تعلیم نسواں

تحریر: کائنات غزل

علم کے بغیر دنیا اندھیری کوٹھری کی مانند ہے۔ اس لئے مردوں کے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ مرد اور عورت گاڑی کی دوپہیے ہیں۔ گاڑی کبھی ایک پہیے سے نہیں چل سکتی۔ اس لئے دونوں پہیوں کا ہونا اور صحیح حالت میں ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایک پہیہ ٹوٹ جائے یا خراب ہو یا سرے سے ہوہی نہیں تو گاڑی کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے، اس کا چلنا ممکن نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ پرندے کے دو بازوں میں ایک ٹوٹ جائے تو پرندہ اڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے۔ اس میں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ جب تک دونوں علم سے بہرہ ور نہیں ہوں گے ہم کسی صورت ترقی نہیں کرسکتے۔ ترقی کا زینہ ہمیشہ علم ہی رہا ہے۔ اسی کے ذریعے کامیابی اور کامرانی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

قدرت نے جو فرائض عورت کو سونپے ہیں ان میں سب سے اہم فرض بچوں کی تربیت اور پرورش کا ہے۔ پیدائش سے قبل ہی بچے کی تربیت اور پرورش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ماں کی گود درسگاہ ہوتی ہے۔ ماں اگر تعلیم یافتہ ہے تو اولاد بھی صاحب علم اور مہذب ہوگی کیونکہ بچے کا زیادہ وقت ماں کے پاس گزرتا ہے۔ بچہ ماں کے طور اطوار کو سیکھتا ہے۔ ان پڑھ اور ناخواندہ ماں بچے کے اخلاق و عادات نہیں سنوار سکتی لیکن پڑھی لکھی سمجھدار ماں اپنے بچوں کی تربیت میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے اور اس کی نگہداشت صحیح طور کرسکتی ہے اور اس کے خیالات و کردار کو نکھار سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ باپ کا بھی بچے کی پرورش میں بہت حصہ ہوتا ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ابتدائی تعلیم کا آغاز ماں کی گود سے ہی ہوتا ہے۔ بڑی بڑی شخصیتوں نے ماں سے تربیت پائی ہے۔ یہ درسگاہ کہلانے کو تو مختصر سی ہوتی ہے لیکن بنتی ہوئی عمارت کی بنیاد ماں کی گود ہی ہے۔ جتنی مظبوط بنیاد ہوگی اتنی ہی مظبوط عمارت تعمیر ہوگی۔ فطری صلاحیتیوں کے اعتبار سے عورت مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ عورتیں مردوں سے کم ذہین نہیں ہوتیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملکہ نور جہاں ، وکٹوریہ، چاند بی بی، رضیہ سلطانہ اور دور حاضر کی وزیر اعظم تھیچر اور اندرا گاندھی نے مردوں کے ہم پلہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے اور دے رہی ہیں۔ بلکہ دور جہانگیر میں جب آفتاب خاندان مغلیہ پورے عروج پر تھا تو ملکہ نورجہاں کا ہی ذہن کام کرتا تھا۔ انہوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جنہیں مرد حکمران پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے۔ جو لوگ عورتوں کو تعلیم دلوانے کے حق میں نہیں ہیں وہ ان کی تعلیم کو صرف ناظرہ قرآن مجید تک محدود رکھتے ہیں دیگر علوم سے واقفیت نہیں کراتے۔

ان کا یہ خیال ہے کہ تعلیم یافتہ عورت بے پردہ فیشن کی دلدادہ فضول خرچ ہوتی ہے۔ سیر و تفریح کی دلدادہ و غیرہ ہوتی ہیں تو اس میں قصور لڑکیوں کا نہیں ہے جن کو ہم تعلیم دیتے ہیں بلکہ ان کے ماحول کا ہے۔ تعلیم انسان کو روشن خیال بناتی ہے ذمہ داری سکھاتی ہے جو لوگ بگڑے ہوئے ہیں وہ تعلیم حاصل کیے بغیر ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ چاہیے وہ مرد ہو یا عورت ۔یہ قصور اس غلط تربیت اور غیر موزوں نصاب و ماحول کا ہے۔ شروع ہی سے اگر ایسے انتظامات ہوں کہ لڑکیوں کی تربیت دین و اسلام کے خطوط پر ہو اور انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول ملے تو تعلیم نسواں معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہیں بن سکتی۔

قدرت نے جو فطری صلاحیتیں عورت کو عطا کی ہیں ان کو بروئے کار لانے کے لئے ان کی صلاحیتیوں کو اجاگر کرنا ضروری امر ہے اور یہ صلاحتیں صرف تعلیم ہی ہے جو کہ اجاگر کرسکے لہٰذا زندگی کے اقتدار میں نکھار اور وقار صرف علم ہی کی بدولت آئے گا۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.