مٹی کا آبخورہ

کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ مارکیٹ جاؤ ں اور چند نفیس سے نازک سے کانچ کے گلاس لے آؤں جن سے جھلکتا ہوا ٹھنڈے یخ مشروبات کا رنگ کچھ عجیب طرح سے بہار دیتا ہے ۔ نہ صرف دعوتِ نظارہ دیتا ہے بلکہ آنکھوں میں تراوٹ اور روح میں تازگی اترتی محسوس ہوتی ہے ۔ لذتِ کام و دہن کے ساتھ ذوقِ لطیف اور تسکینِ جحاب و نظر کا سماں بہم پہنچاتا ہے۔مگر فرحت اور تنخواہ کی آمد دونوں کی شدید ضرورت تھی اور دونوں ہی فی الحال ندارد۔

یوں رمضان کا چاند نظر آتے ہی سب کچھ بھول بھال کر سحری کے انتظامات میں لگ جانا ایک قدرتی امر تھا۔ پہلا روزہ شاید گرمی نامناسب سا شیٹوں والا مکان ساری دوپہر تپتا رہا۔ شام ہوتے ہوتے خاصی نڈھالی نے دبوچ لیا۔ کھانا پکانے کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ رات کے بچے ہوئے سالن سے کام چلانے اور تنور سے روٹی منگوانے کا فیصلہ کر کے عصر کی نماز کے بعد صحن میں بچھے ہوئے تخت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔

’’امی جی افطاری کے لئے کیا بنے گا؟ بارہ سالہ بچی سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی۔

’’ہوں…… ہاں ایسا کرو تمہارے ابا سے کہہ کر کھجور اور تیار پکوڑے منگوا لو اور ہاں زبردست ٹھنڈا بہت سا شربت بھی تیار کر لینا بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ اذان ہونے پر تلاوت میں مصروف چونک کر اپنے دائیں جانب نگاہ ڈالی۔ساری چیزیں موجود تھیں دو پلیٹوں میں کھجور اور پکوڑے رکھے تھے اور جگ بھر شربت بھی تیار تھا۔ کھجور حلق سے اترتے ہی پیاس نے رنگ دکھایا لاؤ بیٹی جلدی دو گلاس لینے کے لئے ہاتھ خود بخود بڑھ گیا۔اسٹیل کا گلاس شربت سے لبا لب بھرا تھا۔ ہونٹوں تک پہنچتے پہنچتے ہاتھ رکنے لگا ۔یہ کیا؟

طبیعت کی نفاست اور ذوق لطیف کو زبردست جھٹکا لگا۔ بدہیت لوٹے سے گلاس نے مشروب کی ساری خوبصورتی اور رنگینی کو نگل لیا تھا۔ صرف ٹھنڈک تھی جو ہاتھ میں لنے پر محسوس ہوئی تھی ۔ نظر کے سامنے وہ بلوریں نفیس نازک گلاس سے چھلتے ہوئے مشروب رقص کرنے لگے جو اپنی رنگوں کی بہار کچھ اور طرح سے دکھاتے اور گلاس کی سطح پر آئی ہوئی شبنم کے ساتھ روح افزا منظر ہوتا ہے۔

امی جان کیا سوچنے لگیں پی لیں نا؟

اوہ…… ہاں جلدی سے گلاس خالی کر کے آگے بڑھا دیا اور لیجئے؟

نہیں بس ۔ اب سادہ پانی دے دو۔ پانی کا گلاس چڑھا کر خودنماز کے لئے کھڑی ہو گئی پروردگار یہ کیسی زندگی ہے؟ چند گلاس کانچ کے نہ خرید سکی۔ جو ذوق لطیف کو تسکین مہیا کرے یہ ذوق بھی تو تیرا ہی عطا کیا ہوا ہے نا؟

رفیق اعلیٰ کے حضور سارے ہی دکھ کہہ دینے کو دل چاہنے لگا۔ جی بھر آنے لگا اور چند آنسوؤں نے راستہ بھی بنایا۔ تھوڑا سا گریبان بھی بھیگا اپنی اس نازک مزاجی کو وہ کیا کرتی؟ کہاں لے جاتی؟ کس کو نے میں دفن کر کے آتی؟ اس کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں تھا، سوائے آنسوؤں کے۔ نماز کے فوراً بعد بیٹی نے دسترخوان لگا دیا۔وہ بھی اپنی ماں کا مزاج جانتی تھی سمجھ گئی تھی طبیعت پر کچھ نہ کچھ بار گزرا ہے، تبھی چہرہ بدلا بدلا سا ہے۔ جلدی سے دستر خوان لگا دیا۔ شاید کھانا کھا کر طبیعت بہل جائے ۔ رات کا سالن بھی تو بہت مزے کابنا تھا نا؟ چھوٹا بیٹا تنور سے روٹی لے آیا رنگین کاغذ اخبار کا روٹی پر لپٹا تھا۔ روٹیاں دستر خواہ پر رکھ دی گئیں اور اس نے اخبار فوراً لپک لیا۔ رنگین صفحہ بھلا کیسے چھوڑتی ۔ باورچی خانے میں آیا ہوا سامان ڈبوں میں چلا جاتا۔ اور کاغذ ہاتھ میں رہ جائے۔ بغیر پڑھے چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مشغلے میں کئی دفعہ بری کام کی باتیں نظر سے گزریں اور کئی دفعہ بڑی غمگین خبریں بھی۔ پھر لمحوں اداس رہنے کا سامان بھی ہوا۔ وہ بھی کیا کرتی فطرت سے مجبور تھی۔ اب جو روٹی والے اخبار پر نظر ٹکی تو ہٹنا بھول گئی۔

بہت ہی قیمتی بات دیکھی تھی۔ اتنی قیمتی کہ سارے جہاں کی دولت اس پر لٹائی جا سکتی تھی۔ اس کے آگے رکھا ہوا کھانا کیسے یاد رہتا!

لکھا تھا مومنوں کی ماں حضرت عائشہؓ کے گھر کا سامان ایک مٹی کا گھڑا، ایک گدا جس میں کھجوروں کی چھال بھری تھی ایک لوٹا اور دو مٹی کے آبخورے جس سے حضور سرور کائنات طعام ونوش کا کام لیا کرتے تھے۔

آہ…… شہنشاہ دو جہاں کے گھر کا یہ سامان مگر نہیں۔ وہ مٹی کے آبخورے اپنی قسمت پر کس قدر ناز کیا کرتے ہوں گے!

آپ ﷺ جو معراج کی رات جنت الفردوس کا بہ نفس نفیس مشاہدہ فرما چکے تھے کیا آپﷺ کے ذوق نفس سے بڑھ کربھی کسی کا ذوق ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کے مزاج گرامی سے بڑھ کر بھی کسی کا مزاج نازک ہو سکتا ہے؟

نہیں ہر گز نہیں۔

پھر آپ نے مٹی کے آبخوروں سے تناول فرمایا اور امت کو وہ آیتیں سنائیں جو کہتی ہیں۔

اہل جنت اس روز عیش و نشاط کے مشغلوں میں ہوں گے ، ان کے سامنے شیشے کے پیالے گردش کرائے جائیں گے۔

شیشہ بھی وہ جو چاندی کی قسم کا ہو گا۔

اﷲ اﷲ نبیؐ کی امت میں ہونے کے باوجود تجھے اپنے ذوق لطیف پر اس قدر ناز ہے؟

اپنے حالات پر اتنی برگشتگی ؟ اس قدر افسوس؟ تو ہے کیا؟ اک ذرہ بے مقدار ایک مشت خاک۔

چٹائی اور پیوند اور یہ زر پوش امت

حرا اور ثور کے غاروں میں جا کر رو پڑوں گا۔

ضمیر نے تازیانے لگائے اور نفس سرنگوں ہو گیا۔

اے خدا مجھے معاف کر دے جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر میرا رواں رواں تیر اشکر گزار ہے۔یہ فرمانبردار بچے، یہ چاہنے والا شوہر شفیق والدین پناہ مانگتی ہوں اس بات سے کہ تیرے ناشکروں میں شمار کی جاؤں!

کاغذ کو احترام سے تہہ کر کے رکھااور مطمئن آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی۔
 
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 22409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.