سکول کے کلاس روم کی
چھت زمین بوس ہونے پر کہا گیا کہ یہ اتفاقیہ حادثہ ہے۔حادثہ کے بعد پہلا
اقدام یہی ہوا کہ کمیٹی بنادی گئی جو سکول کی چھت کے گرنے کی وجوہات کا پتہ
لگا کر ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کے ممبران اور سربراہ کا تعلق خود اسی محکمہ
سے ہے ۔ایک ڈسٹرک مانٹرننگ افسر اور دوسرا ، ای ڈی او ایجوکیشن بھی کمیٹی
کے ممبر ہیں سکول کی چھت زمین بوس ہوگئی اور 20 کے قریب طالب علم بچے زخمی
ہیں ۔ انکوائری کمیٹی کیا انکوائر کرے گی؟کہ بچے کیوں زخمی ہوئے ہیں ! کہ
بچے اس خستہ حال کمرے میں بیٹھے کیوں تھے!یا یہ کہ والدین نے اپنے بچوں کو
سکول میں بھیجا ہی کیوں تھا ۔ بہترین اور آسان یہی ہے کہ تمام ملبہ بے چارے
والدین پر ڈال دیا جائے کہ انہوں نے جرات کیوں کی ان کے بچے تعلیم حاصل
کریں ۔ اس انکوائری کمیٹی کو کیا کرنا چاہیے اس پر بات نہیں کرتے لیکن دو
باتیں ضرور کریں گے ایک اس سکول کی کہ یہ سکول شہر کی اربن یونین کونسل
نمبر چار کی آبادی شکور آباد میں واقع ہے1973 سے قائم شدہ ہے ۔ دوکمروں پر
مشتمل اس سکول کو آج سے دس سال پہلے Dangerous few roomsقرار دیا گیا اور
پھر تین سال سے اسے مکمل طور پرDangerous قرار دیا گیا ہے ۔ مکمل طور پر
خطرناک کا مطلب ہے کہ اس سکول میں کلاس نہیں لگنی چاہیے جب تک اس کی از سرے
نو، نئی عمارت نہیں بن جاتی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضلعی رابطہ
افسرDCO سے لے کر EDO ایجوکیشن ،اور پھراس سے نیچے کے افسران کی ایک فوج ہے
جو اس کام پر معمور ہے کہ وہ سکول کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور مسلسل اس
کی مانٹڑننگ کرنے کے لیے سکول ،وزٹ کرتے ہیں ، رپورٹ کی جاتی ہے ۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دوران کسی افسر نے اس سکول کا وزٹ نہیں کیا تھا؟کسی
نے اس خستہ حالی کی رپورٹ کی تھی ۔کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ عمارت
بچوں کے لیے غیر محفوظ ہے۔ کسی نے اپنے خدشات کا ذکر اپنے سے اوپر کے افسر
سے کیا ؟یا پھر یہ سب لوگ جوکہ ذمہ داران ہیں اس بات کا انتظار کررہے تھے
کہ حادثہ ہو۔ ذکر ڈیرہ غازیخان کے سکول کا ہورہا ہے جہاں حادثہ رونما ہوا
ہے۔اس ضمن میںراقم سمیت اور دیگر اہلیان شہرکے خدشات ہیں خدا نخوستہ کوئی
اور ایسا افسوس ناک واقع رونما نہ ہوجائے۔ان خدشات نے اور بھی زور پکڑلیا
ہے کہ ڈیرہ غازیخان میں مزید 105گرلز پرائمری سکول ایسے ہیں جہاں اسی طرح
کے مسائل کا سامنا ہے۔ڈیرہ غازیخان مجموعی طورپرگرلز پرائمری سکولوں کی
تعداد 512 ہے۔ جن میں 19 سکولوں کی بلدنگ کو مکمل طور پر خطرناک قرار دیا
جا چکا ہے۔ اور 19 سکول ایسے ہیں جن کے کچھ کمروں کو Dangerous قرار دیا
گیا ہے ۔جبکہ 14 سکول ایسے ہیں جو بالکل غیر فعال ہیں جن کی نہ عمارتیں ہیں
اور نہ یہ کام کررہے ہیں ۔اور17سکول ایسے ہیں جنکی عمارتیں نہیں مگر کھلے
آسمان تلے کام کرہیں رہے ہیں۔اسی طرح37 سکولوں کی لازمی اور مکمل طور پر
مرمت کے قابل قرار دیا گیا ہے۔جناب خادم پنجاب کے گوش گزار کرنا ہے کہ ڈیرہ
غازیخان سمیت پورے پنجاب میں ایسے سکولوں پر توجہ کریں دیگر صورت ایک اور
المیہ ایک اور حادثہ یا حادثات کو ،روکا نہ جاسکے گا وزیر اعلی کے خواب
”پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب“ بھی اس صورت شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ صوبے کے تمام
ایسے سکولوں جن کی مرمت لازمی ہے ۔جن سکولوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا
جاچکاہے ان کی از سرے نو ،نئی عمارتیں بنائی جائیں۔ سہولتوں کے فقدان کو
ختم کیا جائے۔ |